Mere Siasi Tajziye
میرے سیاسی تجزیئے
سیاست پر کم بات کرتا ہوں اس کی وجہ یہ بے پر کی ہانکنے والا مزاج نہیں۔ جب ٹھوس معلومات ہوں تب ہی کبھی کبھار تجزیہ کر دیتا ہوں اور پھر یہ بھی کہ ان مسائل پر گفتگو سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لیے بھی بہت کچھ جانتے ہوئے اگنور کر دیتا ہوں۔ ہر انسان یہاں اپنی لائن کھینچ چکا ہے۔ لوگ پولرآئزیشن کا شکار ہیں۔ سیدھی بات کوئی نہیں سننا چاہتا۔ جب معاشرہ سیاسی طور پر تقسیم ہو چکا ہو وہاں سیاسی موضوعات پر تجزیہ کرنا بے معنی ہوتا ہے۔
البتہ میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک جو کہا اور جو تجزیہ کیا وہ وقت کے ساتھ ثابت ہوگیا اور معاملات پردے کے پیچھے سے باہر آتے گئے ماسوائے ایک خبر کے جو غلط ثابت ہوئی۔ ایک اہم خاتون کے انٹرویو کی خبر دی تھی ان دنوں جب انٹرویوز اور پریس کانفرنسز کا سلسلہ زوروں پر تھا۔ اس خاتون کا نام نہیں افشا کیا تھا۔ اسی خبر کے ساتھ خاور مانیکا کے انٹرویو کی خبر دی تھی تب جب کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یوں ہو جائے گا۔ مانیکا کا انٹرویو آ گیا تھا اس خاتون کا آج تک نہیں آ سکا۔ اس کی کچھ اندرونی وجوہات تھیں جس کے سبب موخر کر دیا گیا تھا۔ وہ خاتون فرح گوگی تھی۔ گوگی سے ڈیل بن چکی تھی۔ پھر پس پردہ کچھ ہوا اور اس کے شوہر گجر صاحب اس کام سے رک گئے۔ خیر، کہنا یہ چاہتا تھا کہ اسی وال پر جتنے سیاسی تجزئیے موجود ہیں پرانے قاری تو جانتے ہیں نئے والے سکرول کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ جو جو کہا وہ وقت کے ساتھ ثابت ہوتا گیا۔
یوں نہیں کہ مجھے الہام ہوتا ہے یا میں کوئی پہنچی شے ہوں یا صحافیوں کی مانند میرے "سورسز" ہیں۔ بالکل نہیں۔ صرف دو بنیاد پر تجزیہ ہوتا ہے۔ اول، میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اہم لوگوں سے ملاقات رہتی ہے جو سیاسی بھی ہیں اور عسکری بھی۔ ان کی گفتگو سے بہت کچھ اخذ ہو جاتا ہے۔ دوم، حالات و واقعات کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کر زمینی حقائق کی روشنی میں پرکھنا ہوتا ہے۔ عقل جس کو رد کر دے اس کو چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ چونکہ میرا رومانس کسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے نہیں اس واسطے عقل آزاد ہو کر اینالسس کرتی ہے۔
آپ عوام کے سامنے جو آتا ہے وہ پیچھے پک رہا ہوتا ہے۔ عوام سامنے آنے والے واقعات پر ایمان لے آتی ہے جبکہ اس کے پیچھے کچھ اور ہوتا ہے۔ ہر سامنے آنے والی خبر کا بیک گراؤنڈ اور اس کا مقصد اور ہوتا ہے مگر عوام چونکہ حقائق سے آشنا نہیں ہوتی اس واسطے اکثر اوقات پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتی ہے۔
تحریک انصاف کے اندر جو گروپنگ ہے اور جو لڑائی چل رہی ہے وہ وکیلوں اور سیاستدانوں کے مابین ہے۔ وکیل سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جماعت کے لیے بہت کام کیا ہے اور سیاستدان سمجھتے ہیں کہ وکیلوں نے حاوی ہو کر جماعت کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ سیاسی لوگوں کی سپیس کم ہوگئی ہے۔ اس لڑائی کا نتیجہ جو بھی نکلے زمینی حقائق یہی ہیں جماعت کے اندر ناراضگیاں پل رہی ہیں تین گروپس بن چکے ہیں۔ تاحال عمران خان کا مستقبل تاریک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بات کرنے سننے کو تیار نہیں ہے۔ یہ جتنے یوٹیوبرز آپ کو بتاتے رہتے ہیں کہ باہر آ رہا ہے، یوں ہو رہا ہے ووں ہو رہا ہے یہ سب کلک بیٹ ہیں۔ نرا جھوٹ ہیں اور بس۔
نوازشریف اور مریم نواز سے بھی اگلے مطمئن نہیں ہیں۔ اس طرف بھی صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ باپ بیٹی کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ پرفارم کرنے کی اہلیت ہے نہ مالی حالات درست ہیں۔ البتہ اسی سیٹ آپ کو گھسیٹنا مجبوری ہے اس کے سوا چارہ نہیں۔ یہ سیٹ آپ جس حد تک گھسیٹا جا سکا گھسیٹا جائے گا۔ دونوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ یہ چیف کی ایکسٹینشن تک چلے گا۔ جیسے ہی توسیع ہوتی ہے توں ہی یہ سیٹ آپ اپنی رخصتی کی جانب جائے گا اور یہی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو اپنی شرائط پر لانے پر مجبور کر دے گی(ان کا خیال ہے ڈیڑھ سال مزید خان صاحب اندر رہے تو وہ ان کی شرائط پر مانیں گے۔ جبکہ مجھے لگتا ہے یہ ان کی ایک اور مس کیلکولیشن ہے)
اس ملک میں کب کس گھڑی اور کیسے ڈیل ویل ہو جائے اس بارے فرشتے بھی لاعلم رہتے ہیں۔ یہ آج تک کی صورتحال ہے۔ کل ہی کوئی ایسی آپشن مل جائے (دونوں جانب) جس سے دونوں کی فیس سیونگ بھی ہو پائے تو ہو سکتا یہ ڈیڑھ سال کا پینڈا شارٹ ہو جائے۔ دونوں طرف فیس سیونگ کا ڈیڈلاک ہے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں آج خان صاحب کو ریلیف دے دیں تو وہ اپنی ہارڈ کور فالونگ کو مولڈ کرکے اسٹیبلشمنٹ کی فرسٹ لائن آف ڈیفنس بنا سکتے ہیں۔ اور یوں سب پھر سے ہنسی خوشی ایک چھت تلے اور ایک پیج پر رہ سکتے ہیں۔