Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hum Theek Ja Rahe Hain

Hum Theek Ja Rahe Hain

ہم ٹھیک جا رہے ہیں

صدر ٹرمپ کی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سے ملاقات ہوگئی۔ ٹرمپ تعریفیں کرتے نہیں تھک رہا۔ پاکستان امریکا تعلقات کو ماضی قریب کے آئینے میں دیکھیں تو احساس ہوگا کہ پاکستان نے بہترین سفارتکاری سے اپنے آپ کو سینٹر سٹیج کرتے ہوئے بھارت کو آف سینٹر کیا ہے اور اب امریکا سے تجارتی راہیں بڑھانے کی جانب سفر ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان امریکا تعلقات انتہائی کمتر سطح پر پہنچ چکے تھے۔

پاکستان جیسا ملک جو اپنی سرحدوں پر دباؤ کے ساتھ معاشی دباؤ سے نبرد آزما ہے وہ اس خطرے کو اُٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک بلاک کا حصہ بن جائے۔ ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں ہمارا ملک شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہوتے ہوئے امریکا اتحادی بلاک کے ساتھ بھی توازن قائم رکھتے چل رہا ہے۔ دونوں بلاکس میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور بہترین کر رہا ہے۔ ان کے درمیاں جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں مذاکراتی یا مصالحتی کردار بھی پس پردہ ادا کر رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں چین امریکا تعلقات کو بحال کرانے میں پاکستان نے ہی مصالحتی کردار ادا کیا تھا۔

ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے مسلسل ایک ہی دُھن بج رہی ہے "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔۔ امڑی دے دل دا سہارا"۔ لیکن پاک امریکا تعلقات کی بھی ایک ہسٹری ہے۔

1950 کی دہائی میں پاکستان امریکا روس کولڈ وار میں سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا اور سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے پشاور میں امریکا کو اڈہ دیا مگر جب 65 کی جنگ ہوئی تو امریکا فوراً غیر جانبدار ہوگیا۔ 1970 میں چین سے سفارتی تعلقات کی بحالی واسطے امریکا نے پاکستان کی سفارتی خدمات اور چین سے دوستانہ تعلقات کا بھرپور استعمال کیا۔ مگر 71 کی جنگ میں امریکی بحری بیڑہ تب تک خلیج بنگال کی جانب سفر ہی کرتا رہا جب تک ڈھاکا میں ہتھیار نہیں ڈل گئے۔

جنرل ضیا کے اقتدار میں آتے سنہ 77 میں امریکا نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خدشات کے تناظر میں کانگریس میں بل منظور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد روک دی گئی مگر کابل میں کمیونسٹ نواز حکومت بن گئی تو پاکستان کو لبھانے کے لیے پابندیاں ہٹا لیں گی اور پاکستان بھی لُبھنے کو تیار بیٹھا تھا۔ سو پھر آسمان کی نیلی چھتری تلے صدر ریگن تھے اور ضیا الحق تھے۔ دو جسم ایک قالب۔ امریکی صدر نے جنرل ضیا کو آزاد جمہوری دنیا کا محافظ قرار دیتے ہوئے افغان مجاہدین کو "بلیو آئی" یا محبوب ترین قرار دے ڈالا۔

سنہ 98 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ پاکستان کے دباؤ قبول نہ کرنے اور ایٹمی دھماکے کر گزرنے کے بعد پاک امریکا تعلقات پست ترین سطح پر آ گئے۔ پر خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ جیسے ضیا الحق کی خوش نصیبی سے کابل میں کمیونسٹ نواز حکومت آ گئی تھی ویسے ہی جنرل مشرف کی خوش نصیبی سے امریکا میں نائن الیون ہوگیا۔ پاکستان ایک بار پھر نقد تعاون پر راضی ہوگیا۔ اگلے تیرہ برس دونوں ملک ڈالروں کی چھاؤں میں ہنسی خوشی رہتے رہے اور پھر بھی جب افغانستان میں دال مکمل نہ گل سکی تو امریکا کو پاکستان ولن لگنے لگا۔ اس پر "ڈبل گیم" کا الزام لگا کر "ڈو مور" کی آوازیں کسیں جانے لگیں اور پھر فوجی امداد کا "کیری لوگر بل" بھی ختم کر دیا گیا۔ ٹرمپ سرکار کو افغانستان سے انخلاء کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسے پھر پاکستان کی یاد آ گئی۔ کابل میں ہمارا ایک مشہور جرنیل چائے پیتے پایا گیا۔

یہ سب کچھ پچھلی کچھ دہائیوں میں اتنے تسلسل سے ہوتا آ رہا ہے کہ اب تو پاکستان میں کوئی نابینا بھی بتا دیتا ہے کہ امریکا کب خوش اور کب گیس ہونے والا ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا عمومی رویہ بھی یہی ہوتا ہے کہ "جائیے آپ کہاں جائیں گے، یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی"۔ تجارتی معاہدوں کے سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھا ہے۔ تاحال اونٹ کھڑا ہے۔

پاکستان اپنے مفاد میں ٹھیک سمت میں بڑھ رہا ہے۔ یہ خوش آئند ہے۔ ماضی قریب کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت زیادہ خوش آئند محسوس ہوتا ہے۔ سنہ 2019 میں عمران خان صاحب صدر ٹرمپ کو مل کر آئے تو اعلان کر دیا کہ میں امریکا سے ورلڈکپ جیت کر آیا ہوں۔ لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہو سکا۔ جو بائیڈن سے متعلق عمران خان صاحب کو شکایت رہی کہ وہ مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ افغانستان سے امریکی انخلا میں بھرپور مدد کی لیکن بدلے میں پاکستان کی کوئی ایک شرط نہیں منوائی گئی۔ یہ تک نہیں کہا کہ جو اسلحے کا انبار چھوڑ کر جارہے ہو یہ ہمارے خلاف استعمال ہوگا۔ ایک امریکی چینل پر ایک انٹرویو دیا جس میں کہا کہ میں ایٹمی ہتھیار رکھنے کے خلاف ہوں۔ لیکن کسی نے ایٹمی ہتھیاروں والی بات پر تبصرہ نہیں کیا۔ کیونکہ اس وقت کوشش تھی کسی طرح بائیڈن سرکار کی کال آ جائے۔

سفارتکاری کھائی کے اوپر بندھی ہوئی رسی پر ڈنڈا تھامے توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنے کے مترادف ہے۔ ذرا سا توازن بگڑ جائے تو برسوں کی محنت اور تعلقات لمحوں میں زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ مستقبل کا حال خدا جانے لیکن جو سامنے نظر آ رہا ہے اس سے گمان ہوتا ہے اس میدان میں ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ ہائبرڈ سسٹم میں تعلقات بہتر سمت میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہائبرڈ پلس پلس نظام میں سفارتکاری بہتر ہو رہی ہے تو کیا یہ ہمارے سیاسی ڈھانچے کا المیہ نہیں؟ اور پھر یہ کون بتا سکے ہے کہ امریکا کب گیس ہوگا؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan