Hamari Nasal Ka Almiya
ہماری نسل کا المیہ

میری عمر کی نسل (چالیس سے پینتالیس سال والوں) کا بھی عجب المیہ ہے۔ ہم وہ نسل ہیں جو پری ڈیجیٹل ایج سے ڈیجیٹل ایج میں داخل ہوئے۔ ہمارے سامنے یکایک رسم و رواج سمیت دنیا تیزی سے بدل گئی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو تب بڑوں کی بات سننے کا رواج اور چلن تھا۔ جب ہم بڑے ہوئے تو بچوں کی بات سننے کا رواج چل رہا۔ ہماری تو کسی نے سُنی ہی نہیں۔
سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلی دو دہائیوں میں زندگی کس تیزی سے بدل جائے گی۔ میری نسل جو سنہ اسی کی دہائی میں پیدا ہوئی وہ آخری پری ڈیجیٹل ایج نسل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سنہ 2070 کے کسی ایک دن جنریشن زی کے بعد جنریشن الفا اور بیٹا کی کلائی پر بندھی ڈیجیٹل گھڑی کی اسکرین پر یہ خبر ضرور چمکے گی کہ آج پری ڈیجیٹل دور کے آخری انسان ہاراکی کا جاپانی جزیرے اوکیناوا میں انتقال ہوگیا (دنیا میں سب سے زیادہ عمر رکھنے والے انسان جاپانی جزیرے اوکیناوا میں بستے ہیں جہاں انسانوں کی اوسط عمر 95 سال ہے)۔ دیکھتے ہی دیکھتے سماج کتنا بدل کر رہ گیا کہ کبھی کبھی اس میں اپنا آپ مِس فٹ محسوس ہونے لگتا ہے۔ خوشی و غمی کے اظہار کے طریقہ کار بدل کر رہ گئے۔ حقیقی خوشی اور حقیقی غم دونوں کھو سے گئے۔ اب تو بس ایک میسج ٹائپ کرنا ہے اور ہوگیا اناللہ۔ یا jingle bells میوزک بھیجنا ہے اور ہوگئی سالگرہ مبارک۔
جب ہم چھوٹے تھے ڈاک کا زمانہ تھا۔ خطوط بھیجے اور موصول کیے جاتے تھے۔ خط کو لکھنا وقت طلب اور دل کے حقیقی جذبات صفحہ قرطاس پر رقم کرنے کا مرحلہ ہوتا تھا۔ وگرنہ تو خط لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا اس کا مقصد ہی کیا رہ جاتا۔ اس وقت ہمیں صرف یہی معلوم تھا کہ تھوک عید کارڈ کے لفافے یا خط کے لفافے کو بند کرنے کے واسطے لگائی جاتی ہے۔ آجکل کے بچے تو تھوک کہیں اور لگاتے ہیں۔
اس دور میں ہنسنے ہنسانے کے لیے دوستوں کا جمع ہو کر ساتھ بیٹھنا ضروری تھا۔ physical interaction کے بنا دوستی اور ہنسی کا تصور بھی نہیں تھا۔ بالغانہ لطائف تو سچ میں بہت بعد کالج کے دور میں آئے اور ان کو بھی سننے سنانے کے واسطے مل بیٹھنا اور ہنس ہنس کر ایک دوجے کے ہاتھ پر ہاتھ مارنا لازم جزو تھا۔ اب تو آپ اکیلے بیٹھے سکرین پر اُنگلی سویپ کرتے جائیں اور ریلز دیکھ دیکھ کر تنہا قہقہے برساتے جائیں۔ محفل کی ضرورت ختم ہوئی جب بنیاد ہی ختم ہوگئی۔ انٹرٹینمنٹ گھر بیٹھے ہر فرد کی جیب تک موبائل کی صورت پہنچ گئی۔ ایک سانحہ یہ بھی ہوا کہ دوستیاں تو عارضی ہو کر رہ گئیں کہ جب ذاتی شناسائی اور میل ملاقات کی ضرورت ہی نہ رہی تو دوستیاں انٹرنیٹ کے کلاؤڈ میں معلق رہیں البتہ دشمنیاں جاندار اور پختہ ہوگئیں۔ بنا کسی جانی و مالی نقصان کو بھگتے لوگ اب کسی ویڈیو یا تحریر کے سبب کسی سے نفرت یا مرد و زن کے مابین پاگل پن کی حد تک کے عشق میں مبتلا ہو کر قتل کر دیتے ہیں۔
دنیا سمٹ کر مٹھی میں آ گئی۔ گلوبل ویلج بن گئی۔ سوشل میڈیا نے انسان کو ایک دوسرے سے باندھا تو انسانوں نے انسان کو اس کے کام کی بجائے لباس، رہائش، گاڑی و لائف سٹائل سے پرکھنا شروع کیا۔ وہ کیا کھا رہا ہے، کیا پہن رہا ہے، کس گاڑی میں پھر رہا ہے، کہاں جا رہا ہے، اس کے ڈرائنگ روم کی وال کا رنگ کیسا ہے الغرض سب کچھ ننگا ہو کر سب کے سامنے آ گیا۔ اس سے سماجی بھیڑ چال، کھینچا تانی، حسد اور تاکا جھانکا یا دوسرے کی ٹوہ میں رہنے کی مشق بامِ عروج تک پہنچی۔
یہ پرستاروں کا ہجوم، یہ ملنے پر بچھے چلے جانا اور پیٹھ پیچھے بدخوائی کرنے لگنا، منہ پر سلام اور بعد از نقطہ چینی، سامنے کا منظر حسین اور آنکھ اوجھل ہوتے ہی اندھیرا۔ اس معاشرے کو میں چالیس سال کی عمر میں سمجھ گیا البتہ کئی احباب ساری عمر گزار کر بھی فین فالؤنگ کے نشے سے باہر نہیں آ پاتے۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف آپ کے کام، نام، ہنر، لائف سٹائل سے متاثر لوگوں کا انبوہ ہے۔ آج آپ مر جائیں، گمنام ہو جائیں، سوشل میڈیا چھوڑ جائیں دو چار چھ عزیز کچھ دن پوچھیں گے اور پھر کچھ دنوں میں ہی آپ ایکسپائر ہیں۔ کیونکہ ذاتی شناسائی یا physical interaction نہیں ہے۔ قلمی دوستیاں نہیں ہیں۔ محفل نہیں ہے۔ سکرین کا رشتہ ہے۔ انٹرٹینمنٹ یا انفوٹینمنٹ کا تعلق ہے۔ ڈوپامین سے منسلک ہیں۔ اس لیے کسی کے جانے کا دُکھ بھی نہیں ہے۔ دنیا نامی گلوبل ویلج میں ارب ہا انسان ایک دوسرے سے کنیکٹ ہیں۔ تو نہیں اور سہی اور نہیں تو اور سہی۔ آپ تب تلک ہی متعلقہ یا Relevant ہیں جب تلک آپ دن رات اپنی موجودگی کا احساس دلانے کو موجود ہیں اور لوگ آپ سے انٹرٹین ہو رہے ہیں۔
یہ کلاؤڈ نما دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب جوکر۔ ہر جوکر اپنا اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کچھ داد سمیٹتے ہیں اور راہ لیتے ہیں، کچھ تالیوں کی گونج میں مسلسل مظاہرہ کرتے جاتے ہیں۔ جیسے ہی پردہ گرتا ہے آپ ختم شد۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ کاہے کی فین فالؤنگ اور کونسے آپ بے بدل شخص۔ ہر ایک کا متبادل انسانی مارکیٹ میں موجود ہے۔ خود کو غیر متبادل اور انمول سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں۔ میں تو اس خیال کا ہوں کہ جو آپ کو عزت دے اور جب تک دیتا رہے لے لو اور اس کا شکریہ ادا کرو۔ اس سے آگے کی توقعات پالنا نرا وہم ہے، بھوت ہے، پرچھائی ہے۔
انسان کے فوکس کرنے اور سنجیدہ لینے والے معاملات میں سرفہرست اس کی فیملی، روزگار اور اس سے جڑے افراد ہوتے ہیں۔ پھر انسان اپنے آل اطراف بستے لوگوں کے مسائل کو دیکھے۔ اگر مہلت عمر ملے تو تب جا کر باقی دنیا کی سوچے بھی۔ اسی میں تو عمر تمام ہو جاتی ہے۔ انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال ہے تو آدھی سو کر گزر جاتی ہے۔ باقی تیس سالوں میں اس نے خاندان بڑھانے، پالنے اور چکی کی مشقت میں بسر کر دینا ہیں۔ اگر تھوڑا وقت اسے سیٹل ہو کر مل جائے تو پھر وہ اپنے ہنر پر توجہ دیتا ہے۔ خوش قسمتی سے کسی کو ہنر مل جائے تو وہ اپنی Legacy چھوڑ جاتا ہے۔ انسان اپنی خوبیوں و خامیوں، نیکیوں و بدیوں، اچھے و برے کا مرکب ہے۔ فرشتہ نہیں اُترا دھرتی پر انسان اُترا تھا اور کوئی انسان ہے تو وہ نیکی و بدی، کھلنڈرے پن و سنجیدگی، بے پرواہی و ذمہ داری، ہنسی و غم، کا مرکب ہے۔ انسان ایک سی حالت میں نہیں جیا کرتے۔ موسم بدلتے ہیں، مزاج بدلتا ہے، سوچ بدلتی ہے، انسان کوئی جامد تھوڑی ہے۔
