Hal Kya Hai?
حل کیا ہے؟
اس نظام پر بہت بار بہت مفصل لکھ چکا ہوں مگر ہر بار کوئی نہ کوئی نیا آتا ہے اور پوچھنے لگتا ہے کہ حل کیا ہے۔ آپ نہیں پڑھتے تو میرا قصور نہیں۔ بہرحال مختصراً پھر سے اسی موضوع پر لکھ رہا ہوں۔
جس کو ووٹ دیتے ہیں اسے قابلِ مواخذہ ٹھہرائیں۔ اس سے اس کے اعمال کا جواب طلب کریں۔ اسے اس کی غلطیوں پر پوچھیں۔ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ اپنا من چاہا ڈکیت بھی شہزادہ اور مخالف چور جس کو سولی پر چڑھا دو۔ بھئی آپ نے جس کو ووٹ دیا ہے آپ اس سے تو پوچھیں کہ کیا کر رہے ہو؟ ان پر جب دباؤ آئے گا یہ سیدھے ہونے لگے گیں۔ مگر نہیں، ہمارا خمیر ہی ایسا اُٹھا ہے کہ اپنا لیڈر ٹومی دوجا کتا۔ جس کو ووٹ دیتے ہیں اس جماعت کے منشور کو یاد رکھیں اور اس پر عمل کروانے کو آواز اٹھائیں۔ ووٹ زید کو دیتے ہیں احتساب بکر کا مانگتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سواری کو کبھی قبول نہ کریں۔ وہ چاہے آپ کی جماعت آئے یا کوئی دوسری۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کو اس نظام پر چیخنے کا حق نہیں۔ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں۔
حل اس نظام کے اندر سے نکل سکتا تو نکل آیا ہوتا۔ پاکستان چھہتر سال کا ہوگیا۔ حل کی جانب پہلا قدم تب اُٹھے گا جب تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر سوچیں گی۔ میں یہاں تک بھی کہوں گا کہ فوج جیسے تیسے بھی اس ملک کی سٹیک ہولڈر بن چکی ہے۔ یہ وہ اونٹ ہے جو خیمے میں گردن گھُسا لے تو پھر باہر نہیں نکل سکتا۔ جب سیاسی جماعتیں کوئی مشترکہ فارمولہ طے کر لیں تو فوج کو بھی ماننا پڑے گا یا کم از کم اختیارات کی مناسب تقسیم کی جانب پہلا قدم تو اُٹھے گا۔ آپ یہاں"میں کلا ہی کافی آں" "متھے رنگ دیاں گا" والی سوچ اور بڑھک و ڈانگ سوٹے والے کلام کو لے کر ہیرو بنانے لگتے ہیں۔ اس نظام کو چلانا ہے تو میجر سرجریز کی ضرورت ہے۔ ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنائیں یا ایک میز پر بیٹھ کر ماضی کی غلطیوں کا تدارک کرنے کو مستقبل کا نقشہ ڈویلپ کریں۔ سیاسی استحکام، معاشی استحام اور نظام کا استحکام کچھ بڑی بڑی سرجریاں مانگتا ہے۔ یہ نظام ڈھا کر از نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی آئینی ترامیم کرنا ہوں گی اور پھر سب کو بائے بک چلنا ہوگا۔
ہر تیسرے سال ایک اہم عہدے کی تعیناتی کے وقت حکومتیں رول بیک کر دی جاتی ہیں یا مشکلات کا شکار کرکے دباؤ میں لائی جاتی ہیں اور پھر اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لیا جاتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان کسی بھی نقطے پر متفق نہیں ہوتے تو کم از کم اس بات متفق ہو کر قانون سازی تو کر سکتے ہیں کہ ایکسٹینشن ختم کی جائے۔ چیف کی تعیناتی خودکار سسٹم کے تحت کرنے کو قانون سازی کی جائے یعنی جو موسٹ سینئیر ہو وہ آٹومیٹک چارج سنبھال لے اور حکومتوں کا اس میں کوئی عمل دخل ہی نہ ہو۔ صرف اتنا سا کام ہی تو کرنا ہے اس نقطے پر متفق کیوں نہیں ہوا جا سکتا؟ اس میں تو کسی سیاسی جماعت کا کوئی نقصان نہیں۔ جب فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہی نہیں تو قانون سازی کے ذریعہ اسے آٹومیٹک کر دیں تاکہ ملک ایک قدم آگے تو چلے۔
