Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Indian Moseeqi

Indian Moseeqi

انڈین موسیقی

ہمارے کھانوں کو بیرونی دنیا انڈین کھانوں اور ہماری موسیقی کو انڈین موسیقی کے نام سے جانتی ہے۔ کئی بار یوں ہوا ہے کہ کسی ملک گھومتے کوئی ملا تو بات انڈین کھانوں اور موسیقی پر چل نکلی۔ مجھے ذاتی طور پر بیرونی دنیا سے موسیقی پسند آئی ہے وہ مراکو کے عظیم صحرا صحارا سے اُٹھنے والے ساز ہیں۔ کیا بہترین انداز، ردھم اور کمپوزیشن ہے۔ یہ غیر عرب موسیقی ہے۔ امازخ لوگ ہیں۔ ایسے لوگ جن کی زبان سائن پر مشتمل ہے۔ سپوٹیفائی پر ایک آرٹسٹ Tinariwen ہے۔ آپ سرچ کرکے سُنئیے گا اور بتائیے گا کہ کیسا لگا۔

ذکر ہو رہا تھا موسیقی کا۔ روس کے نارتھ سائیبیریا کی راجدھانی ارکُتس سے دنیا کی عظیم جھیل بائیکال کو دیکھنے کی غرض سے نکلا۔ یہ مقامی منی بس تھی۔ سفر چار گھنٹے پر مشتمل تھا۔ ڈرائیور نے میری شکل و صورت کو غیر مقامی جانتے ہوئے مجھے فرنٹ سیٹ دے دی۔ وہ بات بات پر مسکراتا اور مجھے دیکھ کر تھمبز آپ کا اشارہ کر دیتا۔ میں بھی جواباً تھمبز آپ کر دیتا۔ منی ویگن بھری گئی تو گاڑی چل پڑی۔ اس ویگن میں کُل ملا کر نو خواتین و مرد تھے جو سب کے سب مقامی تھے۔ یہ نارتھ کے چہرے تھے اور خوبصورت تھے۔ کسی کو بھی انگریزی نہیں آتی تھی۔ وہ سب مجھے دیکھتے تو سمائل دے دیتے۔ میں بھی جواباً مسکرا دیتا۔ کمیونیکیشن گیپ تھا۔

سائیبیریا کے لوگ موسیقی کے انتہا درجے کے شوقین ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب گاڑی چلی۔ ڈرائیور نے گانے لگا دئیے جن کی زبان میرے واسطے نامعلوم تھی۔ سواریاں وہ سُن کر جھومنے لگیں اور تالیاں پیٹنے لگیں۔ شاید مقامی طور پر مقبول ترین موسیقی تھی۔ یہ جھومنے اور تالیاں پیٹنے والا سلسلہ کبھی چلتا اور کبھی دھیما پڑ جاتا۔ سفر شروع ہوئے گھنٹہ بیت چکا تھا۔ گاڑی سائیبیریا کے گھاس کی ڈھلوانوں کے بیچ تارکول بچھی سڑک پر چل رہی تھی۔ اردگرد تاحدِ نظر سرسبز پہاڑی ڈھلوانیں تھیں جو پیلے، نیلے اور نارنجی چھوٹے چھوٹے جنگلی پھولوں سے بھری ہوئیں تھیں جن کے بیچ مویشی چرتے پھرتے تھے۔ دور التائی کا برفپوش پہاڑی سلسلہ پھیلا تھا جن کے اوپر شفاف نیلا آسمان تھا۔

میں مناظر کے حُسن میں گم تھا کہ یکایک ڈرائیور نے مجھے ہاتھ سے ہلاتے کہا "انڈیا؟" میں اسے زیادہ تفصیل کیا بتاتا کہ اسے انگریزی کی سمجھ نہیں تھی لہذا مسکرا کے سر ہاں میں ہلا دیا۔ ڈرائیور نے پھر اشارے سے سمجھایا کہ میوزک لگاؤں۔ اس کی گفتگو میں مجھے "بلیوٹوتھ" کی سمجھ آئی اور باقی بات اشاروں سے سمجھی جو وہ ملٹی میڈیا سکرین کی جانب اشارے کرکے سمجھانا چاہ رہا تھا۔ میں نے اس کی خواہش پر پہلے انکار کیا مگر وہ اصرار کرنے لگا تو بلیوٹوتھ آن کرکے کنیکٹ کی اور گاڑی میں نصرت فتح علی خان چلا دیا۔

سواریاں قوالی پر جھومنے لگیں اور پیچھے سے میرے کاندھے کو ٹچ کرکے مجھے داد دینے لگیں۔ گاڑی میں خان صاحب گونج رہے تھے، سواریاں تالیاں پیٹ رہیں تھیں اور میں باہر دیکھتے وجد کے عالم میں تھا۔ قوالی کے ختم ہوتے بیس منٹ بعد ایک جگہ گاڑی رک گئی۔ یہ ریفریشمنٹ سٹاپ تھا۔ ایک مارٹ تھا جس میں سواریاں جا کر چائے، بسکٹ، آئسکریم وغیرہ خریدنے لگیں۔ میں باہر کھڑی گاڑی کے پاس سگریٹ پھونکنے لگا۔