پڑھا، اچھا لگا تو انجوائے کیا یا اگلے کی زندگی کے تجربات سے سیکھا۔ نہیں اچھا لگا تو آگے بڑھ گئے۔ کسی سبب کوئی کوفت کا سبب بننے لگے تو اسے انفالو کریں، بلاک کریں اور سکون کریں۔ یہ ڈانگ تھامے اگلے پر مسلط ہونے کی کاوشیں، اپنا نظریہ اگلے کے قلم سے لکھوانے کی کوششیں، اپنی سوچ اگلے میں انسٹال کرنے اور منوانے کی روشیں۔ یہ اگلے کو ڈکٹیشن دینا، اگلے کی پرائیویٹ سپیس میں گھسنے کی کوشش کرنا، غیر متعلقہ موضوعات کو گھسیٹ لانا، حد سے بڑھی ہوئی بے تکلفی برتنا، وغیرہ وغیرہ یہ نان سینس رویہ ہوتا ہے۔ ہم نے یہی سیکھا تھا، یہی جانا تھا، یہی پڑھا تھا اور پھر ڈیجیٹل انقلاب آ گیا۔ دنیا بدل گئی۔ بقول شاعر "ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا"۔
خیر، بات اور طرف نکل گئی۔ میں کہہ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کس قدر بدل گئی کہ اب کبھی کبھی اپنا آپ اس دنیا میں مِس فٹ لگتا ہے۔ میرے سے پہلے والی جنریشن محنتی تھی۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا۔ شہر پھیلے نہیں تھے اور آمد و رفت کے ذرائعے بھی محدود تھے۔ میلوں پیدل کا سفر ہوتا یا کسی نے سفر کے لیے گھوڑا پالا ہوتا۔ ٹانگہ شہروں کی سواری ہوتی۔ مشروبات سادہ اور گھر کے بنے ہوتے۔ حقہ کلچر کا ایک حصہ تھا۔ خاندانی نظام بہت مضبوط اور پیچیدہ ہوتا جس کے فائدے بھی تھے اور نقصانات بھی۔ برداشت اس معاشرے کا اہم حصہ تھی تب لوگ مذہب پر، رسومات پر بحثیں نہیں کرتے تھے۔ ٹی وی سارا محلہ جمع ہو کر اکٹھا دیکھتا، گاؤں میں ریڈیو ہی چلتا۔ بجلی کے آنے جانے سے لوگوں کے کاموں میں خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ پیپل کی چھاؤں مسافر کے لیئے سرائے کا کام کرتی۔ جھگڑے میں ڈانگ ہی واحد خطرناک ہتھیار ہوتا اور خوشی میں کھیر اور حقہ۔ انسان کی مصروفیت شام ڈھلتے ہی ختم ہو جاتی اور چولہے رات نو بجے ٹھنڈے پڑ جاتے۔ لوگ سکون سے سوتے تھے۔ مارشل لا کا دور ہو یا جمہوریت یہ لوگوں کے مسائل نہیں بنے تھے۔
جس دور میں اب ہوں میں سوچتا ہوں کہ آج کی جنریشن کیاہے۔ یہ ارتقا کا عمل ہے تو انسان ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ سائنسی ترقی کی بات نہیں انسان کی عقلی نشونما کیوں نہیں ہو رہی۔ بچوں کی گیمز کمرے اور سکرینوں تک ہی محدود ہیں۔ جنس کا فرق اتنا واضح کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ ہزار روپے عیدی کی کوئی ویلیو کیوں نہیں رہی۔ کارٹون کدھر گئے اور ٹی وی پر سیاست کیوں چھا گئی۔ کیمبرج اور اے لیول انسان کی پہلی چوائس پر کیسے آئے۔ نئی نسل تاریک کمروں سے کیوں نہیں ڈرتی۔ استاد اور شاگرد میں دوستی کی حد کیا ہے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے میں لکھ نہیں سکتا مگر میں جنریشن گیپ کا جائزہ لوں تو سارے پہلو سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔
