Insaf Hota Nazar Aana Chahiye
انصاف ہوتا نظر آنا چاہئیے
ملٹری کورٹ نے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کے پچیس کارکنان کو پانچ سال سے دس سال کی قید بامشقت سزائیں سنا دیں ہے۔ فوجی عدالتوں کا میں ذاتی طور پر اول دن سے مخالف ہوں۔ تب سے مخالف ہوں جب مرشد خان ملٹری کورٹس کو فوری انصاف کے حصول کے لیے بہترین کہا کرتے تھے۔ آج ان کے کارکنان فوجی عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور مستقبل میں شاید ان کو خود سامنا کرنا پڑے۔
فوجی عدالتیں آئین سے ماورا ہوتی ہیں۔ عدلیہ سے الگ اور برابر جو بھی عدالت قائم کی جائے اس کی قبولیت نہیں ہو سکتی۔ یہ سپیشل کیسز (دہشت گردی) یا آرمی افسران کے ٹرائل کے لیے تو ہو سکتی ہیں جو کہ دنیا میں وہاں وہاں ہوتیں ہیں جہاں فوج ہے مگر سول یا عام افراد یا عام شہریوں کے لیے ان میں ٹرائل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ٹرائل بند کمروں میں ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس ماضی میں کئی بار ان ٹرائلز کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے کہہ چکیں ہیں کہ محض ایف آئی آر اور کسٹڈی کے دوران ملزم کا اعترافی بیان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نو مئی میں "معصوم" کارکنان تھے۔ جو بھی مقدمہ ہے وہ اوپن کورٹس میں پیش کیا جانا چاہئیے تھا۔ عدلیہ تو ویسے بھی کمپرومائزڈ کا لیبل اپنے ماتھے پر چپکا چکی ہے۔ یہ اب سے نہیں چھ دہائیوں سے ایسا ہے۔ ان کے ملٹری ٹرائل کی کیا ایسی نوبت پیش آ گئی تھی۔ ان عدالتوں سے جھوٹا یا سچا جو بھی فیصلہ آئے گا اس کو عوامی قبولیت نہیں ملے گی اور نتیجتہً افواج سے لوگ مزید نفرت کریں گے۔ میں خان صاحب کے بھی ملٹری ٹرائل کے حق میں نہیں۔ وجوہات یہی ہیں جو اوپر بیان کر چکا ہوں۔
باقی "وہ" جیسا چاہیں کریں ان کو کون روک سکتا ہے یا انہوں نے کونسا ہمیں پڑھ کے رک جانا ہے۔ یہ تو بس اپنا پوائنٹ آف ویو رکھنا ہوتا ہے۔ انصاف کا ایک ہی رول ہے "انصاف ہوتا نظر آنا چاہئیے"۔ جب عدالت ہی خفیہ ہو، نظر ہی کچھ نہ آ رہا ہو، جج وردی پہن کے بیٹھا ہو، تو کیسی عدالت اور کیا فیصلوں کی قبولیت یا وقعت۔
اصول یا نظریہ یا نکتہ نظر ایک ہی ہے۔ فوجی عدالتیں کسی صورت قابل قبول نہیں خواہ ان کا استعمال کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت یا شہریوں کے لیے کیا جائے۔ ہر فرد کو فئیر ٹرائل کا حق ہے۔ عدلیہ پر بہت سے سوالات ہیں اس کے باوجود خفیہ ٹرائل کو نہیں سراہا جا سکتا۔ اِدھر بندہ کرے بھی کیا۔ یہی جماعت اور اسی کے قائد دن رات فوجی دھن پر بیانات دیتے رہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت میں دلائل دیتے رہے۔ صرف اس لیے کہ تب ان کا خیال تھا ان عدالتوں سے سیاسی مخالفین کو کدو کش کر دیا جائے۔ اب جب ماضی کی بہت سی غلطیوں کا احساس ہو بھی رہا ہو تو پُل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ دوسرے کے لیے گڑھا کھودتے کون سوچتا ہے کہ کل کو اس میں خود گرنا پڑا تو کیا ہوگا۔