ایک اور اہم تعیناتی ڈی جی آئی کی ہوتی ہے۔ اس تعیناتی کا اختیار آئینی طور پر وزیراعظم کے پاس ہے مگر وزیراعظم کا اپنا اختیار کوئی نہیں ہوتا لہٰذا اس تعیناتی کی فکس مدت تین سال کر دی جائے اور نئی تعیناتی یا تبادلے کے اختیار آرمی چیف کے سپرد کر دئیے جائیں۔ حکومتیں اس چکر سے نکل جائیں۔ ادارہ جانے کہ جو بہتر سمجھے کرے۔ آئی ایس آئی صرف آئینی حد تک سول ادارہ ہے اور وزیراعظم کے زیر ہدایت ہے مگر دراصل یہ جن کا ادارہ ہے ان کو مکمل اختیار دیں اور حکومت دیگر سول اداروں پر فوکس کرے۔
سول اداروں کے لیے قانون سازی کریں کہ ان کا سربراہ رئیٹائرڈ شخص نہیں ہوگا۔ میرٹ پر حاضر سروس ہی پروموشن پا کر سربراہ لگے گا۔
زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے پر سخت بین لگایا جائے تاکہ یہ پھیلتی پھولتی کالونیاں اور ان کا دھندا کرنے والے کہیں تو بریک لگائیں۔ دنیا زمین سے اوپر کی جانب بڑھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ زمین پر ہی پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ باغات و زرعی رقبے کو کنکریٹ کھا رہا ہے۔ بڑے بڑے سول و عسکری مگرمچھ آپس میں اتحاد کرکے وسائل کو کھاتے جا رہے ہیں۔
لوئر کورٹس تا سپریم کورٹ ججوں کی تعیناتی کا شفاف نظام بنانے کو تعیناتی بورڈز بنائے جائیں۔ سول سروس کمیشن کی طرز پر ججوں کے امتحانات ہوں، انٹرویوز ہوں اور میرٹ پر تعیناتیاں کی جائیں۔ ججوں کی موجودہ تعیناتی کا نظام بوگس ہے اور اس میں جو چیمبر آف لائرز اثر رسوخ رکھتا ہے وہ اپنا وکیل جج لگوا لیتا ہے۔ چیف جسٹس صاحبان کے اختیارات ختم کرکے تعیناتی کے لیے پروفیشنلز پر مشتمل بورڈ بنایا جائے۔
ایف بی آر کا نظام تھوک سے مٹا کر دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ امریکی طرز پر ان لینڈ ریونیو سروس کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے۔ اس ادارے کا اپنا تعیناتی کا بورڈ ہونا چاہئیے جو اس ادارے میں معیشت کے ایکسپرٹس کو تعینات کرے نیز اس کا اپنا تفتیشی نظام ہو اور اپنی پولیس ہو۔ نادرا ریکارڈ مکمل طور پر ان کی دسترس میں ہو۔ بینکنگ کورٹس و ٹیکس کورٹس اس ادارے کا حصہ ہوں۔ ٹیکس سلیب کو ہر پاکستانی پر یکساں نافذ کیا جائے یعنی ہر شخص کی سالانہ آمدن کا بیس فیصد یا تیس فیصد اس کی آمدن کے حساب سے ٹیکس ایبل ہو۔ ظاہر ہے کم آمدنی والے طبقے کو ٹیکس سلیب سے چھُوٹ دی جاتی ہے۔ نیز ٹیکس ریٹرنز voluntary فائل نہ ہو بلکہ بینکنگ چینلز سے آمدن کا حساب لگا کر سرکار خود ٹیکس نوٹس ایشو کرے۔
کمشنری و ڈپٹی کمشنری کا نظام انگریز کا ہے اور انگریز نے یہ نظام خود کو مسلط کرنے کو نافذ کیا تھا۔ بیوروکریسی کا ڈھانچہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ کمشنری نظام ختم کرکے ڈسٹرکٹس کی سطح پر مئیر کا نظام ہونا چاہئے۔ پولیس و بلدیہ مئیر کے ماتحت ہونے چاہئے۔ تھانوں میں انسپکٹر کا عہدہ شیرف کے مترادف ہونا چاہئیے یعنی اہلیان علاقہ اپنا انسپکٹر انتخاب سے منتخب کریں۔ شہر کے مئیر کے چناؤ میں یہ لازم قرار دیا جائے کہ وہ ہائی ایجوکیٹڈ ہو۔ اس کے پاس بزنس یا گورنمنٹ یا پولیٹیکل سائنس یا ایڈمنسٹریشن میں مینجمنٹ کی ڈگری ہو۔
نچلی سطح پر مجسٹریٹس کو زیادہ اختیارات دئیے جائیں تاکہ عام سول نوعیت کے کیسز اسی سطح پر ختم ہو سکیں۔ یونین کونسلز کے اندر ایک مجسٹریٹ کو انڈکٹ کیا جائے۔ کونسل ہی نچلی سطح کی عدالت ہو۔ طلاق، رقبے کے تنازعات، گلی محلے کے مسائل وغیرہ اسی سطح پر حل ہوں۔
