Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Inegol Fort

Inegol Fort

ایناگول فورٹ

کچھ دیر قبل برصہ پہنچا ہوں۔ اپنے ائیر بی این بی اپارٹمنٹ میں داخل ہو کر سامان دھرتے ہی بیگم نے وائی فائی کنیکٹ کیا۔ میں ازمیر سے برصہ چار سو کلومیٹر ڈرائیونگ کر کے قدرے تھک چکا تھا۔ آنکھیں موندے بستر پر لیٹ گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ بیگم نے کب گوگل میپ آن کیا۔ مجھے تو بس یکدم تراہ نکالنے والی آواز سنائی دی " سنیں سنیں، یہ دیکھیں "۔ میرا تراہ نکل گیا کہ خدا خیر کرے کیا ہو گیا۔ بیگم نے موبائل سکرین میری مکمل پھٹی آنکھوں کے سامنے کرتے کہا۔

"ایناگول قلعہ یہاں سے قریب ہے۔ صرف پچاس کلومیٹر تو ہے۔ چلیں پھر؟"میں نے اپنی پھٹی ہوئی آنکھیں ملتے بیزاری سے پوچھا کہ اب یہ کیا ہے ایناگول؟ خدا کا واسطہ اب کسی بابے کا نہ بتانا۔ جب سے ترکی آیا ہوں میں دربار گھوم گھوم کر تھک چکا ہوں۔ اب بابوں کو چھٹی دے دو بس۔ صبح عثمان اور اورحان کے مزارات پر لے کر تو جا رہا ہوں۔ اب بس۔

بیگم نے سُن کر دانت پیستے ہوئے کہا " یہ مزار نہیں ہے۔ آپ کو کچھ بھی معلوم نہیں بڑے بنتے ہیں کہ میں ہسٹری جانتا ہوں۔ آپ کو تو ایناگول کا بھی علم نہیں "۔ "جی آپ بالکل درست فرما رہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم بیگم نہ مجھے ایناگول کو جاننا ہے۔ مجھے فی الحال آدھ گھنٹہ ریسٹ کرنا ہے پھر باہر نکل کر شہر میں گھومیں گے"۔ میں کچھ دیر سستانا چاہتا تھا۔ سوچا کہ اس جواب سے بیگم خاموش ہو جائے گی۔

"اچھا۔ پر یہ کوئی مزار نہیں ہے آئی سمجھ آپ کو۔ خود تو آپ بے ہدایتے ہیں۔ آپ کو ویسی ہی بیوی ملنی چاہئیے تھی جو خود بھی برائے نام مسلمان ہوتی۔ مجھے طعنے سناتے جاتے ہیں بس"۔ بیگم کے اندر طوفان سر اُٹھانے لگا۔ صورتحال انتہائی کشیدہ رخ اختیار کرنے لگی۔ اس سے قبل کہ بیگم کے اندر اُمڈتا سمندری بگولہ مجھے بھگو کر اڑا کر رکھ دیتا میں نے سوچا اپنا سکون تو غارت ہو ہی چکا اب باقی بچا ہوا دن تو غارت ہونے سے بچا لوں۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا " او ہو، میرا یہ مطلب تھوڑی تھا۔ چلیں گے ایناگول بھی۔ نہ لے کر جانا ہوتا تو پاکستان سے تمہیں ساتھ کیوں لاتا بھلا؟ پرسکون رہو بس۔ "اس نے سن کر "ہوں " کیا۔ پھر چند لمحوں کو خاموش ہوئی۔ میں سمجھا کہ طوفان ٹل گیا ہے۔ میں مطمئن ہو کر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ بیگم کی آواز پھر آئی " ایناگول وہ قلعہ تھا جو نکولا کے قبضے میں تھا۔ "۔ میں نے سُن کر "اچھا" کہہ دیا۔

مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ حضرت نکولا رحمت اللہ علیہ بھی ڈرامے کے کوئی کردار ہوں گے۔ اور کیا۔ نجانے وہ کونسی گھڑی تھی کہ میں نے بیگم کو نارمل کرنے کی خاطر آنکھیں موندے پوچھ لیا۔ " بیگم، حضرت نکولا کے مزار مبارک پر نہیں جائیے گا کیا؟"۔ میرا مقصد صرف اسے خوش کرنا تھا۔ مجھے نکولا کی بابت کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں سمجھا کہ جیسے اب تلک ڈرامے کے کرداروں کے مزاروں پر حاضری دیتی رہی ویسے ہی یہ بھی کوئی بزرگ کردار ہوتا ہو گا۔

"استغفراللہ۔ آپ تو بالکل ہی جاہل نکلے ہیں۔ نکولا تو غیر مسلم تھا اور اس نے مسلمانوں پر بہت جبر و ستم ڈھایا تھا۔ وہ منگولوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتا تھا۔ وہ بدکردار انسان آپ کا ہی بزرگ ہو گا۔ میرا نہیں۔ "۔ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے غصے سے کہا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بجائے ماحول نارمل ہونے کے مزید ابنارمل ہونے لگا۔

میں نے بلآخر بیگم کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ میں جاہل مطلق ہوں اور چونکہ آپ جانتی ہیں کہ مجھے ایسے ڈراموں سے شغف بھی نہیں اس واسطے نہیں جانتا کہ کون کیا تھا۔ دو تین منٹ کی وضاحت کے بعد بیگم خاموش ہو گئیں۔ ان کی خاموشی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ مکمل مطمئن نہیں بھی ہوئیں تو آدھ مطمئن ہو چکی ہیں۔ وگرنہ وہ کسی صورت خاموش نہیں رہتیں۔

صاحبو! جب مقدر ہی ہارا ہو تو چین کسے نصیب۔ دس پندرہ منٹ کو گہری آنکھ لگ گئی تھی۔ جب پاور نیپ کے بعد آنکھ کھُلی اور بیگم نے دیکھا کہ میں اُٹھ بیٹھا ہوں تو ابھی ابھی بیگم کی آواز آئی ہے۔ " اوہ یہ دیکھیں۔ بیلیچک قلعہ بھی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہاں بھی اگر آپ چاہیں تو لے جا سکتے ہیں۔ "

میں نے رضامندی میں سر ہلا دیا ہے بھائیو۔ مجھ میں مزید جاننے کی سکت نہیں کہ اب بیلیچک میں کون ہے اور وہاں کیا ہوا تھا۔ میری جانب سے یہ سارے کردار ٹٹھے کھوہ میں جائیں۔ چین پود، اپنی لائف تو ترکی میں گھوڑے ہی لگی ہوئی ہے۔

Check Also

The Story Of Civilization

By Mubashir Ali Zaidi