Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Janwar Se Lagao

Janwar Se Lagao

جانور سے لگاؤ

گئے برسوں کی بات ہے۔ میں نے جرمن شیفرڈ نسل کا ایک کتا پالا تھا۔ تین ماہ کا بچہ ملا تھا۔ اس کا ساتھ چھ ماہ رہا۔ وہ بیمار پڑا، ہر ممکن علاج کروایا مگر جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی موت پر میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس کو گھر سے دور ایک خالی پلاٹ میں دفن کرتے میرے آنسو تھمتے نہیں تھے۔ چار دن اداسی ڈیرہ لگائے رہی۔ اس کا گھر جو میں نے خود بنایا تھا وہ جب خالی نظر آتا میری آنکھیں نم ہو جاتیں۔

چار دن بعد میں نے اس کا سارا ساز و سامان بمعہ گھر اکھاڑ دیا۔ اس کی ساری نشانیاں مٹا دیں۔ اس دن قسم کھائی کہ آئندہ کوئی جانور نہیں پالنا۔ میرے اس پالتو کتے کا نام میں نے "Ruby " رکھا تھا۔ وہ یوں کہ جس دن وہ گھر میں آیا اس کے گلے میں اس کو بیچنے والے نے ایک لاکٹ پہلے سے ہی ڈال رکھا تھا۔ جس میں روبی جم سٹون چمک رہا تھا۔

اس نے وہ اتارنا مناسب نہیں سمجھا اور یونہی میرے حوالے کر دیا۔ جب اسے دفنا رہا تھا، تو اس کے گلے میں لٹکتا لال سرخ پتھر سورج کی کرنوں سے چمک رہا تھا۔ آج بیٹھے بیٹھے وہی چمک آنکھوں میں پڑنے لگی۔ میرا بیٹا کئی دنوں سے ضد کر رہا ہے کہ اسے ایک بلی پالنی ہے۔ بیٹی کہتی ہے کہ طوطا پالنا ہے۔ میں ان دونوں کو ٹالتا رہا کہ پہلے آپس میں سمجھوتہ کر کے ایک جانور پر اتفاق کر لو پھر مجھے بتانا۔

آج وہ دونوں ہم زبان ہو کر بولے کہ بابا بلی لا دیں۔ جب ان کی ضد کافی بڑھ گئی تو میں نے انہیں سمجھانا چاہا کہ بچو جانور پالنا بطور فیشن نہیں ہوتا۔ اس کا ویسا ہی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جیسے وہ گھر کا فرد ہو۔ اسے وقت پر کھلانا، وقت پر نہلانا ہوتا ہے۔ بچوں سی کئیر کرنا ہوتی ہے۔ اس کو اپنا وقت بھی دینا ہوتا ہے۔ اس سے جذباتی وابستگی بھی ہو جاتی ہے۔

مگر بچے تو بچے ہیں، یہ ایسے کیسے سمجھتے ہیں۔ آج ان کو پہلی بار روبی کی داستان سنائی۔ وہ کیسے ملا، کیسے ساتھ رہا، اس کا گھر میں نے کیسے بنوایا۔ ان دنوں تو پیسوں کی قلت بھی رہا کرتی تھی۔ تنخواہ سے تو گھر مشکل سے چلتا تھا، بقیہ تنخواہ والد کے علاج کے سلسلے میں ڈاکٹروں اور ہسپتالوں میں لگ جایا کرتی۔ اس کے باوجود چونکہ روبی سے دلی لگاؤ تھا۔ اس کے واسطے بچت کر کے چھوٹا سا بہت پیارا سا گھر بنوایا۔

یہ گھر بالکل ویسا تھا۔ جیسے انسانوں کا گھر ہوتا ہے۔ اندر ایک منی بلب جلتا رہتا، سردیوں میں گرم رہتا، گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کو چھوٹے سے روشن دان بھی چار جانب تھے۔ جب داستان کا اختتام ہو رہا تھا۔ تو آج بھی اس کا ذکر کر کے میری آواز لڑکھڑا گئی۔ عرصے بعد یوں اچانک مجھے اپنا ماضی یاد آیا تھا۔ جب سُنا کر چپ ہوا تو بیٹی بولی " بابا رہنے دیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ بلی کو کچھ ہوا تو مجھے بہت دکھ ہو گا"۔

البتہ بیٹا چونکہ بیٹا ہے اور مردانہ نفسیات جلد جذباتی نہیں ہوتی اس نے کہا " میں خیال رکھوں گا مگر پھر بھی بلی کو کچھ ہوا تو مجھے بھی بہت دکھ ہو گا مگر اس سے میں سٹرانگ بنوں گا۔ جیسے آپ میرے سٹرانگ بابا ہیں " ان کو بلی مہیا کر دینی چاہئیے۔ ایسی وابستگی انسانوں کو انسان بنائے رکھتی ہے۔ ایسا دُکھ انسان کا دل نرم کیئے رکھتا ہے۔ اور ویسے بھی آج کے بے حس معاشرے اور بے حسی کی زندگی میں حساسیت پالنا نعمت سے کم نہیں۔

جانور سے لگاؤ انسانی تربیت کے لئے بہتر ہے۔ بس ایک سوچ آ رہی تھی کہ اگر اسے کچھ ہوا تو یہ تو بچے ہیں، ایک دو دن رو دھو کر سنبھل کر پھر اپنی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جائیں گے۔ سکول ہے، ہوم ورک ہے، دوست ہیں، ان کا سارا دن تو انہی کی نذر ہو جاتا ہے۔ البتہ میری اس پکی عمر میں یہ رنج آسانی سے نہیں نکلے گا۔

Check Also

Hamara Azeem Mohsin

By Maaz Bin Mahmood