چاروں صوبوں کے آئی جیز کو تین سالہ آئینی عہدہ دیا جائے تاکہ پولیس سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو پائے۔ جب آئی جی کو تسلی ہوگی کہ اس کو ماسوائے سپریم جوڈیشل کونسل کے کوئی نہیں ہٹا سکتا تو وہ بھی اپنے ادارے کو غیر سیاسی کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔
چیف جسٹس کا عہدہ کوئی عہدہ نہیں ہوتا۔ تمام ججز ایک جیسے قابل ہوتے ہیں۔ یہ عہدہ ختم ہونا چاہئیے۔ بینچ کی تشکیل کا کام ایڈمن سٹاف کا ہونا چاہئے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت تین رکنی ججز کمیٹی کو حاصل سوموٹو کے اختیارات تب ایکسرسائز ہوں جب کسی حکومتی فعل یا ایگزیکٹو آرڈر سے آئین پاکستان پر براہ راست ضرب پڑے۔
یہ چند موٹے موٹے اور اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بیسیوں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جو جب اپنے شعبہ جات کے ماہرین بیٹھیں گے تو اجتماعی دانش سے بہت سے مسائل کے حل سامنے آ سکتے ہیں۔ جو بوسیدہ نظام رائج ہے یہ چھہتر سالوں میں کھرب ہا کھرب کے قرضوں تلے پلتا نافذ ہے مگر یہ مزید دس سال بھی نہیں پل سکتا۔ خدا کسی قوم کا سگا نہیں۔ قومیں برباد بھی ہوتی ہیں قومیں سنورتی بھی ہیں۔ جغرافیہ بدلتا بھی ہے۔ نقشے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ خدا کا واضح اعلان ہے کہ میں نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
ٹائیٹنک ٹکرانے کے بعد ڈوبتے ڈوبتے نو گھنٹے لے گیا تھا۔ مگر وہ ٹائیٹینک تھا ہم تو معاشی ٹائیٹنک بھی نہیں اور ٹکرائے ہوئے دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اگر جینا مرنا اسی دھرتی اور اسی ملک میں ہے تو نظام بدلنا ہوگا۔ ان انتخابات، ایسی جمہوریت اور ایسے نظام سے کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ کوئی بھی آ جائے وہ اسی نظام تلے اسی کا حصہ بن کر پِٹ جائے گا۔
اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کی تقلید سے باہر نکلیں۔ ان کو سمجھائیں ان پر دباؤ ڈالیں کہ آنکھیں کھولو۔ دباؤ پڑے گا تو عوامی مزاج کا بدلتا رخ دیکھ کر وہ بھی بدلنے پر مجبور ہوں گے۔
پولرائزیشن کا شکار معاشرہ ہے ہر کوئی اپنا اپنا قبلہ بنائے کھڑا ہے۔ ان سب کو رگڑا کھانے دیا جائے۔ ایک بار ان کا بھوت نکل جائے پھر سدھار پر بھی بات ہو جائے گی۔ ابھی کوئی بھی آنکھیں کھولنے پر آمادہ نہیں۔ ایک جماعت کو کی بورڈ وارئیرز نے سپون فیڈنگ پر لگایا ہوا ہے۔ دوسری جماعت کی سیٹنگ سیٹ ہو چکی ہے۔ ٹھنڈے ہو جاؤ تو پھر عمر پڑی ہے سوچنے کو کہ آگے کیا کرنا ہے۔ نہ بھی سوچو تو خیر ہے کونسا آپ کی سوچ نے سماج اور سسٹم بدلنا ہے اور کونسا آپ کی جماعتوں نے اصلاحاتی منشور دے کر نظام بدلنے کا دعویٰ کرنا ہے۔ یہ سب اسی نظام کے پروردہ و بینیفشری ہیں۔ آپ بس لگے رہو۔ ڈٹ کے رہو۔ ووٹ ڈالو، ووٹ بھگتاؤ اور نعرے مارو۔
اور آخر میں میرے بھائیو، مجھے ووٹ نہیں دیتے یا لکھاری کو اپنا نمائندہ نہیں چنتے جو اس سے پوچھتے ہو کہ حل کیا ہے۔ جن سے پوچھنا چاہئیے ان کے آگے تو "زندہ باد، پائندہ باد" کرتے رہتے ہو۔ لکھاری کا کام نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ جیسے منٹو نے خوبصورتی سے بیان کیا کہ میں تختہ سیاہ پر سفید چاک سے لکھتا ہوں تاکہ تختہ سیاہ کی سیاہی مزید واضح ہو جائے۔ اگر یہ کام کر لیے تو مجھ پر احسان نہیں کریں گے اپنے پر اور ملک پر احسان کریں گے۔