Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Khizan Ka Mausam Bulata Hai

Khizan Ka Mausam Bulata Hai

خزاں کا موسم بلاتا ہے

چناب کا کنارا، سندھو دریا کی ہوا، ٹیگس کی شام، کاسابلانکا کی آذان، گوجال کی خاموشی، لزبن کی دھند، سیشلز کے جزیرے، ناروے کا حُسن، سائبیریا کی وسعت، دریائے شیوک کا بہاؤ، برالڈو کی وحشت، مچلو کی بستی، دشت کی دوپہر اور گوتم کا سکون۔۔

خیال کی دنیا، یاد کا لنگر اور قید کے دن۔۔

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے

پہاڑوں پر خزاں کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر شجر اداس نظر آتا ہے، باہر چاہے جتنا شور ہو فِضا میں عجیب سی خاموشی محسوس ہوتی ہے اور ایسے میں جب ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ زرد اور نارنجی پتّے گرتے ہیں، اُن کی جو چاپ سنائی دیتی ہے اس آواز میں ازل کا دُکھ بھرا ہے۔ میں اس آواز کا شکار ہوا ہوں۔ اشجار پتوں سے خالی ہونے لگتے ہیں۔ سخن شناس اسے اداسی اور ہجر کا موسم کہتے ہیں کیونکہ موسم کا اثر انسان پر بھی بہر حال ضرور ہوتا ہے۔

فطرت سے جو مضبوط تعلق ہے، چاند سے، درختوں سے، پرندوں سے، تو اس کو میں خزاں کی رُت میں ایک اور معنویت میں دیکھتا ہوں۔ میں پت جھڑ میں سیر مہتاب اس طرح سے نہ کرسکوں جیسے دیگر موسموں میں ہوتی ہے، باغوں میں نہ جا سکوں تو ایسی کیفیت میں نہ جانے کیوں ایک اداسی طبیعت پر غالب آ جاتی ہے۔ خزاں میں اداسی، غم اور ہجر کی کیفیات کے علاوہ رومانویت کا عنصر بھی اتنا ہی شدید ہے۔ سردیوں کی شامیں یعنی گلابی جاڑے بھی فنکاروں کی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رُت بدلتی ہے تو اپنے ساتھ اپنے، مزاج، منظر اور ذائقے لے کر آتی ہے اور پیلی لال رُتوں کی یہی سوغاتیں ہیں۔

"لومڑیوں کے لئے بھَٹ ہیں، پرندوں کے لئے گھونسلے مگر ابنِ آدم کا کوئی ٹھکانہ نہیں"۔ انجیل مقدس

موسمی تغیرات نے انسان کو ہمیشہ سے اپنا اسیر رکھا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے خزاں نے بہت متاثر رکھا ہے۔ شمال میں خزاں کا آغاز ہوتے ہی میرے اندر کھلبلی مچنے لگتی ہے۔ مسافر کی خاص ازلی حس انگڑائی لینے لگتی ہے۔ دل تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ یہ میرے ساتھ ہی انہونا نہیں ہوتا ہر وہ مسافر جو خزاں رُت میں ایک بار شمال کا سفر کر چکا ہے وہ سمجھ سکتا ہے۔ پہاڑوں پر رنگ بکھرنے لگیں تو سفیدی پھرے اپنے گھرکے کمرے میں بیٹھے رہنا مشکل ہوا جاتا ہے۔

خزاں کا موسم آگ میں جلتا ہوا وحشت زده حُسن ہے۔ جو دل کا قرار لوٹ لیتا ہے۔ بقول منیر نیازی

حُسن تو بس دو طرح کا ہی خوب لگتا ہے

یا آگ میں جلتا ہوا

یا برف میں سویا ہوا۔۔!

آپ کبھی خپلو کے خزاں رسیدہ جنگلوں میں اُتر کر دیکھیں۔ میں برسوں قبل اک بار اُترا تھا اور پھر ہر سال وہاں جاتا رہا۔ جنگل کی زمین پیلے مرجھائے پتوں سے سجی تھی جیسے کسی نے نارنجی قالین بچھا دیا ہو۔ اس قالین پر میں مہاتما بدھ کی طرح آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

مہاتما بدھ نے پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑتے پتّوں سے مٹھی بھری اور آنند کی طرف دیکھا:

"اے آنند! کیا سارے پتّے میری مٹھی میں آ گئے ہیں؟"

آنند جھجکا۔ پھر بولا، "آقا! یہ رُت پت جھڑ کی ہے۔ جنگل میں اتنے پتّے جھڑتے ہیں کہ اُن کی گنتی نہیں ہو سکتی"۔

مہاتما بدھ بولے، "اے آنند! تُو نے سچ کہا ہے پت جھڑ کے اَن گنت پتّوں میں سے مَیں بس مٹھی بھر ہی سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گُت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، مَیں نے اُن کا پرچارکیا، پر سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔ سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں"۔

مکمل سچ کبھی کسی کو نہیں ملا۔ ہم اپنے حصے کے سچ ہی سمیٹتے ہیں۔ اُدھر قراقرم کے پہاڑوں میں کئی ایسے ویرانے ہیں جہاں انسان کو گیان مل سکتا ہے بات ساری دھیان کی ہے مگر مکمل سچ کو کون پا سکا ہے؟

جب گھر پڑے جیپوں کا دھواں آپ کو نتھنوں میں محسوس ہونے لگے اور پورٹروں کے گیت آپ کو کانوں میں سنائی دینے لگیں تو یہ عنقریب پیش آنے والے شمال کے سفر کا بلاوا ہے۔ بلاوا آ چکا ہے۔ خزاں موسم آ رہا ہے۔ ایک بار پھر میں شمالی وادیوں میں ہوں گا۔ پاکستان کا شمال میرا پہلی محبت ہے۔ بار بار جاتا رہا، ہر بار جاتا رہا۔ انتر ہوت اداسی، لمبی چُپ، گہرے سناٹے اور خشک پتوں کی سرسراہٹ۔ یہی میرا نشہ ہے۔

ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
خشک پتے کا بھی گرنا تو دھماکا ہونا

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam