Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. IMF Ki Hoshruba Report

IMF Ki Hoshruba Report

آئی ایم ایف کی ہوشربا رپورٹ

پاکستان کے نظامِ مملکت اور ادارہ جاتی کرپشن پر آئی ایم ایف نے 186 صفحات پر مشتمل مفصل رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کو حکومت پاکستان کی درخواست پر انکوائری کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے آغاز اور رپورٹ کے preface میں صاف لکھا ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے ورلڈ بینک کے تعاون سے حکومت پاکستان کی درخواست پر مرتب کی ہے۔ اس لیے یوں کہنا کہ یہ آئی ایم ایف کی ازخود پیش کی گئی رپورٹ ہے وہ سراسر پراپیگنڈا ہے۔ یہ رپورٹ حکومت پاکستان کی درخواست پر پیش کی گئی اور پبلک کے لیے اوپن ہے۔ خود پڑھی جا سکتی ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ اس رپورٹ پر میڈیا رپورٹنگ ہوئی اور اس میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف نے دھمکی دی جب تک رپورٹ شائع نہیں ہوگی آپ کو 1.2 بلین ڈالرز کی اگلی قسط نہیں مل پائے گی۔ یہ بھی سراسر لغو رپورٹنگ ہوئی ہے۔ جب رپورٹ بنائی ہی حکومت کی درخواست پر ہے تو ان باتوں کی کیا منطق رہ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام اس رپورٹ کے شائع ہونے یا نہ ہونے کا محتاج نہیں تھا نہ یہ شرائط میں شامل تھا۔ عالمی ادارے طے شدہ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کے باہر جانے کے مجاز ہوتے ہیں نہ جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف کو کرپشن پر رپورٹ کرنے کی درخواست بظاہر حکومت پاکستان نے ہی کی مگر اس کے پیچھے وہی ہیں جو نظام کو اپنے مطابق چلا رہے ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان میں کرپشن، لوپ ہولز اور لیکیج کو چیک کرنا ہے کہ کہاں کہاں کارروائیاں ہیں اور سیاستدان و بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ کتنا نقصان پہنچا رہا ہے۔ گوکہ رپورٹ نے "اُن" کو بھی ادھیڑ کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ جتنی بے ضابطگیاں "ان" کے ہاں ہیں اس کے مقابل سول ادارے اور سیاستدان تو شے ای کوئی نہیں۔

یہ رپورٹ گذشتہ ادوار کے جائزے سے لے کر آج کے دور پر مشتمل ہے۔ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی دور کا بھی جائزہ لیا ہے۔ آئی ایم ایف نے 2019 میں پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران چینی کی برآمد کی اجازت کو اس بات کی مثال قرار دیا کہ کس طرح بااثر کاروباری ادارے اور سرکاری عہدیدار پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے موڑ لیتے ہیں۔ شوگر مل مالکان نے ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں مصنوعی اضافہ اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ جیسے اقدامات سے اربوں کمائے جبکہ عوام قیمتوں کے بحران کاشکار ہوئے اور شواہد کے باوجود مؤثر احتساب نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں اسی دور کے آٹا بحران اور پنجاب حکومت (بزدار سرکار) کی کارکردگی پر بھی تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں موجودہ اتحادی حکومت (نون لیگ+ پیپلزپارٹی اینڈ الیون ادرز) کی کارکردگی پر بھی کڑے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عسکری اشرافیہ کی معاشی معاملات میں دخل اندازی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نظام گردن گردن کرپشن، بے ضابطگیوں اور غیر تسلی بخش انتظامی ڈھانچے کی تشکیل میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر ادارہ خزانے کی لوٹ مار میں شامل ہے۔ معاشی ترقی یا جی ڈی پی کی رفتار جامد ہے۔ رپورٹ میں نظام کو شفاف بنانے کی خاطر 92 تجاویز دی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسروں کا محاسبہ اور احتساب مضبوط کیا جائے۔ اعلیࣿ افسران کے اثاثہ جات کی تفصیلات 2026 سے ہر صورت عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ CCP، SECP اور NAB کے سربراہان کی تقرری کے لیے ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جو میرٹ، شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائے۔ ایس آئی ایف سی کے تمام فیصلے مراعات، ٹیکس چھوٹ اور منظوریوں کی منطق عوام کے سامنے رکھی جائے۔ سرکاری اداروں کو دیے گئے ٹھیکوں میں مراعات ختم کی جائیں۔ ریگولیٹری باڈیز کا قیام اور تمام عمل ڈیجیٹل بنایا جائے۔

ریاستی اداروں کی مراعات اور من پسند کمپنیوں کو نوازنے کا نظام سرکاری خریداری کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ ٹیکس نظام میں واضح پالیسی نہ ہونا اور ٹیکس اہلکاروں کو بےحد اختیارات دینا بدعنوانی کو جنم دے رہا ہے۔ اکانومک کوآرڈینیشن کمیٹی (ECC)، SECP اور SIFC جیسے ادارے ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہیں جس سے شفافیت ختم ہو جاتی ہے۔ SIFC کے وسیع اختیارات کے باعث اس کے لیے سخت پروٹوکول، ضابطے اور مکمل شفافیت ناگزیر ہے۔

اس رپورٹ نے مالیاتی اداروں سمیت ایس آئی ایف سی کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ٹیکس کولیکشن کا عمل مشکوک قرار دیا ہے۔ اقرباء پروری، انڈر انوائسنگ، جعلی یا من پسند افراد کی کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے نوازے پر تشویش کا اظہار کرتے کہا ہے کہ اس طرح سے پاکستان اس معاشی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے اُبھرنا ناممکن ہو جائے گا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ شہری عام طور پر سرکاری خدمات کے حصول واسطے رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ پالیسی سازی پر سیاسی و معاشی اشرافیہ کا گہرا اثر ہے جو سرکاری طاقت کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ عدلیہ کی کمزوریاں اور احتسابی اداروں کی غیر موثریت بھی بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں۔

یہ رپورٹ ہوشربا ہے لیکن کرپشن ہمارے ہاں بڑا ایشو نہیں سمجھا جاتا۔ یہ سوسائٹی نارمز کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ کرپشن کا ایشو صرف سیاست برائے سیاست کے لیے زندہ ہے۔ جو بھی اپوزیشن میں ہوتا ہے اس کو یہ ایشو سوٹ کرتا ہے اور جب وہ حکومت میں آتے ہیں یہی ایشو ان کو بیکار محسوس ہوتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari