Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Janam Din Aur Pur Asrar Cake

Janam Din Aur Pur Asrar Cake

جنم دن اور پُراسرارکیک

سن 2009 کی بات ہے۔ سیالکوٹ پیرس روڈ پر واقع لیکسن گروپ کی ایک کمپنی سائبر نیٹ میں بطور نیٹورک انجینئر جاب کرتا تھا۔ میری چھوٹی بہن جو مجھ سے 2 سال چھوٹی ہے اس نے ایم اے اکنامکس اور ایم بی اے فنانس کرنے کے بعد ایک مالیاتی ادارے میں نوکری کر لی۔ بہن کا آفس میرے آفس سے چند قدموں کے فاصلے پر ہوتا تھا۔

یکم اپریل کو میری سالگرہ کا دن آیا تو آفس میں مجھے ایک کیک موصول ہوا۔ کیک پر لکھا تھا " ہیپی برتھ ڈے مہدی"۔ ساتھ ایک کارڈ تھا جس پر لکھا تھا "آئی لو یو مہدی"۔ کیک و کارڈ پر کوئی نام نہیں تھا۔ آفس کے کولیگ مجھے چھیڑنے لگے کہ یہ کون ہے؟ میں خود بہت تذبذب کا شکار رہا کہ یہ کون گمنام ہستی ہے جس نے میری سالگرہ یاد بھی رکھی اور یوں کیک بھی بھیج دیا۔ کچھ دن تو میں اس بارے کھوج لگاتا رہا مگر کچھ معلوم نہ پڑ سکا۔

اگلے سال 2010 میں یکم اپریل کو پھر ایک کیک موصول ہوا۔ آفس بوائے نے وصول کیا اور مجھے میرے آفس میں لا تھمایا۔ میں نے اس سے انکوائری کی تو وہ بولا کہ سر جی ایک آدمی آیا تھا وہ دے گیا۔ کورئیر والا لگ رہا تھا۔ کیک پر وہی عبارت تھی اور کارڈ پر لکھا تھا " ہمیشہ خوش رہو مہدی"۔ آفس میں کولیگز مجھ سے جونیئر تھے۔ انہوں نے میرا مزاق بنا لیا کہ سر کی کوئی خفیہ چاہنے والی ہے۔

میں سوچتا رہا کہ اگر یہ کسی لڑکے یا دوست کا کام ہوتا تو اول لڑکے ایسا کرتے نہیں۔ اگر کر بھی لیں تو وہ زیادہ دیر چھپاتے نہیں اور خود ہی راز کھول دیتے ہیں۔ مگر مسلسل دوسرا سال ہے اور اب تک کوئی سامنے نہیں آیا۔ گھر میں اس بارے کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ سابقہ بیگم پہلے ہی ہم مزاج نہیں تھی، اوپر سے اسے یہ بتا دیتا تو وہ نجانے بات کا کیا بتنگڑ بنا ڈالتی۔

تیسرے سال سن 2011 میں مجھے یاد ہے کہ میں گھر پر تھا۔ کسی وجہ سے آفس نہیں گیا تھا۔ مجھے کولیگ کی کال آئی کہ مہدی سر آپ کا کیک آیا ہے۔ میں بھاگم بھاگ آفس پہنچا کہ شاید اب کے بھیجنے والے نے اپنا کوئی سراغ دیا ہو مگر بے سود۔ حسب روایت کیک پر میرا نام لکھا تھا اور کارڈ پر پھر اک بار " آئی لو یو" لکھا تھا۔ یہ معاملہ میرے لئے ایک معمہ بن گیا تھا۔ میں سوچتا رہتا کہ آخر کون ہو سکتی ہے جو سامنے نہیں آتی۔ مجھے یہ سو فیصد یقین تھا کہ یہ کسی دوست یا کسی لڑکے کا کام نہیں۔ اگر کوئی ہوتا تو تین سالوں میں بول پڑتا۔

چوتھے سال 2012 میں آخری بار کیک موصول ہوا۔ اس کے بعد کبھی نہیں آیا۔ کافی عرصہ میں اس سوچ میں مبتلا رہا کہ آخر کون تھی اور اب کہاں ہے۔ آخر اس نے مجھے اپنا نام پتہ کوئی سراغ کیوں نہ دیا۔ آج 9 سالوں بعد مجھے وہ مل گئی ہے۔

بہن کی شادی ہو گئی تو وہ شوہر کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئی۔ اس کی شادی میں نے کی۔ گزشتہ برس سن 2021 میں وہ یکم اپریل کو پاکستان تھی۔ کینیڈا سے چھ سال بعد آئی تھی۔ اس نے مجھے سرپرائز دینے کو میری سالگرہ کا کیک اسپیشل ریڈی کروایا۔ میں ایک کام بھگتا کر آیا تو کیک بھی آ گیا۔ جب یہ کیک کٹ چکا اور بٹ بٹا چکا تو وہ بولی " مہدی تمہیں یاد ہو گا کہ سیالکوٹ تمہارے آفس میں کوئی لڑکی ہر سال سالگرہ کا کیک بھیجا کرتی تھی۔ چلو آج بتا دوں وہ میں تھی"۔ میں نے اسے گھور کے دیکھا۔ یہ وہی ہو سکتی تھی کیونکہ اس بات کا ذکر میں نے آج تلک اس سے کیا نہ گھر میں بیگم سے کیا تھا۔ ویسے بھی اسے کیا ضرورت تھی اب جھوٹ کہنے کی۔ میں نے اسے کہا " یار!!!! مجھے نہ بتاتی۔ جہاں اتنے سال چھپایا اب بھی نہ بتاتی۔ میں بوڑھا ہو کر اسی خیال سے خوش رہتا کہ کوئی مجھے کیک بھیجا کرتی تھی"۔۔ اس نے قہقہہ لگایا اور بولی " مجھ سے زیادہ تم کو کوئی پیار نہیں کر سکتا بھائی"

ٹھیک کہتی ہے۔ اس سے زیادہ مجھے کون چاہ سکتا ہے۔ اس نے بچپن میں میرے ہمراہ غربت بھگتی ہے۔ وہ اپنے حصے کی چیز بھی مجھے دے دیا کرتی تھی۔ نبی کریم نے اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہہ کی ان کے واسطے خدمت کے اعتراف میں ان کو "ام ابیھا" کا لقب عطا کیا تھا جس کا مطلب ہے "اپنے باپ کی ماں "۔ یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہے۔

Check Also

Dushnam Tarazi Aur Haqaiq

By Hameed Ullah Bhatti