Mazhar Tibbi
مظہر تبی

دولت مند جتوئی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ہے۔ اس کا والد واپڈا میں ایکسئین کے عہدے پر اٹھارہویں گریڈ کا افسر ہونے کے ساتھ خاندانی طور پر جاگیردار ہے۔ اس کی والدہ ایک پڑھی لکھی گھریلو خاتون ہے جس کا تعلق بھی امیر خاندان سے ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ نوجوان گاڑیوں کا شوقین ہے اس لیے گھر میں چار مہنگی کاریں کھڑی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کے یا شاید سارے لاہور کے بہترین سکول ڈی پی ایس سے میٹرک کرنے کے بعد وہ لاہور کے بہترین کالج ایف سی میں داخلہ لیتا ہے۔ شکل و صورت سے وجیہہ ہے۔ چنانچہ لڑکیاں اس پر مرتی ہیں۔ وہ ہر وقت لڑکیوں میں گھِرا نظر آتا ہے۔ لڑکیاں بھی اوسط نہیں بلکہ اونچے خاندان کی۔ یہاں تک کہ گورنر پنجاب کی بیٹی بھی۔ یہ سنہ 1985 ہے۔ لوگ اس نوجوان کو مظہر تبی کے نام سے جانتے ہیں۔
وہ مظہر تبی جس کو کوٹ لکھ پت جیل میں اس کوٹھری میں رکھا گیا جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کاٹی تھی۔ بیرک نمبر تین۔ وہ بیرک جو بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سے مستقل طور پر بند کر دی گئی تھی۔ سالوں بعد وہ کھُلی تو صرف ایک بندے کے واسطے اس کی ہی خواہش پر اعلیٰ سیاسی شخصیت کی سفارش پر کھُلی۔ مظہر تبی کے سامنے ایس ایس پی لاہور رانا مقبول بیٹھے ہیں جو اس سے تفتیش کرنے آئے ہیں۔ رانا مقبول پوچھتے ہیں۔۔
"سچ سچ بتا مظہر، تیرا ضیا الحق طیارہ حادثے سے کیا تعلق ہے؟"۔
مظہر جواب دیتا ہے "مولا عباس کے علم کی قسم میرا اس سے کوئی تعلق نہیں"۔ رانا مقبول کچھ دیر سوچتے ہیں اور پھر اپنے ماتحت ایس ایچ او چوہدری فیروز کو کہتے ہیں" اسے چھوڑ دو اسے جوڈیشل کر دو"۔ چوہدری فیروز وہ انسپکٹر ہے جس نے مظہر تبی کو گرفتار کیا ہے۔ وہ مظہر کو دیکھ کر کہتا ہے "تیری قسمت بہت اچھی ہے۔ افسر آ گئے تیری جان بچ گئی۔ اگر افسر پار لگانے کا کہتے میں تجھے خوشی خوشی گولی مارتا"۔ مظہر سن کے جواب دیتا ہے۔۔
"چوہدری۔۔ خوش قسمت تو تُو ہے۔ تُو اپنا کالے بکرے کا صدقہ دے۔ میں تجھے مارنے آیا تھا۔ تیرے گھر پر مولا عباس کا علم لگا دیکھ کر میرا دل نہیں کیا کہ یہاں راکٹ مار دوں"۔
لاہور میں جہاں ایک جانب جرائم پیشہ گروہوں کے درمیاں گینگ وار چل رہی تھی وہیں یونیورسٹیوں میں طلباء تنظیمیں بھی آپس میں مسلح ہو کر لڑ رہی تھیں۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن نے بدنام زمانہ ڈان ارشد امین چوہدری اور عاطف چوہدری کو پیدا کیا۔ پییپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن نے طاہر پرنس جیسے بدنام زمانہ گینگسٹر کو پیدا کیا، انجمن طلباء اسلام، اسلامی جمعیت طلباء اور استقلال سٹوڈنٹ فیڈریشن جیسی تنظیموں کے ہاں سے بھی ایسے لوگ نکلے جو مقابلے میں یا تو مارے گئے یا انہوں نے حریف کو مارا یا پولیس کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔
