Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hamara Zamana Chala Gaya

Hamara Zamana Chala Gaya

ہمارا زمانہ چلا گیا

بشر خدا کا معجزہ ہے یعنی اس کا وجود اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی خالق ہے جس نے کیسا شاہکار خلق کیا ہے۔ انسان کسی حادثے کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا۔ اگر یوں مان لیا جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ کل کوئی ایک حادثہ اس کی جبلت و عادات و اطوار کو بدل کر اسے حیوان میں تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ ارتقائی مراحل بنی نوع انسان کو تراش خراش کر اس نہج تک لائے ہیں جہاں وہ آج کھڑا اسرارِ قدرت کے راز کھول رہا ہے اور یہ انسان کو اس کے خالق کا ہی پیغام ہے "کیا تم غور و فکر نہیں کرتے"۔

انسان کی یہی خوبی اسے کائنات میں ممتاز بناتے ہوئے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرتی ہے۔ اس کا شعور اس کو دیگر مخلوقات سے اشرف بناتا ہے۔ شعور ہر انسان اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات، حادثات، علم و تحقیق، مشاہدے کی حِس اور مختلف زمان و مکان میں بستے انسانوں کو دیکھنے پرکھنے سے حاصل کرتا ہے۔ پروردگار نے بھی ہر انسان کو قابلِ مواخذاہ اس کے شعور کے لحاظ سے ٹھہرایا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ انسان سے کلام کرتے کہتا ہے "جاہل اور عالم برابر نہیں ہو سکتے"۔ عالم کا مواخذہ زیادہ سخت ہے بہ نسبت جاہل کے۔ کیونکہ خدا عادل ہے اس واسطے وہ عدل کو ہی معیار رکھتا ہے۔

گذشتہ ایک صدی میں بہت سے واقعات ہوئے اور ان میں ایک یہ ہے کہ انسان نے سائنس و فن کے میدان میں بہت علم حاصل کیا، تحقیق کے دروازے کھولے، حیرت انگیز دریافت ہوئیں، ان دریافتوں کی بدلوت لائف سٹائل بہتر یا آسودہ بنا۔ لیکن انسان کٹھور، سنگدل، شخصیت پرستی کا شکار، نجات دہندہ کا متلاشی اور خاص نقطہ نظر سے آگے یا پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتا چلا گیا۔ یعنی شعور کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ انفارمیشن کا سیلاب تو آیا ہے لیکن اس انفارمیشن میں کتنا سچ کتنا جھوٹ ہے اس کی جستجو اور تحقیق کا در بند ہوا ہے اور یہ ہر سوسائٹی کے ساتھ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں سونے پہ سہاگا کے مترادف یہ ہوا کہ بنیادی تعلیم سے ہی سماج محروم رہا ہے۔ چنانچہ ہم نے اندھوں بہروں کا ریوڑ پیدا کر دیا ہے جو اپنے کھونٹے سے بندھے آنکھوں پر کھوپا چڑھائے بیل کی مانند مخصوص دائرے سے باہر نکلنے سے قاصر رہا ہے۔ المیہ یہ ہے وہ کھونٹا بھی حقیقی نہیں بلکہ اپنے ذہن میں گڑا کھونٹا ہے۔

مذہب اور سیاست ہر انسان کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ان دونوں معاملات زندگی میں یہاں عصبیت اور شخصیت پرستی چھائی نظر آتی ہے۔ مجھ پر ایک کرم میری ماں نے کیا کہ اس نے مجھے کتابوں کی لت لگا دی۔ دوسرا کرم مجھے درپیش آنے والے حادثات و واقعات نے کیا جنہوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تیسرا کرم مجھ پر پرودگار کا یہ رہا کہ اس نے مجھے سفر کرنے کی استطاعت سے نوازا تاکہ دیکھ سکوں انسان کہاں کہاں کن کن نظریات کے ساتھ کیسے بس رہا ہے۔ گو کہ میں ان کو کرم کہتا ہوں لیکن درحقیقت یہ اذیت کی ہی ایک شکل ہوتی ہے۔ آگہی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ معاملات زندگی کو ایشو ٹو ایشو دیکھنا اور ایشو ٹو ایشو سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ لوگ اس تردد میں نہیں پڑتے۔ اکثریت کے ہاں جو ان کا سچ ہے (وہ مذہب یا مسلک ہو یا سیاسی پارٹی) وہ کُلی سچ ہے اور جو ان کا جھوٹ ہے وہ مکمل جھوٹ ہے۔ حالانکہ ابدی سچائی یہی ہے کہ نہ کوئی فرد، جماعت یا مسلک مکمل حق ہے نہ ہی مکمل باطل۔

