Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Judicial Activism Aeen Aur Nizam e Mumlikat Ki Musical Chair

Judicial Activism Aeen Aur Nizam e Mumlikat Ki Musical Chair

جوڈیشل ایکٹوازم، آئین اور نظامِ مملکت کی میوزیکل چئیر

اس ملک میں جسٹس منیر چھ برس، اے آر کارنیلیئس آٹھ برس، حمود الرحمان سات برس اور جسٹس محمد حلیم ساڑھے آٹھ برس تک چیف جسٹس رہے۔ مگر ان کے نام عام آدمی سے زیادہ قانون دانوں اور جرنلسٹوں کو یاد ہیں۔ کیونکہ افتخار محمد چوہدری سے پہلے تک عدالتِ عظمی کی جانب سے مفادِ عامہ کے نام پر ازخود نوٹس لینے کی روایت خال خال ہی تھی۔

عدالت کا ڈیکورم اورجج کا رکھ رکھاؤ لگ بھگ وہی کلاسیکی انداز کا تھا۔ جو سرکارِ انگلیشیہ کے دور سے چلا آ رہا تھا، یعنی جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ افتخار چوہدری پہلے جج تھے، جنہوں نے تین قسطوں میں مجموعی طور پر لگ بھگ ساڑھے چھ برس چیف جسٹس کی کرسی کو رونق بخشی اور وہ پہلے چیف جسٹس تھے، جن کی عوامی پذیرائی سیاستدانوں سے بھی زیادہ تھی۔

وہ چاہتے تو حاصل شدہ طاقت کے بل پر حکومتوں سے ایسی عدالتی اصلاحات کروا سکتے تھے کہ جن کے سبب عام آدمی کے لیے حصولِ انصاف کسی حد تک تیز رفتار اور قابلِ دسترس شکل اختیار کر جاتا اور ان کا نام تاریخ میں صرف جوڈیشل ایکٹوازم کے سبب نہیں، بلکہ جدید عدالتی ڈھانچے کے معمار کے طور پر یاد رکھا جاتا۔ مگر آج افتخار محمد چوہدری صرف ایک ریٹائر چیف جسٹس کے طور پر یاد ہیں۔

افتخار چوہدری کے بعد اب تک آٹھ چیف جسٹس آئے، مگر سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمات میں دو سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یعنی سوا لاکھ سے زائد کیسز فیصلے کے منتظر ہیں۔ اگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی تعداد کو بھی جمع کر لیا جائے، تو اس وقت پاکستان کی پوری عدلیہ کو 19 لاکھ مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے اور اس ڈھیر میں ہر برس اوسطاً ایک لاکھ مقدمات کا اضافہ ہو رہا ہے۔

مقدمات کا انبار ایوانِ عدل سے بھی اونچا ہو رہا ہے۔ جانے کتنے دیوانی مقدمات ہوں گے۔ جو تیسری یا چوتھی نسل بھگت رہی ہے۔ جہاں تک فوجداری انصاف کا معاملہ ہے، تو تین مجرم ایسے بھی ہیں۔ جنہیں پھانسی دیے جانے کے سال بھر بعد باعزت بری کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں کریں تو کیا کریں۔ انصاف کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں؟ کیا قانون میں اپنے بارے میں بھی ازخود نوٹس لینے کی گنجائش ہے؟

آئینی جمہوریت کا انحصار قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم پر ہے۔ ایسا کوئی بھی حکم جس کے پیچھے ٹھوس قانونی جواز یا آئینی طاقت نہ ہو، تو ایسے حکم سے نہ صرف سرکاری اداروں میں سراسیمگی پھیلتی ہے، بلکہ آئینی ستونوں پر قائم جمہوری ڈھانچے کی بنیاد بھی ہل سکتی ہے۔ آئینی عہدے پر فائز کوئی بھی جج ایسا کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا۔

جس کا جواز آئین سے اخذ نہ کیا گیا ہو۔ اپنی صوابدید پر کوئی بھی حکم بادشاہ جاری کیا کرتے ہیں۔ جب کوئی جج عدالتی دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس سے نہ صرف عدلیہ کے بارے میں عمومی تاثر مجروح ہوتا ہے، بلکہ عدلیہ کے ادارے پر عوامی اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے۔ ایسا قدم اٹھانے والا کوئی بھی جج نہ صرف اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرپاتا بلکہ اپنے آئینی کردار سے بھی آنکھیں موند لیتا ہے۔

ایک جج جس نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہو، وہ اس حقیقت سے آنکھ نہیں چرا سکتا کہ قانون اور آئین کا سب سے پہلا اطلاق خود اسی جج پر ہوتا ہے۔ عدالتی مداخلت اس وقت طے شدہ دائرے سے باہر نکل جاتی ہے۔ جب عدلیہ کی جانب سے دیگر قانون ساز یا قانون نافذ کرانے والے اداروں کے معمول کے فرائض میں بھی بلاجواز دخل اندازی کا گمان ہونے لگے۔

آئینی جمہوریت میں قانون ساز ادارے پارلیمنٹ کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہوا کرتا ہے۔ سپیکر کی رولنگ کو اپوزیشن عدالت عظمی میں چیلنج تو کر سکتی ہے۔ مگر عدالت ہاؤس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی آرڈر آئین سے متصادم ہو تو اس کا جائزہ لے کر اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ مگر اپنی کریز چھوڑتے ہوئے دو قدم آگے بڑھ کر شاٹ لگانے کا اختیار آئین نے عدالت کو بھی نہیں دیا۔

ڈویژن آف پاور اسی آئین نے متعین کر رکھی ہے۔ شائد اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف کو اندھا ہونا چاہیے، مگر جج کی دونوں آنکھیں کھلی ہونی چاہئیں۔ جان کی امان پاؤں تو دوسری عرض کروں؟ کریز سے نکل کر شاٹ مارنے پر کیا جج پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ یا یہ صرف سول انتظامیہ و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے لئے ہی بنا ہے؟

گو کہ زمینی حقائق اور تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہر غیر جمہوری عمل اور دور میں عدالت عظمی کی جانب سے مکمل فیصلہ جاتی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے۔ سہولت کاری کی سروسز فراہم کرنے پر بھی کوئی آرٹیکل حرکت میں آتا ہے یا نہیں؟

Check Also

Ye Middle Class Muhabbat Karne Wale

By Azhar Hussain Azmi