سنہ 85 میں چند کمیونسٹ نظریات کے حامل طلباء نے ایک ایسی تنظیم بنائی جس کو کسی سیاسی جماعت کی آشیرباد حاصل نہیں تھی۔ اس کا نام بھی عجب تھا "بلیک ایگلز"۔ اس کا بانی احسان اللہ بوبی تھا (بلیک ایگلز بعدازاں جرائم کی دنیا کا حصہ بن گئی اور احسان اللہ بوبی پر قتل کے کئی مقدمات درج ہوئے۔ لیکن یہ میرا موضوع نہیں)۔ یہ چھوٹی سی تنظیم تھی جس میں روسی انقلاب سے متاثر طلباء شامل تھے۔ مظہر تبی گو کہ ایف سی کالج میں پڑھتا اور اسی کے علی ہوسٹل میں رہائش پذیر تھا مگر سوشلسٹ نظریات کے سبب وہ بلیک ایگل کا ممبر بنا۔ بلیک ایگلز کا وجود سپئیرئیر سائنس کالج لاہور میں تھا۔ لیکن مظہر تبی نے ایف سی کالج میں اس کی ذمہ داری اٹھا لی تھی۔
مظہر تبی لڑکیوں میں بہت مشہور تھا۔ وجہ ایک تو اس کا خاندانی پسِ منظر تھا، دوسرا وہ ہینڈسم جوان تھا جو باقاعدہ جم جایا کرتا تھا۔ بی ایم ڈبلیو اس کی سواری تھی۔ اکثر رئیس زادوں کا مسئلہ انا ہوتی ہے۔ مظہر کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ وہ شارٹ ٹمپرڈ تھا۔ ایک دن کسی لڑکی کے چکر میں اس نے لڑکی کی شکایت پر ایک رب نواز نامی بندے کو خوب پھینٹا لگایا اور پھر طیش میں آ کر اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ قتل کرکے فرار ہوگیا۔ مقدمہ درج ہوا۔ رب نواز نامی لڑکے کے ورثاء بھی بااثر تھے۔
جیسا کہ پولیس والوں کا روایتی طریقہ کار ہوتا ہے۔ تھانہ گارڈن ٹاؤن کا انسپکٹر وحید اکرم اس کے گھر چھاپہ مارتا ہے اور اس کی والدہ کو اُٹھا کر تھانے لے آتا ہے۔ مظہر کے دو چھوٹے بھائی تھے۔ ان کو پیغام دیتا ہے کہ مظہر کو کہو تھانے آ کر سرنڈر کر دے اور اپنی ماں کو لے جائے۔ انسپکٹر وحید نے تھانے لا کر اس کی والدہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ استری سے اس کا کاندھا جلا ڈالا۔ کچھ دیر گزری کہ تھانے میں اوپر سے فون آ گیا اور انسپکٹر وحید کو مظہر کی والدہ کو چھوڑنا پڑا۔ اگلے روز مفرور مظہر تبی نے گھر فون کیا تو اس کی ماں نے اس کو ساری صورتحال بتا دی اور اسے گرفتاری دینے کا کہا۔ مظہر کا اپنی ماں سے گہرا لگاؤ تھا۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں سے مظہر تبی کی زندگی کروٹ لے گئی۔ اس کا نام دہشت کی علامت بن کر جرم کی دنیا میں خیبر تا کراچی گونج اُٹھا۔
چار دن بعد بلیک ایگل تنظیم کے تین دوستوں کے ساتھ یہ انسپکٹر وحید اکرم کو ڈیفنس کے ایک ریسٹورنٹ Olives سے اس وقت جا دبوچتا ہے جب وہ وہاں کھانا کھانے آیا تھا۔ کہا جاتا ہے اس کو اسی نے تھانے میں فون کال کرکے اپنی شناخت آئی جی پنجاب کا بیٹا بتاتے ہوئے اکیلے ملاقات کرنے کو بلایا تھا۔ انسپکٹر وحید کو یہ اپنے تین ساتھیوں سمیت کار میں ڈالتا ہے اور کار میں بیٹھتے ہی اس کے سر پر گولی مار دیتا ہے۔ اس کے بعد یہ جوہر ٹاؤن کے سنسان علاقے میں (اس وقت جوہر ٹاؤن بے آباد ہوا کرتا تھا) ایک پلاٹ میں لگے درخت کی شاخ کے ساتھ انسپکٹر وحید کی لاش پھانسی کی صورت ٹانگ کر لاش کو آگ لگا دیتا ہے۔ پولیس کو جب جلی ہوئی لاش ملتی ہے درخت پر اس کے نام کے ساتھ کیل سے ٹنگا ایک کاغذی نوٹ بھی ملتا ہے "اس نے میری ماں کو جلایا تھا"۔