مثلاً ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ خاکسار کیا کرے جس کو غامدی صاحب کے افکار نے یسوع (ع) کی بابت، واقعہ معراج، بینکاری کے نظام اور عورت کی آدھی گواہی کے متعلق عقلی دلائل سے مطمئن کر دیا ہو جس بابت دیگر علماء مطمئن نہ کر سکے اور کیا کرے کہ جس کو حقِ وراثت (خاص کر بیٹی کی وراثت کے باب میں)، حلالہ اور نکاح و طلاق کے باب میں فقہ جعفریہ نے مطمئن کر دیا ہو جن ابواب میں اور کوئی مطمئن نہ کر سکا۔ کیا کیا جائے جب مجھے مولانا اسحاق مدنی فیصل آبادی کے دلائل اُمت کے اختلافی امور میں حق بنجانب معلوم ہوں؟ اور پسند سے جو ابو اعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا مطالعہ کرتا ہو؟ جسے ڈاکٹر اسرار احمد کا نظریہ اسلامی ریاست کچھ اختلافات کے باوجود پرکشش محسوس ہو اور جسے علامہ طالب جوہری کے بیان اور خطابت پر بھی فخر محسوس ہوتا ہو اور جو مولانا وحید الدین خان کے بہت سے افکار سے بھی مطابقت رکھتے ان سے مطمئن ہو اور پھر کہاں لے جاؤں ڈاکٹر علی شریعتی کا نظریہ انقلاب و پیغامِ حسینی جس کا ایک ایک لفظ دل میں جا لگتا ہو۔ جس کے بچوں کو قرآں مجید پڑھانے والا قاری عبدالکریم دیوبندی ہو اور جس کی بیوی کٹر بریلوی العقیدہ ہو۔

جو تحریک انصاف کو تیسری قوت کے طور پر قائم دیکھنا چاہتا ہو اور جو یہ سمجھتا ہو کہ کسی سیاسی وجود کا خاتمہ دراصل سماج کے ایک وسیع طبقہ فکر کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ریاست اپنی ساری توانائیاں کسی بھی طبقہ فکر کو کچلنے میں صرف کرے گی تو اس کا انجام نہ ماضی میں اچھا برآمد ہوا نہ کبھی ہوگا۔ بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان، ایکس فاٹا کے سیاسی حالات جیسے بھی سامنے آئے ہوں وہ قابلِ مذمت اور دلگیر ہوں تو کیا کروں؟ اور کیا کروں تحریک انصاف کی پالیسیز کا جو ماضی میں مقتدرہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئی اور اب ریاست مخالف بیانئیہ بنانے پر تُل چکی ہے۔ پھر کیا ہو ریاست کے کرتے دھرتوں کا جو خود میدان ہیں خود گھوڑا۔ جو خود کو ریاست ڈکلئیر کر چکے ہیں۔ جن کے ہاں یس سر کے سوا کچھ سننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ جو شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ جو ایک کو لاتے دوسرے کو بھیجتے ہیں اور اپنے ہی بنائے بُتوں کو توڑنے کی مشق جاری رکھتے ہیں۔

کیا ہو سکتا ہے من جملہ سیاسی جماعتوں کا چاہے نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی جو آپس میں تو میثاق جمہوریت کریں لیکن پھر دبئی میں ایک جماعت کی قیادت مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کرنے لگے اور نوازشریف صاحب کالا کوٹ پہن کر دوسرے کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہو جائیں۔ "ووٹ کو عزت دو" سے فارم سینتالیس کی حکومت دو اور گڑھی خدا بخش میں"اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے" کہہ کر ہابرڈ پلس نظام کے کسٹوڈین کے طور پر بیٹھنے والوں کو کیا کہا جائے؟ اے این پی سوشلسٹ نظریات سے ہٹ کر پاور پالیٹیکس کی کھلاڑی بن جائے۔ ایم کیو ایم ایک شخص کے تسلط سے نکل کر ٹکروں میں تقسیم ہوتے بلآخر مقتدرہ کی ٹیم بن جائے۔ باپ پارٹی کو جب کوئی چاہے اِدھر سے اُدھر شفٹ کرا دے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بیک وقت اپوزیشن اور مقتدرہ کے کام آنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔ پھر کیا کریں ان سب کی ہیراپھیری اور عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے والی سیاسی مصلحتوں کا؟

