1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Hafiz Naeem Ko Bohat Mubarak

Hafiz Naeem Ko Bohat Mubarak

حافظ نعیم کو بہت مبارک

حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کو امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ان کو کچھ یاد بھی کروایا ہے جس کا جواب حوصلہ افزاء ہے۔ نعیم الرحمٰن صاحب سے میری ایک ہی اتفاقی ملاقات ہے مگر وہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہنے کے سبب کافی سیر حاصل اور پرمغز گفتگو کا موجب بنی تھی۔ آٹھ ماہ قبل میں کراچی سے لاہور کی فلائٹ پر تھا۔ اتفاقی طور پر حافظ نعیم صاحب کو میرے برابر میں نشست ملی۔ وہ بھی کراچی سے لاہور آ رہے تھے۔ گفتگو شروع ہوئی تو میں نے ان سے اُمت اخبار کا ذکر کرتے کہا " امت اخبار آپ کی سیاسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کا نقطہ نظر کافی جارحانہ اور کبھی کبھی بدتمیز ہو جاتا ہے۔ کبھی آپ نے نہیں سوچا کہ یا تو امت اخبار کا سٹاف بدل کر دیکھا جائے یا پھر انداز تحریر، شہہ سرخیاں اور کالم نگار بدلے جائیں۔ مجھے لگتا ہے یہ آپ کی جماعت واسطے مسلسل بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ "

کہنے لگے کہ بخاری صاحب امت اخبار کا ہم سے ڈائریکٹ کوئی ریلیشن نہیں ہے۔ ہاں ٹھیک ہے اس کو چلانے والے جماعت اسلامی سے منسلک لوگ ہیں مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری پالیسی لائن کو وہ لے کر چلتے ہیں یا پھر ہمارے کہنے پر چلتے ہیں۔ وہ آزاد ہیں۔ جو کرتے ہیں اپنے تئیں کرتے ہیں۔ " پھر کہنے لگے "آپ کو کس بات پر اعتراض ہے؟"

میں نے اپنا موبائل کھولا۔ اس کے سیونگ نوٹس میں سے اپنی ایک تحریر نکالی اور ان کے سامنے کرتے کہا "مثلاً یہ ایک مثال ہے۔ "۔ وہ پڑھنے لگے۔

سنہ 2021 میں عورت مارچ پر نو مارچ کے روز امت اخبار نے سرخی لگائی تھی جس میں عورت مارچ میں شریک خواتین کو "رنڈی" لکھ دیا گیا تھا۔ جو تحریر حافظ نعیم صاحب نے پڑھی وہ یہاں پیش ہے۔

"امت اخبار نے عورت مارچ میں شریک خواتین کے لئے "رنڈی" کا لفظ استعمال کیا تو کیا ہوا۔ شاید ایڈیٹر، عملہ، مالک، اور امت اخبار کے سارے چاہنے والے اپنی خواتین کے بارے یہی لفظ استعمال کرتے ہوں۔ حوصلہ کیا کریں ایویں بات کا بتنگڑ نہ بنا دیا کریں۔ آپ کی لغت ضروری تو نہیں سب پر رائج ہو۔ ان کی اپنی لغت ہو سکتی ہے۔ خوامخواہ ہی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہیئے۔

عین ممکن ہے کہ نامہ نگار گھر جاتے ہی کچھ یوں بولتا ہو " میری پیاری رنڈی، ایک گلاس پانی تو لا دیں"۔ یا پھر ایڈیٹر کھانا حرام کرکے کہتا ہو " شکریہ رنڈی، آج تو آپ نے بھنڈی گوشت اعلی بنا دیا"۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس اخبار کو چاہنے والے، اس کے باقاعدہ قارئین بھی اپنی اپنی خواتین کا ایسے ہی شکریہ ادا کرتے ہوں۔

دیکھیں، انداز اپنا اپنا تو ہو سکتا ہے ناں؟ سمجھ نہیں آتی کہ اتنا شور کیوں اور کاہے کو گلہ۔ بھئی وہ چاہے خواتین کو رسیلی بولیں، رنڈی بولیں، جو چاہیں بولیں۔ آخر ان کو بھی تو کسی ر*** نے (ان کی زبان میں) پیدا کیا ہے ناں؟

وہ تو ہم جیسے فاتر العقل لوگ ہوتے ہیں جو کسی پیشہ ور خاتون کو بھی ایسا لفظ بولنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ کسی دھندے والی کو بھی گشتی نہیں کہہ سکتے۔ مگر ہم جیسے کتنے ہیں؟ یہی مٹھی بھر۔ پاگل لوگ۔

میں تو یہی کہوں گا کہ امت اخبار صحافتی اقدار کا مکمل پاسبان ہے۔ بس ذرا ان کی لغت اور ایڈیٹوریل کی زبان الگ سی ہے۔ ماڈرنآئیزئشن کا دور ہے۔ "

یہ پڑھ کر وہ ہنس پڑے۔ کہنے لگے " آپ کی بات درست ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ زبان کا استعمال شائستہ ہونا چاہئیے۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ "

میں نے کہا " حافظ صاحب کیا آپ امت اخبار سے واقف نہیں یا اس کو پڑھتے نہیں؟"۔ کہنے لگے" بالکل میں نہیں پڑھتا"۔ پھر کہنے لگے " اپنی بساط کے مطابق میں کوشش کروں گا کہ ایسا نہ ہو"۔ میں نے پھر سے کہا " بات یہ ہے کہ ایسی اخبار آپ کی جماعت واسطے بدنامی ہے اور کچھ نہیں"۔

اس روز اور بھی کافی بات ہوئی۔ الیکشنز کا تب معلوم نہیں تھا کہ ہونے یا نہیں ہونے۔ ہونے تو کب ہونے۔ موضوعات بدلتے رہے۔ حافظ نعیم صاحب سیدھی بات کرنے والے دبنگ انسان ہیں۔ مجھے امید ہے کہ امیر منتخب ہو کر وہ اس بات کو یاد رکھیں گے۔ جماعت اسلامی کی یہ خوبی ہے کہ وہ مکمل جمہوری جماعت ہے۔ ان کا اندرونی نظام پختہ اور منظم ہے۔ جمہوری ہے۔ میرا جماعت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ماسوائے الخدمت فاؤنڈیشن کے۔ اور الخدمت کے ساتھ تعلق فلاحی کاموں کے سلسلے میں ہے ان کی تقریبات میں جانا رہتا ہے۔

حافظ نعیم کو بہت مبارک۔ وہ اس عہدے کے مستحق تھے اور صحیح مقام پر آئے ہیں۔ پرامید ہوں کہ وہ جماعت اسلامی کو اچھے سے لے کر چلیں گے۔

Check Also

Karachi Bacha Jail Mein Aik Din

By Muhammad Saqib