اس واقعہ نے پولیس کو لرزا کے رکھ دیا۔ قومی اخبارات میں خبر لگی اور پھر ایسے متشدد دماغ یا شارٹ ٹمپر لوگوں کی سیاستدانوں کو ضرورت تو ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما اور سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر سے اس کا تعلق بن گیا۔ لاہور کی تاریخ کا یہ واحد کریمنل ہے جو گن کا استعمال نہیں کرتا تھا۔ یہ اپنی گاڑی میں راکٹ معہ لانچر اور ہینڈ گرنیڈز لیے لاہور میں دندناتا پھرتا تھا اور کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی اسے گرفتار کر سکے۔ پولیس والے اس کو دیکھتے ہی کھسک جاتے تھے۔ ایک بار لبرٹی چوک لاہور میں اس کو گھیرا گیا تو اس نے راکٹ برسانے کے ساتھ ہینڈ گرنیڈ پھینکے۔ لبرٹی میدان جنگ بن گیا۔ ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور چار زخمی ہو کر مسقتل معذور ہو گئے۔ اس کے پاس اس زمانے کا جدید ترین اسلحہ تھا جس کے بارے کہا جاتا ہے اس کو باڑہ سے منگوا کر دیا گیا تھا۔ مظہر تبی کے بارے کہا جانے لگا اس کے پاس ماسوائے ٹینک کے ہر اسلحہ موجود ہے۔ یہ سنہ 88 تھا۔
لبرٹی واقعہ کے بعد مظہر تبی نے فیصل آباد کے ایم این اے الیاس جٹ کے ڈیرے پر پناہ لی۔ یہ وہی الیاس جٹ ہے جو ٹیپو ٹرکاں والا کا عزیز ترین دوست یا یار خاص تھا۔ بلا ٹرکاں والا نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا تھا۔ الیاس جٹ جو فیصل آباد میں پیپلز پارٹی کا رکن قومی اسمبلی تھا۔ پیلا پہلوان جو سونے کے سمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔ ایس پی امان اللہ، جعلی پولیس مقابلے میں بندے پھڑکانے میں اس کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب عالم چوک پر بلا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ یہیں سے مظہر طبی کا لنک لاہور گینگ وار سے بھی ہوا۔ الیاس جٹ کے ڈیرے پر اس نے چار ماہ روپوشی اختیار کی۔
سنہ 89 تک مظہر تبی نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع کر رکھی تھیں۔ یہ امراء کو تاوان کے لیے اغوا کرتا۔ ایک بار پولیس کو مخبری ہوئی کہ مظہر فیصل آباد سے لاہور کے لیے سفر میں ہے۔ انسپکٹر چوہدری فیروز نے قسم کھا رکھی تھی وہ اس کا خاتمہ کرے گا۔ جی ٹی روڈ پر پولیس نے جا لیا۔ مظہر کو سنبھلنے کا موقعہ نہیں ملا وہ اس بار پکڑا گیا۔ اس کو گرفتار کرکے گارڈن ٹاؤن تھانے لایا تھا۔ سنہ 88 میں پیپلز پارٹی ذوالفقار گروپ کی دہشت گرد تنظیم "الذوالفقار" گو کہ ختم ہو چکی تھی لیکن پولیس کو شک تھا مظہر طبی اس کا حصہ رہا ہے۔ الذولفقار کو مرتضیٰ بھٹو نے بنایا تھا اور اس نے ضیاء الحق ریجیم کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے پی آئی اے کی فلائٹ ہائی جیک کرکے کابل اتار دی تھی۔ الذوالفقار کے لوگ ہینڈ گرنیڈز اور راکٹ فائر کرتے تھے وہی طریقہ کار مظہر تبی کا بھی تھا۔ خیر، ایس ایس پی رانا مقبول جو بہت قابل تفتیشی تھے وہ اس سے تفتیش کو خود آئے تھے۔ رانا مقبول بعد ازاں رئیٹائر ہونے کے بعد مسلم لیگ نون کی جانب سے سنہ 2018 تا 2023 سینیٹر منتخب ہوئے۔ رانا مقبول نے اسی لیے پوچھا تھا "سچ سچ بتا مظہر، تیرا ضیا الحق طیارہ حادثے سے کیا تعلق ہے؟"
مظہر تبی کو جوڈیشل ریمانڈ میں کوٹ لکھ پت جیل بھیجا گیا۔ پیپلزپارٹی کے وزیر صحت غلام مصطفی کھر کے بیٹے اور کئی ایم این ایز سمیت بیسیوں کارکنان نے جیل کا محاصرہ کیا اور سپریٹنڈنٹ جیل چوہدری جاوید لطیف سے کہا "مظہر تمہارے پاس ہماری امانت ہے۔ ہم جب چاہیں گے لے جائیں گے"۔ جیل میں مظہر تبی کو شاہانہ پروٹوکول ملا۔ صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا داماد اس کا دوست بن چکا تھا۔ پریذیڈنٹ ہاؤس سے جیلر کو کال آتی ہے کہ مظہر کو بھٹو صاحب والی بیرک نمبر تین میں پورے آرام سے رکھا جائے"۔ بیرک میں ہر سہولت مہیا کی گئی۔ بھٹو صاحب کے بعد سے اس بیرک کو مستقل بنیادوں پر بند کرکے باہر تختی لگا دی گئی تھی "بیادِ ذوالفقار علی بھٹو"۔ اس بیرک میں رہنے کی خواہش کا اظہار مظہر تبی نے کیا تھا۔
جیل میں اس کے ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ کہتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر اسے سو سوا سو لوگ ملتے تھے جن کا ملاقاتیوں کی لسٹ میں نام درج نہیں کیا جاتا تھا یعنی ڈیو پراسس نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ سپریٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں ملاقاتیں کرتا۔ شباب و شراب کا بھی برابر بندوبست لگتا رہا۔ اس نے اندر بیٹھ کر ہی باہر اپنے گینگ سے بندے مروائے۔ جیل کو ڈیرہ بنا رکھا تھا۔ وہ خود اندر بیٹھا رہا لیکن کام باہر چلاتا رہا۔
سنہ 1994 میں حالات بدلنے لگے۔ سید رحمت علی نئے جیل سپریٹنڈنٹ آئے۔ انہوں نے جب مظہر تبی کے ٹھاٹ باٹھ دیکھے تو عملے سے پوچھا "یہ کون ہے؟ اس کو اے کلاس سہولیات کس لیے دی گئی ہیں؟"۔ انہوں نے اس کی سہولیات ختم کرانے کو رپورٹ مرتب کی جو وہ سیکرٹری جیل خانہ جات کو بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن اچانک ان کی ہارٹ اٹیک سے دفتر میں ہی موت واقع ہوگئی۔ ان کی موت ایک معمہ ہے جو حل نہیں ہو سکی۔ کہتے ہیں مظہر تبی سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھا تھا اور سامنے ان کی لاش پڑی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ہارٹ اٹیک ہی تھا۔
سنہ 94 میں پاک ٹیل موبائل سروس نئی نئی آئی تھی اور وہ جیل میں اس کے پاس تھی۔ اس پر اس کے بڑے بڑے لوگوں سے رابطے رہا کرتے تھے۔ طبی کی دہشت کا یہ عالم تھا اس کا ٹرائل جیل میں ہی ہوتا رہا۔ جج صاحب کے برابر اس کی کرسی لگا کرتی اور جج صاحب کے ساتھ اس کو بھی عدالت میں چائے بسکٹ پیش کیے جاتے۔
