Kuch Dhoondti Rehti Hain Jo Khilne Ki Tarah Ho
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں جو کِھلنے کی طرح ہو
آپ نے کبھی خزاں دیکھی ہے؟ کبھی خشک پتوں سے اٹی زمین پر درختوں کے بیچ چلے ہیں جہاں سردیوں کی ہلکی دھوپ چھن چھن کر اتر رہی ہو؟ وادی میں بہتی ہوا کی سائیں سائیں سنی ہے؟ رات کو ٹین کی چھت پر گرتے خشک پتوں کا نوحہ کان پڑا ہے؟ نیلی پڑتی وادیوں میں صبح کی پہلی سنہری کرنیں اترتی دیکھی ہیں؟ ٹھنڈے یخ پانیوں پر چمکتے گرم سورج کا عکس دیکھا ہے؟ دیکھا ہوگا۔ شاید محسوس بھی کیا ہوگا۔ مگر آپ میں سے بہت کم نے ان مناظر کو جھیلا ہوگا۔
ٹرانزیشن پیریڈ۔۔ رت بدلنے کا عمل۔۔ زمین کرہء سرد مہری میں آ رہی ہے۔۔ پت جھڑ کے آغاز کا موسم۔۔ اشجار کی بے لباسی کا تماشہ۔۔ تیز خنک ہواؤں کے شب و روز۔ جسموں کے کپکپانے کے دن۔۔ دھوپ میں گھلتی سردی۔۔ پرندوں کا اپنے ہی پروں میں چھپے رہنا۔۔ فضا میں سرایت کرتی انتر ہوت اداسی۔۔ ویران کھیت۔۔ بدلتے جذبات۔۔ ڈھلتے چہرے۔۔ اکڑتے جسم اور ایسے میں کسی خسارے کا یاد آ جانا انسان کو بالکل ہی بجھا دیتا ہے۔ جیسے چراغ ہوا کے زور سے گل ہو تو ایک لمبی لکیر دھوئیں کی دور تک تاریکی میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔
ایسی کئی رتیں کئی برسوں سے جسم چھید کر گزر چکی ہیں۔ ہر سال دل منہدم ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہر سال اس موسم میں شمالی وادیوں کی راہ ناپتے قراقرم ہائی وے پر پولیس انٹری چیک پوسٹس پر روکا جاتا ہے اور ہر بار یہ جاننے کے بعد کہ میں گلگت بلتستان کو برائے سیاحت جا رہا ہوں معصوم کوہستانی پولیس اہلکاروں کا حیرت سے جواب ملتا ہے "وہاں جانا ہے تو گرمیوں میں جاؤ۔ سردی میں جا کر کیا کرو گے" اور ہر بار میں جواب میں مُسکرا دیتا ہوں۔
پہاڑوں پر خزاں آ رہی ہے۔ پہاڑی علاقے میں سر شام ہی آدھی رات پڑ جاتی ہے۔ پتوں سے ڈھکی نارنجی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے سارے دن کی یادیں فاسٹ فارڈ انداز میں چلتی رہتی ہیں۔ سرسراتی ہوا درختوں کے پتے گراتی، گھماتی، اڑائے پھرتی ہے۔ مقامی بچے ان پتوں کے تعاقب میں دیر تک بھاگتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی بچہ کسی ایک پتے کو پکڑنے کی خواہش میں پہاڑ کے نشیب میں اُتر جاتا ہے۔ کبھی من چاہا پتہ پانیوں میں اتر جاتا اور بہاؤ پر ڈولتا ڈولتا اتنی دور نکل جاتا ہے کہ اسے پکڑنا ممکن نہیں رہتا۔ صنوبر کے پتوں میں خزاں کے موسم میں بھی جان رہتی ہے، وہ ہاتھوں میں ملنے پر چڑ مڑ نہیں ہوتے لیکن اخروٹ کا درخت بہت جلدی پتوں سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس کے پتے کو ہاتھ میں لیں تو فوراً برادہ بن جاتا ہے۔ پہاڑوں پر خزاں کا موسم میرے مزاج سے ملتا جلتاہے اس لیئے مجھے خزاں ہر سال بلاتی ہے۔ رنجیت سنگھ کی حکومت، میرے مزاج اور خزاں کی ہوا میں کافی قدریں مشترک ہیں۔
خزاں کی ہوا ایک طرح سے انتشار کا موسم ہے گویا ذہن میں کوئی لفظ گھوم رہا ہو لیکن ہونٹوں پر نہ آنے پائے۔ گھروں میں داخل ہونے والوں کے لباس پر خشک پتے، کھڈوں اور نالوں کے پانیوں کے کنارے ٹھہرے کیسری براؤن پتے، بچوں کے بستروں کے اندر باہر پتے، سڑکوں پر سسکتے، سرسراتے چھوٹے بڑے خشک پتے۔ کھڑکیوں اور جالیوں میں اٹکے پتے، بجلی کی تاروں پر ٹنگے ہوئے اور گیلے کپڑوں سے لپٹے پتے۔ جا بجا پتوں سے سرسراتی آوازیں رات کے وقت کھُلے برآمدوں میں دبے پاؤں چلتیں مدھم ہواؤں میں ٹین کی چھتوں پر ایسی مخلوق کا سراغ دیتے جو روشنی میں نظر نہیں آتی۔ چنتا کا موسم۔ ہراساں سی کیفیت۔۔
بادلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بھی ایک رنگ آتا اور جاتا ہے۔ بہار میں شگوفے اور کلیاں فطرت میں تسلسل پیدا کرتی ہیں، بات سے بات چلتی ہے۔ سردیوں میں بھی برف اور بارش ایک تواتر کا باعث ہوتی ہے۔ برساتیں کھُل کے برسیں یا کن من کی شکل میں ہوں ہریالی ہر سُو بکھر جاتی ہے لیکن خزاں سب موسموں سے کٹا ہُوا موسم ہے۔ اس میں حزن و ملال، یاس و خوف کی کیفیت غالب رہتی ہے۔ اور انہیں قاتل ہواؤں کے زور میں، افراتفری و کیاس کے مناظر میں، چِنتا و ہراسانی کے موسم میں میری آنکھیں پھر بھی کچھ ڈھونڈتی رہتیں ہیں۔
وُہ شوقِ نمو ہے کہ خزاں میں بھی یہ آنکھیں
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں جو کِھلنے کی طرح ہو