اس جنریشن کے پاس بھی لازمی کوئی جیسٹیفیکیشن ہوگی۔ وقت کا پہیئہ تیز ہوا تو سماجی و معاشی حالات اور بدامنی کے سبب ہم لوگ اپنے اپنے ڈبوں میں بند ہوتے چلے گئے، ہمارا بچہ میرے بچے میں بدل گیا، ہمارا محلہ صرف میرے گھر تک رہ گیا۔ باہر نہیں نکلو گے باہر خطرہ ہے، محلے کے بچوں میں نہیں اٹھو بیٹھو گے، وہ ہمارے اسٹینڈرڈ کے نہیں بلکہ گنوار ہیں۔ انکل "بیڈ ٹچ" کریں تو بتانا۔ نہیں فٹ بال نہیں کھیلنا چوٹ لگ جائے گی، ہاکی کون کھیلتا ہے اس زمانے میں۔ یہ لو وڈیو گیم، یہ لو ٹیبلٹ، یہ لو انٹرنیٹ۔ اس بار صرف اسی پرسنٹ نمبر آئے اگلی بار نوے پرسنٹ لائے تو موبائل ملے گا۔ کھیل کود میں وقت ضائع نہ کرو، یہ عمر زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ہے ورنہ پیچھے رہ جاؤ گے۔
جب پلے گراؤنڈز کا کوئی والی وارث نہ رہے تو وہ کچرے کے ڈمپنگ گراؤنڈ بنتے چلے گئے، خالی فلاحی پلاٹوں پر راتوں رات مدارس نمودار ہوتے چلے گئے، دکانیں پھوڑوں کی طرح ابھرنے لگیں، بلڈرز ہر کھلی جگہ ڈکار لیے بنا ہڑپ کرتے چلے گئے۔ سکول صرف کلاس رومز کی قطار کا نام ہوگیا۔ پلے گراؤنڈز صرف پرانے اسکولوں کے قصے کہانیوں میں رہ گئے۔
عدم تحفظ کا شکار ایک پوری نسل جب یونیورسٹیوں میں آئی تو یہ ایک وسیع دنیا تھی۔ جس عمر میں اب نئی نسل "بریک اپ" کا سوگ مناتی ہے اس عمر میں ہمیں یہ فکر ہوا کرتی تھی کہ قلیل پاکٹ منی سے مہینہ بھر کیسے گزرے گا۔ فرینڈ شپ کی جگہ "بوائے فرینڈ" اور "گرل فرینڈ" جیسے الفاظ نے لے لی۔ ہم ڈیجیٹل دور میں تیزی سے داخل ہو گئے مگر شعور کہیں پیچھے ہی پیچھے رہ گیا۔ دنیا بدلی تو انفارمیشن کا فلڈ آ گیا مگر خالی انفارمیشن انٹلیکٹ یا شعور کے بغیر سطحی سی رہ گئی۔ آج کا بچہ یقیناً بہت زیادہ کچھ جانتا ہے جو ہم اس عمر میں نہیں جانتے تھے۔ لیکن اس کا نالج ڈیپ روٹڈ نہیں ہے۔ وہ انفارمیشن کا تجزیہ کرنے اور غور و فکر سے عاری ہے اور پھر جعلی انفارمیشن اور پراپیگنڈا کا سیلاب بھی ہے۔ اس جھوٹی سچی اور ضرورت و عمر سے زیادہ انفارمیشن نے اسے ڈپریشن کا شکار بھی بنا رکھا ہے۔
ہم نے تو جیسی بھی گزاری وللہ آج کے دور کے مقابل تو بہت سیدھی سادی شرافت، مروت و حیا میں گزار دی۔ بچپن عید کارڈز، کرکٹ، بنٹے کھیلتے بیت گیا۔ کالج کا زمانہ جنس کی تفریق سے پاک رہا، لڑکپن سے چکی کی مشقت شروع ہوئی، جوانی کے بیس سالوں کو غمِ روزگار نگل گیا اور اب آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہاں سے چل کر کہاں پہنچ گئے اور چہرہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ شاید میری نسل کے سب لوئر مڈل کلاس پڑھے لکھے سفید پوش گھرانے کے لوگوں کو اپنی ذات سے فرصت ہی نہ مل پائی کہ بیرون ذات بھی دیکھتے اور زمانے کے رنگ رنگے جاتے۔ منیر نیازی کی نظم مافق آدھی زندگی بیت گئی
میں جیسا بچپن میں تھا
اسی طرح اب تک ہوں
کھلے باغ کو دیکھ دیکھ کر
بری طرح حیران
آس پاس مرے کیا ہوتا ہے
اس سب سے انجان

