Inqilab Aur Inqilabi
انقلاب اور انقلابی
سپیرا بین بجاتے مجمع کو اپنے ساتھ ریڈ لائن پر لے گیا اور مجمع مست تھا، اتنا مست کہ اگر سپیرا بین رکھ دیتا تو مجمع اسی پر ٹوٹ پڑتا۔ ریڈ لائن تک لے جانا تو آسان تھا مگر بنا تیاری بنا ذہن سازی کے یہ عمل کارِ بیکار تھا اور وہی ہُوا ہے۔ طاقتور سے اختیار لینے کو، نظام بدلنے کو یا تانا شاہی سے جُوجنے کو پہلے قوم کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ بیج بونے سے قبل زمین ہموار کرنا ہوتی ہے۔ قوم کو صاف بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو اس راہ میں یوں بھی ہو سکتا ہے اور ووں بھی۔ پھر جب خلقت سب جانتے ہوئے نکلتی ہے تو نظام بدلے جاتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ خان صاحب اسی نظام کا حصہ بننے کو بیتاب تھے اور سٹریٹ پاور دکھا کر "اُن" کی توجہ کے طالب تھے۔ اسی سسٹم میں اپنی پوزیشن بحال کرنا چاہتے تھے۔ انسانی تاریخ میں کبھی یوں نہیں ہوا کہ سسٹم سے لات پڑنے پر کوئی راتوں رات انقلابی بن گیا ہو اور بزور طاقت واپس آ جائے۔
لینن جب اُٹھا تو اس نے کہا کہ وائٹ آرمی (زارِ روس کی فوج) تمہاری عورتوں کو اُٹھا سکتی ہے۔ تمہارے بچے مارے جائیں گے۔ تمہاری زمین پر قبضہ ہو جائے گا۔ خلقت جب لینن کے لیے نکلی تو سب جانتے ہوئے نکلی اور پھر ریڈ آرمی (لینن کے سپاہی) نے روس کا نقشہ بدل دیا۔ اس کے پیچھے لینن کی دس سالہ مشقت تھی۔ آپ روس کی تاریخ دیکھ لیں۔
خمینی نے فرانس سے آڈیو پیغامات ریکاڑ کروا کے دس سال زمین ہموار کی اور پھر جس دن خمینی تہران میں لینڈ ہُوا شاہ ایران کا دھرن تختہ ہوگیا۔
تُرکی میں ٹینکوں کے آگے لوگ یونہی نہیں لیٹ گئے تھے۔ سوشل ویلفئیر پارٹی کے طیب اردوان نے ترک عوام کا مفاد معیشت کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ ان کا معیار زندگی بلند کیا تھا اور یہ مشقت بارہ سالوں پر محیط تھی۔ وگرنہ تو ترکی میں اس سے قبل چار مارشل لاء لگ چکے تھے۔ کوئی باہر نہیں نکلا تھا۔ اردوان کے لیے عوام نکلی تو اس کی وجہ نظام جمہوریت اور اس کے ثمرات کا عوام تک پہنچنا تھا۔
ابھی تو ٹینک بھی نہیں آئے اور سناٹا چھا گیا تھا۔ وجہ یہ کہ قبلہ نے اپنی فالونگ کو بس نعرے سکھائے تھے اور کچھ نہیں۔ ظلم ہوگیا؟ ہاں بالکل ہُوا۔ تو کیا آپ کو لگتا تھا ایسا نہیں ہوگا؟ کیا یہ سوچ تھی کہ بس ہنستے گاتے، اُچھلتے کودتے الیکشن ہوں گے اور پھر رانجھا تخت ہزارے جا بسے گا؟
اچھا تو کیا یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عورتوں کے ساتھ دست درازی ہوتی ہے اور فورسز کر گزرتی ہیں۔ کیا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ تا فاٹا تا بلوچستان تا سندھ فوجی آپریشنز کو بغور پرکھا تھا؟ نہیں۔ آپ تاریخ سے شناسا ہی نہیں تھے۔ آپ بس نعروں کے ورغلائے تھے اور مجھے آپ سے مکمل ہمدردی ہے۔ یوں نہیں ہوتا کہ کل ایک ڈکٹیٹر مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کا پولنگ ایجنٹ اور اسے ووٹ دینے والا اور جنرل باجوہ کا ساتھی اچانک آج کا انقلابی بن جائے۔
گنڈاپوری حکومت یو ایس ایڈ سے امداد لے رہی۔ سیاسی قیادت امریکی سفیر سے ملاقاتیں کر رہی۔ اخے "مداخلت نامنظور"۔
سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کریں گے۔ ڈائیلاگ صرف عاصم منیر سے کریں گے۔ اخے سول سپرمیسی کی جنگ ہے۔
حمودالرحمن کمیشن رپورٹ تو دہائیوں پہلے دی ہندوستان ٹائمز نے چھاپ دی تھی۔ آج یاد آ ہی گئی تو ایوب خان کے پوتے عمر ایوب سے مانگ لیں ناں ایک کاپی۔ وہ پارلیمانی لیڈر ہے آپ کا۔
جب بھی بڑے ہو کر شعور آئے تو آزو بازو کی دُنیا اور اس کی پتھریلی حقیقتوں کو دیکھ کر دماغ کی جالا بند کھڑکیاں صاف کر لیجئیے گا۔ سب صاف نظر آئے گا۔ نان سیریس رویہ خود ہی ترک ہو جائے گا۔ یہ انقلابی دھرتی ہے نہ کسی لیڈر نے اس کے لیے قربانی دی ہے نہ قوم سازی کی ہے۔ موج مارو تے آئندہ واسطے سبق حاصل کرو۔
انقلاب کے لیے دہائیوں کی محنت درکار ہے۔ لیکن سب سے پہلے اپنا مؤقف ایک کر لیں۔ امریکا مخالف یا امریکا سے ورکنگ ریلیشن شپ۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف یا اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کا رد اور ان کے وجود سے انکار یا ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کی پالیسی۔ عدلیہ پر عدم اعتماد یا سب پر مکمل اعتماد۔ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھُو نہیں چلتا۔ تیرا جج میرا جج، تیرا جرنیل میرا جرنیل، تیرا دوست ملک میرا دوست ملک، وغیرہ کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ ابھی ایک سال اندر گزارا ہے۔ چار پانچ سال اسی طرح گزار لیں اور ان سالوں میں اپنی فالونگ کو اچھے سے پختہ کر لیں تو شاید باہر نکلتے ہی آپ کو منزل مل جائے۔ پھر سسٹم بدلنا ہوا یا اسی سسٹم کی کرسی چاہئیے ہوئی تو جو آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز چاہے گا وہی ہو جائے گا۔