Mere Khadim e Azam
میرے خادم اعظم
تمہارا تخت اور اختیار پانچ برس تک بچا رہے۔ میں تمہارے یا تمہارے ساتھیوں کی طرح پڑھا لکھا اور سوجھ بوجھ والا تو نہیں ہوں لیکن میں نے سنا ہے کہ تم نے پچیس کروڑ میں سے ہم جیسے چوبیس کروڑ کے لئے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا ہے۔
خادم اعظم! مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیرِاعظم ہاؤس کے اخراجات میں چالیس فیصد کمی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ سرکاری عمارتوں پر چراغاں کم ہوتا ہے یا زیادہ۔ وزیر اور جرنیل لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں یا سولہ سو سی سی کی گاڑیوں میں۔ ایئرپورٹوں پر ارکانِ پارلیمان کے خصوصی کاؤنٹر رہتے ہیں یا نہیں رہتے۔ وزیر فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں یا اکانومی میں۔ نیب یا پیمرا خودمختار رہتے ہیں یا کسی کے تابع۔ سکولوں اور مدارس کا نصاب بدلتا ہے یا نہیں بدلتا۔ روزگار کا کمیشن بنتا ہے یا نہیں بنتا۔
خادم اعظم! تمہاری بڑی مہربانی کہ تم نے کم سے کم اجرت سینتیس ہزار روپے ماہانہ کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اگر تم واقعی میرے جیسے کروڑوں لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو تو بس اتنا کرو کہ کاغذ پنسل لے کر بیٹھ جاؤ اور سینتیس ہزار روپے ماہانہ (جو شاید کبھی نہیں ملنے) میں چار افراد کے گھر کا بجٹ بنا دو تاکہ مجھے یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ اتنے پیسوں میں گھر کا کرایہ کیسے نکلتا ہے۔ دو وقت کے لئے آٹا کیسے خریدا جاتا ہے۔ دو بچوں کی فیس اور بیوی کی دوا دارو کہاں سے ملتی ہے۔ ایک ایک جوڑا کپڑا کیسے دستیاب ہوتا ہے۔ مہینے بھر کا مٹی کا تیل/گیس اور بجلی کا بل اور ویگن کا آنے جانے کا روزانہ کرایہ کس طرح پورا پڑتا ہے۔
خادم اعظم! میں نے چار برس تک پیسے جوڑ جاڑ کر ایک ماہ پہلے ایک پرانا ٹی وی خریدا ہے تاکہ میرے بچوں اور بیوی کی شام اچھی گزر جائے لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میں نے ٹی وی نہیں بلکہ عذاب مول لے لیا ہے۔ بچوں نے سوالات پوچھ پوچھ کر ناک میں دم کر دیا ہے۔
ابا! تم بینک سے موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے کیوں نہیں لے لیتے۔ ابا! یہ بینک تو گھر بنانے کے لئے بھی پیسے بانٹ رہے ہیں۔ تم کیوں انکے پاس نہیں جاتے۔ ابا! تعلیم اور صحت کی انشورنس کتنی سستی مل رہی ہے۔ ہم انشورنس کیوں نہیں خرید سکتے۔ ابا! نیا موبائل فون رکھنا کتنا آسان ہے۔ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے۔
خادم اعظم! تمہیں تو معلوم ہے کہ زندگی کو جنت بنانے والے ان اشتہاروں سے پچیس میں سے چوبیس کروڑ لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہماری تو اتنی بھی اوقات نہیں کہ بینک کا چوکیدار ہمیں اندر ہی جانے دے۔ کیا تم ہمیں ہمارا ہی ننگا پن یاد دلانے والے ان اشتہاروں کو بند نہیں کروا سکتے؟
خادم اعظم! جس دن تم ہمیں سینتیس ہزار روپے ماہانہ میں گزارے کا بجٹ بنانا سکھا دوگے۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا درخت بھی سوکھنا شروع کر دے گا۔
والسلام۔
ایک عام پاکستانی