موسیقی کے سبب سواریوں سے یوں آشنائی بڑھی کہ ڈرائیور مارٹ سے باہر نکلا تو اس نے دو بلیک ٹی کے کپ تھام رکھے تھے اور ایک اس نے مسکراتے ہوئے میری جانب بڑھا دیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے تھمبز آپ کا اشارہ دیا تو اس نے جواباً قہقہہ مارتے تھمبز آپ کر دیا۔ کچھ منٹس بعد ایک بھاری بھر کم درمیانی عمر کا شخص آیا اور مجھے آئسکریم تھمانے لگا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا مگر آئسکریم کو کھانے سے قبل اس کے ریپر پر درج اجزاء کو بغور دیکھنے لگا۔ مجھے بس یہ تسلی کرنا تھی کہ آئسکریم میں کوئی ایسا جز تو شامل نہیں جو نہیں کھانا چاہئیے۔

اس شخص نے مجھے ریپر میں گم دیکھا تو پریشان ہوگیا۔ میرے پاس آیا اور انتہائی سنجیدہ چہرہ بنا کر کھڑا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ شاید یہ سمجھ رہا ہے آئسکریم مجھے پسند نہیں آئی یا میں اس کا تحفہ قبول نہیں کر رہا۔ مجھے اس شخص کی محبت پر پیار آگیا اور میں آئسکریم کو کھول کر کھانے لگا۔ وہ مسکرا کے سر ہلاتے پاس کھڑا ہو کر اپنی آئسکریم کھانے لگا۔ اور پھر چند گھنٹوں بعد منزل آ گئی۔ سب اپنی اپنی راہ ہو لئیے۔ انڈین موسیقی کے ساتھ میرا سفر بھی تمام ہوا۔

ڈیڑھ سال قبل میں استنبول کے مال روڈ یعنی استقلال سٹریٹ پر گھوم رہا تھا۔ وہاں ایک جرمن بُک ہاؤس ہے جو اپنی کتابوں سے زیادہ اپنی کافی اور ڈرنکس کے سبب مشہور ہے۔ مجھے میری ترکش دوست کا میسج موصول ہوا کہ وہ بھی استقلال سٹریٹ پر شاپنگ کر رہی ہے اور کچھ دیر میں جرمن بُک ہاؤس میں کافی پر ملتے ہیں۔

وہ دئیے ہوئے وقت پر آئی۔ کافی آرڈر کی۔ ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ میں اس سے تُرک لوگوں کے معمول کا پوچھنے لگا اور اس کے کلچر پر بات شروع ہوئی۔ استنبول کے خوشگوار موسم میں وہ پیاری لگ رہی تھی۔ کافی ہاؤس کی مدھم پیلی روشنیوں میں جب میری کسی بات پر قہقہہ لگاتی تو مزید پیاری لگتی۔ اچانک اس نے کیفے میں چلتی موسیقی کی جانب توجہ مبذول کرواتے کہا کہ یہ میرا پسندیدہ گانا چل پڑا ہے۔ پھر اس نے اس گانے کا ترجمہ بھی بتایا۔ بتا چکی تو بولی اب تم اپنا فیورٹ گانا سناؤ۔ موبائل میں ہوگا ہی؟ میں بھی تمہارا میوزک سنوں۔

صاحبو، کافی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے سپاٹیفائی آن کرکے گانا چلا دیا

کہ درخواست ہے یہ

جو آئی رات ہے یہ

تو میری بانہوں میں دنیا بھُلا دے

تجھ سے تو ہوں یوں میں بہت متاثر

پر کیا کروں میں ہوں ایک مسافر

جو جذبات ہیں یہ

بڑے ہی خاص ہیں یہ

تو میری بانہوں میں دنیا بھُلا دے

وہ سنتی رہی اور پھر بولی"اس کا ترجمہ بھی بتاؤ"۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ کلام شاعر مشرق کا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ عقابی روح جب جوانوں میں بیدار ہوتی ہے تو ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔ ترجمہ سُن کر وہ بہت متاثر ہوئی اور خوب داد دی۔ اس کو اس قدر اچھا لگا کہ اس نے مجھ سے اس گانے کا لنک مانگا۔ جو میں نے اسے موبائل پر بھیج دیا۔

میں واپس پاکستان آ گیا تو کچھ دن بعد مجھے اس کا واٹس ایپ ملا جس میں وہ مسلسل ہنسنے والے ایموجی بھیجتی جا رہی تھی۔ میں نے حیران ہو کر جواب دیا "کیا ہوا؟ اتنی خوشی کس بات کی؟"۔ جواب آیا " ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا تم نے جو گانا سنایا اور بھیجا تھا اس کا ترجمہ مجھے اب ٹھیک معلوم ہوا ہے۔ انگلش سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھا ہے۔ تم بہت ہی مزاقیہ انسان ہو۔ میری ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہی"۔

میں نے یہ پڑھ کر جواب دیا " اچھا۔ میرے پاس ملٹی انٹری ویزا ہے۔ اگلی بار آیا تو نیا گانا سناؤں گا"۔ جواب میں اس نے مزید سمائلیاں بھیجیں۔ مجھے موبائل کی سکرین کے سامنے مسکراتا دیکھ کر بیگم قریب سے گزری اور بولی "جسٹ شیم آن یو۔ مجھے پتہ ہے موبائل سکرین کے سامنے کیوں مسکرایا جاتا ہے"۔

Check Also

Saneha 9 May Ke Shar Pasandon Ko Sazain

By Tayeba Zia