آٹھ سال جیل کاٹ کر سنہ 97 میں مظہر تبی رہا ہوا۔ رہائی کے بعد اس نے پنجاب کے وزیراعلیࣿ حضر حیات ٹوانہ کے بیٹے ثمر ٹوانہ سمیت کراچی میں سرعام سڑک پر اندھا دھند فائرنگ کرکے گیارہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو قتل کر دیا تھا۔ کراچی میں گرفتار ہوا مگر سندھ کی ایک بااثر شخصیت کی فون کال پر چھوڑ دیا گیا اور اسے کراچی چھوڑنے کا بھی کہا گیا۔ یہ لاہور آ گیا لیکن باہر کی دنیا بدل چکی تھی۔ نون لیگ حکومت میں تھی اور اب اس کے سیاسی دوست اقتدار میں نہیں تھے۔ انہی حالات کا فائدہ پولیس نے اُٹھانے کی ٹھان لی تھی۔ کینال ویو سوسائٹی میں ایک گھر تھا جہاں مظہر تبی کی کئیں محبوباؤں میں سے ایک محبوبہ رہتی تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی تھی اور مظہر سے قانونی رشتے کا تقاضہ کرتی تھی مگر مظہر اس کو قانونی طور پر اپنانے یا اس سے نکاح پر تیار نہ تھا۔ اس نے غصے میں آ کر پولیس کو اطلاع دی کہ مظہر مجھ سے آج ملنے آئے گا یا پولیس نے اس کو مل کر بندوبست لگایا یہ کنفرم نہیں مگر ایک رات مظہر اپنے چار دوستوں کے ہمراہ کار پر آیا۔
ابھی کار گھر کے باہر رکی ہی تھی کہ چاروں طرف سے کار پر فائرنگ ہونے لگی۔ فائرنگ بہت شدید تھی جو بیس منٹس تک جاری رہی۔ گولیاں برستی رہیں۔ جب فائرنگ رکی تو کار کے ساتھ اندر بیٹھے تمام لوگ چھلنی ہو چکے تھے۔ مظہر تبی کو کتنی گولیاں لگیں؟ یہ سوال ہی بیکار ہے۔ پوسٹ مارٹم میں اس کے چھلنی جسم سے چار سو نوے گرام (لگ بھگ آدھا کلو) وزن کے برابر گولیاں برآمد ہوئیں۔ اگلے روز اس کے گھر کے لان میں جنازہ ہوا جس میں صرف سات لوگ شامل تھے۔
مظہر تبی معمولی یا غریب خاندان سے نہیں تھا۔ جرم کی دنیا سیاست کی چھتر چھایا میں ہی پروان چڑھتی ہے اور پھر اہل سیاست ہی ان کرداروں کو ختم کرتے ہیں قبل اس کے کہ کسی کا ہاتھ ان کی گردن تک پہنچ پائے۔ سسٹم ایسے لوگوں کو بناتا ہے، پالتا ہے اور پھر تلف کر دیتا ہے۔ سسٹم کے بارے جرم کی دنیا پر بنی ایک بھارتی ویب سیریز "پاتال لوک" کا ڈائیلاگ ہے
"دیکھ چوہدری! یہ سسٹم سالا دور سے گلا سڑا لگتا ہے مگر اس کے اندر آؤ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ Well oiled machinery ہے۔ ہر پرزے کو پتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور جو پرزہ اس مشینری میں فٹ نہ ہو پائے اسے بدل دیا جاتا ہے!"
بالکل ویسے ہی جرم کی دنیا بھی کا ایک ویل آئیلڈ مشینری ہے۔ جب تک پرزہ چلتا ہے سو چلتا ہے۔ جب پرزہ مشین پر بار بن جائے تو بدل دیا جاتا ہے۔ اوہ ہاں، میں نے آپ کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ مظہر تبی نے اپنا آخری اغواء برائے تاوان ایک بااثر سیاسی خاندان کے داماد کا کیا تھا لیکن پھر مغوی کو ایک دوسری شناسا سیاسی شخصیت کی کال پر چھوڑنا پڑا تھا۔ شاید یہی اغوا اس کو پار لگانے کے فیصلے کا سبب بنا ہو۔

