Jhal Chakian Ki Mashoor Daal
جھال چکیاں کی مشہور دال
سرگودھا سے کام بھگتا کر لاہور آ رہا تھا۔ قسمت خراب کہ سرگودھا سے موٹروے انٹرچینج کے درمیاں میں نے "جھال چکیاں کی مشہور دال" کھا لی۔ اس نے پیٹ میں جاتے ہی کروٹ لی اور پھر اُبالے لینا شروع کر دئیے۔ جیسے ہی میں سیال انٹرچینج پہنچا میرا معدہ جواب دے گیا۔ وہ دال کو سنبھالے رکھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔ میں نے فوراً ہیسکول پمپ پر بنے پیڈ واش روم کے سامنے بریک لگا دی اور بھاگم بھاگ اندر جا گھُسا۔ یہ پیڈ واش روم ذرا صاف ستھرے اور اچھے ماحول کے حامل ہیں۔
کموڈ پر سخت مقابلہ ہوا۔ بارڈر پر شدید گولہ باری ہوئی۔ کچھ افاقہ ہُوا تو باہر نکلا۔ ان پیڈ واش روم کے چارجز سو روپے تھے۔ باہر کھڑے بندے کو سو روپے دئیے اور پھر جیسے ہی گاڑی میں بیٹھا یکایک دائیں پسلی سے ایک طوفان سا اُٹھا اور بائیں پسلی کی جانب چل دیا۔ معدے میں پھر جھکڑ سے چلنے لگے۔ میں پھر بھاگ کر واپس منزل مقصود پر پہنچا۔ پھر باہر نکل کر سو روپے دئیے۔ اب کافی بہتر محسوس ہو رہا تھا۔ سفر شروع ہوا۔
کچھ فاصلہ ہی طے ہُوا تھا کہ پھر سے کیٹیگری تھری کا طوفان سر اُٹھانے لگا۔ سُکھیکی قیام و طعام کے آتے آتے وہ کئٹیگری فائیو میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں نے پھر سے بریک ماری۔ پھر سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے ہیسکول واش رومز کی راہ لینا پڑی۔ گارڈ نے مجھے عجلت میں پایا تو آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھول دیا۔ باہر نکلا تو اسے از رہ مزاح کہا " یار میں تو تمہارا ریگولر اور ارجنٹ کسٹمر ہوں۔ مجھے ڈسکاونٹ نہیں ملے گا کیا؟"۔ اس نے کمال بیزاری سے جواب دیا " پائین! اوتھے ویکھو کیمرے لگے نیں، ریکارڈ وچ آندا اے سب، ڈسکاونٹ اسی نئیں دے سکدے"۔
میں نے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھا۔ گارڈ کو کہا " آپ کا کوئی ممبرشپ کارڈ بھی نہیں ہے؟ مطلب اگلے انٹرچینج پر بھی سٹے کرنا ہو تو ہر بار سو روپے لگیں گے کیا؟"۔ اب اس نے دگنی بیزاری سے مجھے گھور کے دیکھا " پائین! جے تہانوں پیسیاں دا مسئلہ اے تے تسی نہ دیو، اونج ہی کر لو"۔۔
یہ جواب پا کر میں نے پھر گاڑی کی راہ لی۔ عجب انسان تھا " اونج ہی کر لو" کا کیا مطلب ہوا؟ گھر پہنچنے تک ایک اور "بریک" لینا پڑی۔ گھر پہنچ کر جب فری کا کموڈ نصیب ہُوا تو حساب کتاب کیا۔ انکشاف ہوا کہ دال کا بل ڈھائی سو روپے تھا۔ واش رومز پر چار سو لگے۔ اتنا مہنگا دال کھانا نہیں پڑا جتنا مہنگا دال نکالنا پڑ گیا۔ اس دن کے بعد سے جب جب کام کے سلسلے میں سرگودھا جانا ہوا "جھال چکیاں کی مشہور دال" دیکھ کر مجھے غصہ آنے لگتا ہے۔
پچھلے دنوں خرم مشتاق سے ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو کہنے لگا " یار دو تین ماہ سے قبض جان نہیں چھوڑ رہی۔ ڈوفالیک سیرپ بھی پیا ہے مگر پھر بھی مسئلہ رہتا ہے"۔ میں نے اسے برادرانہ مشورہ دیتے کہا کہ فوراً سرگودھا نکل لو اور جھال چکیاں کی دال پیٹ بھر کے کھاؤ۔ ایسا رگڑ کر معدہ صاف کرے گی کہ تم سِنک کو بند کرنے والا ڈھکن لگاؤ گے تو بہاؤ رُکے گا۔ وہ تو تاحال نہیں جا سکا مگر آپ میں سے کسی کو قبض کو شکایت ہو تو بلاجھجھک آزما لے۔ ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے؟