آپ ایسے سماج میں آخر کیا کر سکتے ہیں اور کیا چاہ سکتے ہیں۔ ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ ہر معاملہ کو الگ دیکھا جائے۔ ایشو ٹو ایشو پرکھا جائے اور جب ایسا کیا جائے تو جواب میں آتی ہے ٹرولنگ، گالی، بدتمیزی۔ ایسے معاشرے میں کچھ کہنا بیکار ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ انسان اُکتا جاتا ہے اور پھر وہ بکتر بند ہوتا چلا جاتا ہے۔

پاپولر سٹانس لینا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں لائکس و کمنٹس جگمگاتے ہیں۔ دائیں بازو کی سوچ اس ملک میں بڑے لاڈوں سے پالی پوسی گئی ہے۔ مذہب، عسکریت اور جنس کی بنیادیں گہری ہیں۔ سازشی نظریات یعنی کانسپریسی تھیوریز میں گھرا یہ ملک اور اس کی عوام اپنی مجموعی ناکامیوں کا ذمہ بیرونی عناصر پر ڈالتی رہتی ہے اور خود کو بہلاتی رہتی ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ یہی ہوتا رہے گا۔

عقل و شعور میں باریک سا پردہ ہوا کرتا ہے۔ عقل انسان کو مفاد پرستی و موقع پرستی پر راغب کرتی ہے۔ شعور انسان کو راستہ دکھاتا ہے، غلط و صحیح کی تمیز عطا کرتا ہے۔ عقل تو عطیہ خداوندی ہے۔ عقل انسان کی پیدائشی میراث ہے جبکہ شعور انسان کو خود محنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کتابوں، نظریات، آئیڈیل ازم، زندگی میں در آنے والے حوادث و تجربات، محرومیوں و آسائشوں سے کشید کرنا پڑتا ہے۔

اس معاشرے میں اب تو سب لکھا، سب پڑھا کلیشے لگتا ہے۔ ذہن سازی والے معاشرے اور ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا تو گلی کا تھڑا ہے جہاں ہر راہ چلتا تماشا دیکھنے کو رکتا ہے پھر اپنی ہانکتا ہے اور اگلی گلی میں مڑ جاتا ہے جہاں اسے اور تھڑے مل جاتے ہیں۔ اخلاق، مروت، دیانت، رحمدلی، خوف خدا، حلال، رشتے ناطے، خندہ پیشانی، حب الوطنی، قوم، ملت، وغیرہ وغیرہ یہ سب الفاظ اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ یہ جن جملوں میں استعمال ہوتے ہیں وہ کھوکھلے لگنے لگتے ہیں۔ ایک ہی قلم حق ہے جو ہمارے اعمال نامے لکھتا جا رہا ہے۔ جس دن کھلیں گے اس دن قیامت ہوگی۔

ہر شخص سرخ لکیر کھینچ چکا ہے۔ ہر شخص اپنا حق سچ لیے کھڑا ہے۔ جنریشن زی پر پراپیگنڈا ٹولز کی بھرمار ہے۔ سوشل میڈیا نے جعلی خبروں کے سیلاب کے ساتھ کئی سماجوں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ ہماری ایک نسل اس کو انقلاب یا تبدیلی سے تعبیر کرتی ہے۔ سیاسی و مذہبی مشتعل رویوں میں گھرے ایسے سماج میں لکھنا بہت مشقت طلب ہوتا ہے اور پھر لکھنے کی قیمت چکانا مزید اذیت ناک۔ کہنے لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن سوال تو یہ ہے یہاں بات کہنے سننے کی سپیس کتنی ہے اور برداشت کتنی ہے؟ بشر خدا کا معجزہ ہے روبوٹ نہیں ہے۔ اب تو ایک شعر ہی یاد آتا رہتا ہے۔

شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا۔۔

باقی تو سب خیر ہے۔ امن ہے۔ شانتی ہے۔ گزر رہی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan