Maa Ka Neam ul Badal To Khuda Bhi Nahi
ماں کا نعم البدل تو خدا بھی نہیں
برسوں بیتے، ایک چھوٹا سا بچہ تھا جو اک بار کہیں بازار میں گم ہوگیا تھا۔ میری عمر بارہ سال تھی۔ اماں کے ہمراہ سیالکوٹ قلعہ کے عقب میں واقع انتہائی گنجان بازار میں کھو گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے تو سیالکوٹ قلعے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر خوب رویا پھر ہمت آ ہی گئی۔ انسان بے بس ہو تو ہمت آ ہی جاتی ہے۔ گھر کا پتا اتنا ہی معلوم تھا کہ سڑک اور گلی کا نام جانتا تھا۔ رو دھو کر قلعے کی سیڑھیوں سے اٹھا۔ نگاہوں نے بھیڑ کو تراشنا شروع کیا۔ ایک چہرے پر نگاہ رکی جو بزرگ دکان والا تھا۔ مجھے لگا کہ اس کو اپنا بتایا تو یہ میری مدد کر سکتا ہے۔
میری داستان سن کر وہ بوڑھا شخص ایکدم چونکا۔ اس نے مجھے سینے سے لگایا۔ اپنی دکان پر بٹھایا۔ اپنے لڑکے کو آواز دے کر بلایا اور اسے بولا کہ اس بچے کو سائیکل پر لے حکیم خادم علی روڈ لے جاو۔ آگے سے یہ تمہیں اپنا گھر بتا دے گا۔ اسے گھر تک اتار کر آنا۔ اس نوجوان نے سائیکل نکالی۔ میں سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھا۔ وہ سائیکل چلاتا رہا۔ بازار سے گھر کافی دور تھا۔ مجھے پیچھے بیٹھے دل میں تسلی رہی کہ اب میں گھر پہنچ جاوں گا۔
راستہ کٹ گیا۔ گھر آ گیا۔ جیسے ہی میں اپنی گلی میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابا جی میری اماں کو گلی میں سنبھال رہے ہیں اور اماں گلی میں ہی رو رو کر بیہوش سی ہو رہی ہے۔ محلے دار خواتین اماں کو سہارا دے کر گھر کے اندر داخل کرنا چاہ رہی ہیں۔ ساری گلی میں اک کہرام سا مچا ہے۔ جیسے ہی میں گلی میں داخل ہوا۔ ایک محلے دار لڑکا مجھے دیکھ کر یوں بھاگا جیسے اس نے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو۔ گلی میں داخل ہوتے ہی گلا پھاڑ کر چلایا " مہدی مل گیا ہے۔ وہ سائیکل پر آ رہا ہے"۔
مجھے یاد ہے گھر پہنچ کر اماں نے چوم چام کر سینے سے لگائے رکھا۔ ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر چکا تھا۔ ڈاکٹر قریشی جو فیملی ڈاکٹر تھے اور گھر سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھا کرتے تھے وہ آئے۔ ڈرپ چڑھائی۔ رات گئے اماں کی طبیعت نارمل ہوئی۔ اس دن کے بعد اماں مجھے کبھی ساتھ لے کر بازار نہیں گئیں۔
سن 2011 کا قصہ ہے۔ میں سکردو میں موجود تھا۔ اس شام سورج ڈوبا تو برفپوش پہاڑوں پر کالا بادل ٹھہر گیا۔ شفق کی سرخی بھی ختم ہوئی۔ انڈس کے کنارے بہتے پانی کا شور تیز ہونے لگا۔ دور پہاڑوں پر بسے مکانوں کی بتیاں جلنے لگیں۔ انڈس کے ریتلے کنارے پر چلتے چلتے نظر اٹھا کے دیکھا تو کالے بادلوں نے برفپوش سفید چوٹی کو ایسے گھیرا ڈال رکھا تھا جیسے کالا ناگ کنڈل مارتا ہے۔
اندھیرا پھیلنے تک میں دریا کے ریتلے کنارے سے اوپر آ کر سڑک پر چلنے لگا۔ سڑک کے کنارے لگے اخروٹ کے درخت کے ساتھ ایک اکیلی بھیڑ کا معصوم سا بچہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ یہ میمنہ شاید اپنے ریوڑ سے بچھڑ گیا تھا یا اس کا مالک اسے اپنے ٹھکانے پر نہیں پہنچا سکا تھا۔ سردی بڑھ چلی تھی۔ اس معصوم سے میمنے پر مجھے ترس آنے لگا۔ گزرتے گزرتے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ وه ہلکا سا منمنایا۔ جب میں چلنے لگا تو وه میرے پیچھے پیچھے منمناتا ہوا چلنے لگا۔ میں رکا تو وہ بھی رک گیا۔ ایسے ہی چلتے چلتے اس کو پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس تک لے آیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے اس لان میں باندھ دیا اور اسے اس کے مالک تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔
وہ مسلسل منمناتا رہا تو مجھے خیال آیا شاید یہ بھوکا ہوگا۔ چوکیدار کو کہا کہ اسے کچھ کھانے کو تو ڈال دو وہ بھوک سے منمنا رہا ہے۔ چوکیدار مقامی بلتی شخص تھا۔ اس نے جواب دیا "سر، یہ تب تک منمناتا رہے گا جب تک یہ اپنی ماں کے پاس نہیں پہنچ جاتا۔ آپ بے فکر رہو۔ اس کا مالک اس کو تلاش کرتا آ جائے گا یا صبح میں خود اس کو تلاش کر لوں گا۔ ابھی تو رات ہو چکی ہے"۔ میں یہ سن کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر گزری ہوگی کہ چوکیدار آیا " سر وہ بھیڑ کا مالک آ گیا ہے، وہ اپنا میمنہ لے جا رہا ہے"۔
میں دیکھنے کو باہر لان میں آیا۔ اس بلتی شخص کے ساتھ بھیڑ تھی۔ وہ اس بھیڑ کو ساتھ لئے میمنے کی تلاش میں نکلا تھا۔ وہ بھیڑ اس میمنے کی ماں تھی۔ جیسے ہی وہ ریسٹ ہاوس کے قریب سے تلاش کرتا گزر رہا تھا۔ بھیڑ منمنائی۔ ادھر سے میمنہ منمنایا۔ ماں نے اپنا بچہ اپنی جبلت کی بنا کر خود ڈھونڈ لیا تھا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا " چچا تم بھیڑ ساتھ لے کر تلاش میں کیوں نکلے؟"۔ اس کی چھوٹی چھوٹی گول مٹول بلتی آنکھیں مزید سکڑیں۔ بولا " یہ ماں ہے یہ نہ ہوتی تو بچہ اندھیرے میں کہاں اور کیسے تلاش کرتا"۔
وہ بچہ لے کر تو چلا گیا۔ میں وہیں لان میں کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا اور اپنی مرحومہ ماں کو یاد کرتا رہا۔ بھیڑ اپنے میمنے کا ماتھا بار بار چاٹتی چلی جا رہی تھی اور بچہ بار بار ماں کے پیٹ سے لگتا چلا جا رہا تھا۔ انجم سلیمی کا شعر یاد آ گیا۔
روشنی بھی نہیں اور ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل تو خدا بھی نہیں