Meri Faryad Maari Ja Rahi Hai
مری فریاد ماری جا رہی ہے

اکانومسٹ کے میگزین میں چھپے مشہور زمانہ آرٹیکل پر مجھ سمیت من جملہ صاحبان رائے کی رائے یہی ہے کہ سب کچھ پہلے سے ہی پبلک ڈومین میں تھا اور باخبر لوگوں سمیت تحریک انصاف سے وابستہ یا چھوڑ کر گئے لوگ سب واقف ہیں۔ اس میں کوئی ایسی اچنبھے والی بات تھی نہ سنسنی خیز خبر تھی۔ البتہ انٹرنیشنل میڈیا پر یہ سٹوری اتنی مفصل اب شائع ہوئی ہے۔
دوسری بات پر بھی متفق ہیں کہ ایسی سٹوریز سے کسی کو ککھ فرق نہیں پڑنے والا اور جو جہاں جما ہوا ہے وہیں جما رہے گا۔ عوام اپنی لائنز کھینچ چکے ہیں۔ اب چاہے ہزار سٹوریز آئیں، آندھی آئے یا برسات۔ نتائج صفر۔ پولرآئزیشن ایک جانب۔ پراپیگنڈا وار دوسری جانب جو ریاستی و پارٹی سطح پر یعنی فریقین کی جانب سے دھرا دھر جاری ہے۔
نیشنل الیکٹرانک میڈیا یا قومی میڈیا قدغن یا سنسرشپ کا شکار ہے۔ صحافت گھر کی باندی ہے۔ ہر صحافی اپنی سائیڈ منتخب کر چکا ہے جوکہ اس کا کام نہیں تھا۔ اب تو صورت دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کس جماعت کا بیانیئہ بیان کرنے یا دفاع کرنے آئے ہیں یا اہم ریاستی ادارے کی سترپوشی کے ساتھ دستار پوشی فرما کے جاویں گے۔ کس پارٹی کے عشق میں دھمال ڈالے گا۔ کس کو حسینؑ قرار دے گا اور کسے یزید ثابت کرے گا۔ زرد صحافت سے بات بڑھ کر پیلی زرد صحافت تک پہنچ چکی ہے۔ وہی حال ان صحافی صحافنوں کے یوٹیوب چینلز کا ہے۔ وہیں اس شعبے کے بزرگواروں نے مقتدرہ کی ٹی سی کا حلف اُٹھا رکھا ہے۔ تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اور ان کے سوا ایک کھیپ وہ ہے جو سوشل میڈیا پر پانچ ہزار کا مائک اور موبائل پکڑ کر صحافی بن چکی ہے۔ جن کو نہ اس شعبے کے اسرار و رموز سے واقفیت نہ ہی ان کے کوئی صحافتی ایتھکس۔۔
کیا کریں روزگاری مجبوری ہے۔ سنسنی پھیلے گی تو ویوز بھی ملیں گے۔ ویوز ملیں گے تو پیسے ملیں گے۔ بلکل ایسے ہی جیسے لوگ مریں گے تو گورکن کا کام چلے گا، بیمار ہوں گے تو ڈاکٹر چولہا جلے گا، جرم ہوگا تو پولیس کو رشوت نصیب ہوگی۔ چنانچہ چوبیس گھنٹے کے لیے توے گرم ہو گئے اور پھُلکے اُترنے لگے۔ کوئی بشریٰ بی بی کو تمام برائی کی جڑ قرار دے کر ٹلا تو کسی نے ناموس بیبی کے دفاع میں گرما گرم جذباتی بیان داغے۔ الغرض ایک دھماچوکڑی ہے جو مچی ہوئی ہے تاوقتیکہ کوئی نیا کٹا کھُل کر بھاگ نہیں جاتا شو مسٹ گوز آن۔
سوشل میڈیا چونکہ بے لگام اور بدمست ہاتھی ہے جس کے کوئی رولز نہیں نہ ریگولیٹری اتھارٹی ہے سو یہاں کی صورتحال زیادہ گھناؤنی ہے۔ ایسا اودھم مچتا ہے گھنگھرو ٹوٹ جاتے ہیں۔ زلفیں بکھر جاتی ہیں۔ لوگ بدحال ہو جاتے ہیں۔ بعضے بعضے جوشِ خطابت میں لباس کی قید سے آزاد ہو کر ننگے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں معتدل آوازیں یا باشعور صدائیں ماری جاتی ہیں۔
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
سوشل میڈیا بنا ہی گلی کے تھڑے ماحول جیسا ہے۔ یہاں بڑے سے بڑے مدعے کی عمر چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ہمارے ہاں یوں بھی ہر دو دن بعد ایک نیا طوفان پیالی میں اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نہ بھی ہو تو پیدا کر لیتے ہیں۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔۔
اب آ جاتے ہیں اس آرٹیکل یا اس میں چھپے مواد پر میری رائے کیا ہے۔ گذشتہ روز سے میں دیکھ سن رہا ہوں۔ بہت سے صاحبان علم و دانش اور اہلِ قلم و صاحبان رائے کو دیکھا سنا ہے۔ اس موضوع پر اپنی رائے کو محفوظ رکھا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ رائے کیا ہے۔ نہ آپ کی رائے سے سماج بدلتا ہے نہ پولرآئزڈ سوسائٹی میں لوگ غور و فکرکے عادی ہوتے ہیں۔ گو کہ اس تحریر کے پہلے پیراگراف میں ہی رائے دے چکا ہوں مگر ذرا قارئین کی تسلی طبع کی خاطر وضاحتی رائے دے رہا ہوں تاکہ اس کے بعد مجھے کوئی قلم کی نوک کا واسطہ دیتے رائے طلب نہ کرے۔
جہاں یہ بیانیئہ رائج ہو چکا ہو کہ عالمی ابلاغ میں بشمول دی گارڈین، اکانومسٹ، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ وغیرہ وغیرہ میں کوئی بھی ڈالرز دے کر کالم لکھوا سکتا ہے وہاں باقی بات بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہے۔ رپورٹ کسی کے سیاسی بیانئیے کو ہٹ کرے یا کسی کو سُوٹ کرے متاثرہ فریق اسی بیانئیے کا سہارا لے کر مسترد کرتا رہے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنا کریڈیبل ادارہ کیا چھاپ رہا ہے۔ سنہ 90 میں نیویارک ٹائمز کے پورے پیج پر بینظیر کی دو سالہ حکومت کے بعد ان کی مبینہ کرپشن پر رپورٹ شائع ہوئی تھی لیکن سنہ 93 میں بینظیر کو واپس اقتدار میں آنے سے کوئی نہ روک پایا۔ بی بی سی نے میاں برادران پر پوری ڈاکومنٹری "from pakistan to park lane" نشر کر دی تھی۔ میاں صاحب دو تہائی اکثریت لے کر آ گئے۔ الغرض رپورٹس شائع ہوتی رہیں۔ ان کی مقامی میڈیا میں خوب ترویج بھی ہوتی رہی لیکن عوام جہاں جمے ہوئے تھے وہ وہیں جمے رہے۔ پاکستان میں سیاسی خلیج آج سے نہیں۔ اب بس فرق یہ پڑا کہ وقت کے ساتھ مزید گہری ہونے کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتی گئی۔
کرپشن، نااہلیت، ناقص طرز حکمرانی، میرٹ وغیرہ وغیرہ ہمارے لوگوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ بس برائے سیاست مخالف کو رگڑا لگانے کے لیے موضوعاتِ سخن ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے من پسند چہرے کو کرسی پر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی لوٹے تو اس کا ہیرو لوٹے کوئی دوجا نہیں۔ کوئی مارے تو قائد مارے۔ قائد کو سات خون معاف اور دوسرے کے گریبان میں ہاتھ۔ جس کو چاہتے ہیں اس کا احتساب نہیں چاہتے اور جس کے مخالف ہیں اس کو پھانسی پر لٹکانے کے خواہشمند ہیں۔ کیا جھوٹ ہے کیا سچ۔ کیا حق ہے کیا باطل۔ یہ منحصر ہے کہ وہ ٹیبل کی کس سائیڈ کو ہٹ کر رہا ہے۔
یہ بحث بیکار ہے کہ کوئی اپنا نقطہ نظر بدلے گا یا غور کرے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ سب سازش ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت سازشی تھیوریز کو ہی ڈھال بناتی ہے۔ عوام تفریق کا شکار رہتے ہیں۔ ہر ایک کا قائد برحق ہے۔ ہر کسی کے اندر اس کا قائد دھونی رمائے بیٹھا ہے۔ ایک چھوڑ ہزار رپورٹس آئیں۔ کسی کے حق یا کسی کے خلاف آئیں۔ یہ دنیا پاپولسٹس کی دنیا ہے۔ پاپولر ازم کی دنیا ہے۔ اس کے ڈائنامکس اور ہیں۔ وہی حق سچ ہے جو دل کی آواز سے آواز ملا لے۔ باقی سب جھوٹ ہے، فسانہ ہے، سازش ہے، لفافہ ہے۔ ختم شد۔
بہت بد حال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تو کیوں سنواری جا رہی ہے

