Hum To Deewar He Se Waqif Thay
ہم تو دیوار ہی سے واقف تھے
کشمیر ہو کہ گلگت بلتستان سچ ہے کہ فردوس بر روئے زمیں است۔ پر جب جب میں اس بہشت سے لوٹا، ایک پھانس سی دل میں لے آیا۔ کیا حسن ہے اور کیسی غربت و بے چارگی سے ہم آغوش۔ یہ کسی خاص خطے کا المیہ نہیں۔ کئی ممالک بھی ایسے ہیں جنہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیسی قیمتی جگہ گھیرے بیٹھے ہیں جیسی جگہ پانے کے لیے ایک دنیا پاگل ہے، اور پھر وقت گزر جاتا ہے۔
کسے معلوم کہ ہر جانب سے خشکی سے گھرا افغان کتنی حسرت سے پاکستان کا ہزار کلومیٹر ساحل دیکھتا ہوگا۔ ایک سعودی کے پاس بھلے سب کچھ ہو پر اسے دریا کا کنارہ کیسے سمجھائیں؟ کوہ الپس کے دامن میں بستے یورپئین کیا جانیں کہ نانگا پربت کتنا اونچا ہوتا ہے۔ پونے دو سو ممالک کے باشندے گلیشیرز صرف تصاویر ہی میں تو دیکھتے ہیں۔ مصر کے پاس ایک دریائے نیل ہے۔ 90 فیصد مصری دریائے نیل کے آرپار صرف سو کلومیٹر چوڑی پٹی پر آباد ہیں۔ پاکستان کے پاس تین بڑے دریا ہیں اور گلگت بلتستان میں تو رواں صاف شفاف نالوں کی یہ حالت ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ترکی بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کے درمیاں سینڈوچ ہے۔ اپنے گرم ساحلوں کو دنیا کے لیے کھولتا ہے اور سالانہ پچپن چھپن بلین ڈالرز کماتا ہے۔ پاکستان کے پاس بارہ سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جس کے ساحل ریتلے اور گرم ہیں مگر سنسان ہیں۔ خوفزدہ ہیں۔ امارات کے پاس معدنی تیل کے علاوہ اڑتی ریت کے سوا بیچنے کو کیا تھا؟ امارات کی کمائی کا بڑا حصہ اب ٹورازم سے آ رہا ہے۔
افریقہ والے ماؤنٹ کِلی منجارو (5895 میٹرز)کو ہی آسمان سمجھتے ہیں۔ پاکستانی 20,25 ہزار فٹ اونچے تین عظیم پہاڑی سلسلوں (ہمالیہ، قراقرم، ہندو کش) کو بھی باپ کے ترکے جیسا سمجھتے ہیں۔ مگر مصر کو خوب اندازہ ہے کہ وہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور نہر سویز کی شکل میں عالمی تجارتی کنجی پر اس کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ مصر ایک ہاتھ سے کینال ٹرانزٹ فیس گنتا ہے، دوسرے ہاتھ سے امریکی و سعودی نذرانے وصولتا ہے، آواز لگا کر سالانہ 12 لاکھ غیر ملکی سیاحوں کو فرعونی ماضی بیچتا ہے۔ خود شمالی افریقہ کا چوہدری بھی ہے۔
پاکستان عالمی تیل و گیس کے نصف ذخائر کے راستوں پر اور سینٹرل ایشیا کو جوڑنے والی راہداریوں کے کنارے بیٹھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت پاکستان ایشیا میں چوہدری ہوتا اور ہر علاقائی ملک کے لیے مواصلاتی اعتبار سے اتنا ناگزیر ہو جاتا کہ بھارت تک نہ چاہتے ہوئے اس سے نبھا کے رکھنے پر مجبور ہوتا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کولڈ وار کی زنجیریں ٹوٹنے کے بعد پاکستان کو ایران سے چین اور وسطی ایشیا سے بھارت جانے والے راستوں، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں اور ان کے ساتھ ساتھ پنپنے والے سروس سیکٹر پر عائد ٹیکسوں، ٹرانزٹ فیس اور رائلٹی گننے سے ہی فرصت نہ ہوتی۔
پر ہائے وہ نفسیاتی پیچ کہ جس کے آگے الجھی زلفِ محبوب بھی ہیچ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جس آدمی کا بچپنا شدید عدم تحفظ کے تجربے سے گزرا ہو اسے بعد میں بھی کوئی ایسا سرپرست درکار رہتا ہے جس پر وہ اندھا اعتماد کر سکے اور انگلی پکڑ کے چل سکے۔ وہ اپنے مقدر کے فیصلے خود کر ہی نہیں پاتا۔ پاکستان چاہتا تو قدرت کی عطا کردہ انہونی جغرافیائی پوزیشن کو پوری طرح اپنے فائدے کے لیے برت سکتا تھا۔ مگر ریاست پاکستان نے اسے کسی قیمتی کھلونے کی طرح سینے سے لگائے رکھا۔ نہ دوسرے بچوں کے ساتھ شئیر کیا، نہ خود اس ڈر سے کھیلے کہ ٹوٹ ہی نہ جائے، کوئی چھین ہی نہ لے۔ محلے کے بچے کچھ دیر تو اس کھلونے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے پھر سب بھول بھال کر ساتھ والے میدان میں آپس میں کھیلنا شروع کر چکے ہیں۔ ریاست پاکستان وہ وقت اور موقعہ گنوا چکی ہے۔ ضرورت وہ فقیر ہے جسے ایک در سے بھیک نہ ملے تو دوسرا در کھل جاتا ہے۔ عباس تابش کا کیا برمحل شعر ہے۔
در کھلا تھا مگر اُدھر نہ گئے
ہم تو دیوار ہی سے واقف تھے