Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Malik Sahib

Malik Sahib

ملک صاحب

میرے سابقہ سُسر کراچی صدر ٹاؤن کے ٹی پی او تھے۔ ایس پی رینک پر رہے۔ انہوں نے مجھے زندگی کے بہت سے رموز سکھائے۔ پولیس کی نوکری کے سبب ان کا سارا وقت آفس یا تھانوں میں گزرتا۔ کئی کئی دن وہ گھر نہیں آتے تھے۔ میں جب کراچی ان کے ہاں جاتا تو تب وہ روٹین بدل دیتے اور روزانہ رات جتنے دن میں وہاں رہتا وہ گھر آ جایا کرتے۔ مجھے رات کے کھانے پر ملتے۔ باتیں کرتے۔ پولیس کے سچے قصے سُناتے یا وہ کیسز جو بہت عجیب نوعیت کے ہوا کرتے۔ انہوں نے مجھے ایک دن بیٹھے بیٹھے کہا

"بیٹا وہ لوگ جو تم سے دوستی کے دعویٰ دار ہیں ان کو آزماتے رہا کرو چاہے تمہیں کوئی حاجت ہو یا ناں ہو۔ اس طرح دوستوں کے خلوص کا معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کتنا مخلص ہے اور کون زبانی کلامی دوستی کا دعویٰ دار ہے۔ "

ان کی یہ بات مجھے سمجھ نہ آئی۔ میری شکل دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا موبائل اُٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔ پھر اس بندے سے رسمی حال احوال پوچھ کر کہنے لگے "دس لاکھ بھیجنا ذرا ایک جگہ پیمنٹ کرنی ہے، میں بھیجتا ہوں واپس کچھ دن میں"۔ فون بند کر کے مجھے کہنے لگے "دیکھو مجھے کوئی ضرورت نہیں مگر میں نے اس کو آزمایا ہے۔ یہ مجھے بھیج رہا ہے" پھر دوبارہ فون کیا اور اسے کہنے لگے "رہنے دو۔ کام ہوگیا ہے میرا۔ تمہارا شکریہ"۔

مجھے ان کی لاجک اس وقت پلے نہ پڑی۔ میں ان کو اپنے والد کی جگہ سمجھتا تھا۔ ان کو ابو کہا کرتا تھا۔ میں نے کہا "لیکن ابو میرا خیال ہے یوں خوامخواہ کسی دوست کو آزمائش میں ڈالنا ٹھیک نہیں۔ یا تو واقعی کوئی حاجت ہو ناں۔ دوسرا یہ کہ آپ کا یہ دوست جانتا ہے آپ پولیس آفیسر ہیں۔ آپ کے پاس دولت ہے۔ آپ کے واسطے دس بارہ لاکھ معمولی رقم ہے۔ وہ آپ اسے لوٹا ہی دیں گے۔ "

میری بات سُن کر بولے "نہیں بیٹا، ایک بات یاد رکھنا۔ چاہے انسان کے پاس ارب ہا روپیہ ہو مگر کسی کی مدد کرنے کو پائی بھی نکالنا حوصلے کا کام ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو ارب پتی ہیں مگر کسی اپنے، یا غیر یا مستحق کو دھیلا بھی نہیں دیتے۔ ایسے لوگ بھی دیکھے جو غریب ہیں اور جنہوں نے عمر بھر کی جمع پونجھی جوڑ رکھی ہوتی ہے مگر کسی فلاحی کام میں آگے بڑھ کر لگا دیتے ہیں۔ " پھر گفتگو میں ایک وقفہ لیا۔

پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے "وہ دوست جس کے بارے تم کو یقین ہو کہ یہ صاحب ثروت ہے اور وہ تمہاری مدد کرنے سے کترانے کو بہانے بنانے لگے تو سمجھ جاؤ وہ دوست نہیں ہے یا پھر اس کا دل چھوٹا ہے۔ تو ایسے کم ظرف سے دوستی چی معنیٰ؟" پھر چُپ ہوئے اور پھر یکدم بولے "مولا علی کا قول ہے کہ جب تک تم پر مصیبت نہ پڑے تب تک اپنوں میں چھُپے غیر اور غیروں میں چھُپے اپنے ہمیشہ چھُپے رہتے ہیں۔ "

ان کا زندگی بسر کرنے کا اپنا طریقہ تھا۔ مجھے اس وقت تو پھر بھی یہ لگا کہ یوں دوستوں کو بیٹھے بیٹھے آزمانا درست نہیں مگر میں چپ رہا۔ وہ تو وقت کے ساتھ سیکھا کہ ان کی کئی باتیں درست تھیں۔

میں جب کراچی جاتا تو وہ مجھے اپنی سرکاری رہائش پولیس ٹریننگ کالج بلدیہ ٹاؤن کراچی کی چار دیواری سے باہر نہ نکلنے دیتے۔ مجھے اگر کہیں جانا ہوتا تو ساتھ پولیس موبائل لگا دیتے۔ میں اس سے تنگ آ جاتا کہ کیا مصیبت ہے میں کراچی میں خود کہیں کیوں نہیں جا سکتا۔ ایک دن میں نے کہہ دیا کہ مجھے کرفیو میں نہیں رہنا۔ سُن کر بولے "میری مجبوری ہے۔ کراچی شہر میں میں نے جرائم پیشہ لوگوں سے دشمنی مول لی ہوئی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی میری فیملی کو نقصان پہنچا جائے۔ تم جہاں جانا چاہو جا سکتے ہو مگر احتیاط کے ساتھ"۔

ایک دن میں صبح ناشتہ کر رہا تھا کہ اُن کی آفس سے کال آئی اور مجھے کہنے لگے تیار ہو جاؤ ایک جنازے پر جانا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ کونسا جنازہ ہے جس پر مجھے لازمی لے کر جانا ہے۔ خیر، وہ گھر آئے، مجھے ساتھ لیا اور نادرن بائی پاس سے آگے حب کی جانب ایک دربار پر لے گئے۔ دربار کی پارکنگ فُل تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ پیر صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کا جنازہ ہے۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کونسے پیر صاحب ہیں نہ کبھی انہوں نے ذکر کیا کہ ان کا کوئی پیر بھی ہے۔ ہم دونوں اندر حجرے میں جانے لگے تو میں نے غور کیا۔ آرمی کی گاڑیاں، پولیس کی، ائیر فورس کی، نیوی کی، سرکاری انتظامیہ کی گاڑیاں پارکنگ میں لگی ہوئی ہیں اور درجنوں سیکیورٹی اہلکار و گن مین وہاں موجود ہیں۔

حجرہ بہت کشادہ تھا مگر یہ عالم تھا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لوگ قطار بنا کر اندر داخل ہوتے۔ سامنے براجمان پیر کے بیٹے جو اب گدی کے وارث تھے ان سے اظہار افسوس کرتے اور ایسے ہی حجرے سے باہر نکل جاتے۔ ان قطار بنا کر ملنے والوں میں عسکری و سول اداروں کے بڑے بڑے آفیسرز تھے جو افسوس کا اظہار کرتے پیر کے بیٹے سے مل رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو سُسر بھی ملے اور رخصت ہوتے پیر کے بیٹے کو بولے "دس دیگیں میری جانب سے لکھ لیں"۔ اس نے پلٹ کر جواب دیا " ملک صاحب۔ ہوگیا بندوبست سب۔ آپ کا کہنا ہی محبت ہے۔ آباد رہیں"۔

ہم نے جنازہ پڑھا۔ بہت بڑا جنازہ تھا۔ سُسر اپنے دوستوں سے ملنے میں مصروف رہے۔ جب وہاں سے رخصت ہو کر گاڑی میں بیٹھے تو وہ بولے "سارے کراچی و اندرون سندھ کی بیوروکریسی یہاں موجود ہے۔ اسی دربار پر لوگوں کے تبادلے و تقرریوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہاں فوج کے اعلیٰ افسران سے لے کر سول چپڑاسی تک مرید ہیں۔ یہ سب حاضری لگوانے آئے ہیں۔ " اتنا کہہ کر وہ چُپ ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑتے تھے شاید اس لیے کہ میرے ذہن میں جو سوال اُبھر رہا ہے وہ میں پوچھوں۔

میں نے کہا "یہ آپ کے پیر صاحب تھے؟" ہنستے ہوئے بولے "ہاں۔ سیاسی پیر۔ سب اسی آستانے کے مرید تھے تو میں نے بھی سوچا کہ آنے جانے میں کیا قباحت ہے۔ اسی جگہ تو فیصلے ہوتے ہیں۔ پیر جو فوت ہوا ہے وہ ان سب سے کام لیتا بھی تھا اور دیتا بھی تھا۔ تو بیٹا یہ نظام یونہی چلتا ہے۔ سمجھ آئی کچھ؟" اس دن پہلی بار احساس ہوا کہ بیوروکریسی ملک چلاتی ہے اور بیوروکریسی کو پیر صاحبان چلاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ جب خود خدا نے کئی مواقع عطا کیے تو کئی واقعات کا عینی شاہد بنا۔ سمجھ آ گئی کہ یہ سسٹم کیسے چلتا ہے۔

پھر وہ وقت بھی آیا کہ میرا تعلق ختم ہوا۔ سابقہ بیگم سے رشتہ تمام ہوا تو پھر سُسر سے کیسے رہتا۔ اس کے بعد سے مجھے ان کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔ ڈھائی تین سال قبل میں ایک دن کراچی میں تھا۔ میرا دوست سی ایس ایس پاس کر کے پولیس میں گیا اور آجکل کراچی کیماڑی ٹاؤن کا ٹی پی او ہے۔ اس سے عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ سابقہ سُسر کو جانتا تھا۔ اچانک گفتگو کرتے بولا "مہدی۔ ملک صاحب کا انتقال ہو چکا ہے تمہیں معلوم ہے؟" مجھے کیسے معلوم ہوتا۔ یہ سُن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ آنکھیں بھیگ گئیں۔ آج بھی جب ماضی سے یاد آتی ہے تو دل دُکھنے لگتا ہے۔

آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں۔ دشت و صحرا بھی، گُل و گلزار بھی۔ لمحوں کی اُنگلی تھام کر چلا تو لَو دیتے ہوئے چراغوں کا اُجالا بھی دیکھا اور بُجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔

Check Also

Apni Aawaz Buland Karen

By Saqib Malik