Mere Walid Sahib
میرے والد صاحب
میرے والد صاحب اتنے سخت مزاج تھے کہ اگر کبھی بھولے سے بھی ان کے پاس بیٹھ جانا تو انہوں نے ایک بار گھور کے دیکھنا اور پھر بولنا "سکول کا کام ہوگیا؟" میں نے کہنا "جی ہوگیا" تو آگے سے جواب آتا تھا "پیپر کب ہیں تمہارے؟" میں نے کہنا "ابو ابھی بہت وقت ہے۔ ابھی تو نہیں ہیں" آگے سے غصہ سے بولتے "تیاری کس نے کرنی ہے؟ چل اٹھ ادھر سے، کتاب کھول، ہر وقت کھیلنا یا ٹی وی دیکھنا"۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابو کا موڈ انتہائی خوشگوار تھا۔ انہوں نے مجھے بلایا اور بولے "تم کو کچھ چاہیئے؟" میں نے کہا " بائیسکل پرانی ہوگئی ہے مجھے نئی چاہیئے"۔ بولے "اچھا، چلو شام کو چلتے ہیں نئی لینے"۔ شام کو نئی سائیکل آئی اور اگلے دن سکول کی پارکنگ سے چوری ہوگئی۔ اس دن میں نے گھر آ کر ڈرتے ڈرتے بتایا تو ابو نے کہا "کوئی بات نہیں کچھ دنوں بعد نئی لے دوں گا۔ اتنے دن پرانی سائیکل مرمت کروا کے گزارا کرو"۔ کچھ دنوں بعد ان کو پھر یاد کروایا تو غصے سے بولے "نئی لے دوں تا کہ پھر گما دو؟ پیدل جایا کرو تم، کوئی سائیکل نہیں آنی"۔
بدلتے زمانے میں اب فادر ڈے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ میرے لڑکپن میں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ یہ دن منانے کی کوئی روایت تھی۔ اگر ہوگی بھی تو ایلیٹ کلاس میں ہوتی ہوگی، مڈل کلاس میں یہ رجحان پرورش نہیں پایا تھا۔ آپ بتائیں مڈل کلاس گھرانوں کے ابوؤں کو کیسے فادر ڈے کا کارڈ دے بندہ اور کس خوشی میں دے؟ اگر یہ دن تب منایا بھی جاتا ہوتا تو کون مناتا؟ یہ نہیں کہ والد صاحب ہر وقت ہٹلر بنے رہتے۔ نارمل بھی رہتے تھے مگر چوبیس گھنٹوں میں سے آٹھ گھنٹے۔ وہ آٹھ گھنٹے سونے کے ہوتے تھے۔ میں اکلوتا سپوت تھا اس لئے میرے پر کڑا پہرا اور سختی ہوا کرتی تھی کہ بچہ کہیں غلط صحبت میں نہ چلا جائے۔
والد صاحب جب جگر کے کینسر میں مبتلا ہوئے بالکل بدل گئے۔ تب میں انٹر پاس کر چکا تھا اور ان کی دیکھ بھال اور دوائیوں کا انتظام میرے ذمہ ہی ہوتا۔ دو سال کینسر میں مبتلا رہے۔ وفات سے چند دن پہلے ایک رات مجھے بلایا اور بولے " جب تم باپ بنو گے اور تمہارا اکلوتا بیٹا ہوگا تو تب تم کو سمجھ آئے گی کہ باپ کیوں ٹوکتا اور سختی کرتا ہے۔ میں اب زیادہ دن نہیں رہوں گا مجھے خوشی ہے کہ تم وقت سے بہت پہلے سمجھدار اور ذمہ دار انسان بن چکے ہو میرے بعد ماں اور بہن کو سنبھال لو گے"۔
جس دن ابو کی وفات ہوئی میں بالکل نہیں رویا۔ بلکہ ایکدم نارمل رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہ نہیں کہ میں ضبط کر رہا تھا بلکہ سچ میں مجھے رونا آیا ہی نہیں۔ جس دن والد کو میں نے قبر میں اتارا بالکل نارمل تھا۔ سب کچھ کر چکنے کے بعد جب مہمانوں کو رخصت کر دیا اور گھر میں کوئی نہ رہا اس رات مجھے ابو کی بہت یاد آئی اور میں ایکدم اکیلے میں اتنا رویا کہ مجھ سے آنسو تھمتے ہی نہ تھے۔ ہمارے گھرانوں میں باپ کے ساتھ اولاد کا ایسا گنجلک رشتہ ہوتا ہے جو ان کی زندگی میں اتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن ان کے جانے کے بعد بہت یاد آتی ہے۔ یتیمی ایک احساس ہے جو کبھی جان نہیں چھوڑتا۔
میرا بیٹا اپنی بہن کے ساتھ چھپ چھپ کر فادر ڈے پر فادر ڈے کا کارڈ خود بنا رہا تھا۔ بیٹی کی ڈرائینگ اور پیسٹنگ بہت اچھی ہے وہ خود ہی کارڈ ڈیزائن کر لیتی ہے اس لیئے وہ دونوں مجھے سرپرائز دینے کے لئے چھپ چھپ کر کارڈ بنانے لگے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھ تو لیا لیکن ان کو بتایا نہیں۔ جب مجھے وہ کارڈ ان دونوں نے پیش کیا تو میں نے بھی انہیں چاکلیٹس گفٹ کر دیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ مجھے میرے والد کی سختی نے سمجھدار بنایا یا مجھے پیش آنے والے حالات نے، اس لئے مجھے اپنے اکلوتے بیٹے پر ہر لمحہ بے جا یا ناجائز سختی نہیں کرنی۔ اگر وہ میری نرمی سے بگڑتا ہے تو حالات کی مار سے کیسے بچے گا۔ انسان کا ارتقائی عمل ہی اس کا سب سے بڑا باپ ہوتا ہے جو اسے شعور دیتا ہے۔
ایک دن میں اپنے بیٹے کو بولا کہ تمہیں پتا ہے میرے والد یعنی تمہارے دادا کتنے سخت مزاج تھے؟ بولا "یار پاپا! یہ باتیں کتنی بار سنانی ہیں آپ نے؟"