Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Globalization

Globalization

گلوبلائزیشن

کمپنی بہادر اپنے ساتھ تین "سوغاتیں" بھی لائی۔ چائے، تمباکو اور کرکٹ۔ پنجاب و سندھ کے باسی سرکار انگلیشیہ کے فرمانبردار رہے البتہ پشتون و بلوچ قبائل پر کمپنی بہادر مکمل غلبہ نہ پا سکی۔ پشتون و بلوچ خطے کو مکمل طور پر زیر کرنے میں کمپنی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ پشتون انگریز کے لباس، لائف سٹائل، زبان الغرض ہر شے سے نفرت کرتے تھے۔ پشتونوں کی روایات اپنی تھیں اور وہ ان سے مضبوطی سے جڑے رہے۔

پنجاب و سندھ کے باسیوں کو کمپنی بہادر نے دفتری کاموں میں مصروف کیئے رکھا۔ یہ پتلون بھی پہننے لگے۔ گورا سرکار پائپ اور سگار پیا کرتی تو ان کی دیکھا دیکھی پنجابی و سندھی بھی تمباکو نوشی کرنے لگے۔ یہ خود کو "لاٹ صاحب" کہلوا کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ دوسری جانب پشتونوں نے جتھے بنا کر مزاحمت جاری رکھی۔ پتلون پہننا اور تمباکو نوشی کرنا ان کی روایات کے نہ صرف خلاف تھا بلکہ سارے پشتون خطے میں حرام سمجھا جاتا تھا۔ تمباکو سے پشتونوں کی نفرت شدید تھی۔

سندھی زمینیوں کی دیکھ بھال میں رہے، پنجابیوں نے کار سرکار میں حصہ لے لیا۔ ان کا لائف سٹائل بدلنے لگا۔ لسی کی جگہ چائے نے لی، ہاتھ میں سگریٹ آیا اور ٹانگوں پر پتلون چڑھنے لگی۔ رفتہ رفتہ سوٹ و بوٹ کلچر کا حصہ بنتے گئے۔ کٹلری کا استعمال ہونے لگا۔ دسترخوان ڈائننگ ٹیبل میں بدل گئے۔ انگلیوں میں چمچ و کانٹے سمائے۔

بلوچ و پشتون اپنی روایات سے جڑے رہے۔ دسترخوان جوں کا توں رہا، جنگلی بوٹیوں سے بنا قہوہ ہی ان کا مشروب بنا رہا۔ شلوار قمیض اور پگڑی ان کا لباس رہا۔ انگریزی بولنا انہوں نے نہ سیکھا نہ اس زبان میں ان کی دلچسپی پیدا ہو سکی۔ سرکار انگلیشیہ سے نفرت ان کے خون میں موجزن رہی۔

سنہ 1923 میں جب برطانوی فوج کا میجر ایلس کوہاٹ و درہ آدم خیل کے اطراف مقامی مزاحمت کار و قبائلی جنگجو عجب خان آفریدی (اس واقعہ کی تاریخ کچھ روز قبل تحریر میں لکھ چکا ہوں) کی تلاش میں چھاپے مارتا پھر رہا تھا اس کی کمپنی تھکن و بیزاری کا شکار ہونے لگی۔ اپنی پلٹون کو تازہ دم رکھنے کی خاطر میجر ایلس نے کوہاٹ گریژن میں کرکٹ میچ کا انعقاد کیا۔ اس کھیل کو دیکھنے اطراف سے لوگ جمع ہونے لگے۔ وہ پشتون جو دل میں انگریز سے نفرت رکھتے تھے وہ کرکٹ کے کھیل کو دیکھ کر خود کو روک نہ پائے۔ ان کی کرکٹ سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔

وقت بدلا، دنیا گلوبل ویلج بنتی گئی۔ اس گلوبلائزیشن نے ہی ہم کو بہترین پشتون کرکٹر دیئے۔ میں خود پنجابی ہوں اور خود سموکر بھی مگر نہ جانے کیوں جب بھی میں کسی پشتون جوان کو سگریٹ پیتے دیکھتا ہوں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ وقت کے ساتھ لباس بھی بدلا، پتلون پہننا مجبوری بنتا گیا۔ آفس کا ڈریس بنتا گیا۔ اب چائے ملک کے کونے کونے میں پی جاتی ہے۔ روایات کو گلوبلائزیشن نگل رہی ہے۔

سوچوں میں گم جب میں پشاور نمک منڈی کے ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر نکلا تو ایک پڑھا لکھا پشتون نوجوان بھاگا بھاگا آیا اور سگریٹ جلانے کو مجھ سے انگریزی میں بول کر لائیٹر مانگنے لگا۔ میں نے اسے لائیٹر تو دے دیا مگر ہنستے ہنستے پوچھا "تم عجب خان آفریدی کو جانتا ہے؟" اس نے میرا چہرہ یوں دیکھا جیسے میں نے اسے ڈرا دیا ہو۔ کچھ لمحے سوچتا رہا پھر بولا "ہم کسی کو عجب خان کو نہیں جانتا، اس کا علاقہ بتاؤ، پھر تم کو بتا سکتا ہے کہ اسے کہاں جا کر تلاش کرنا ہے۔

Check Also

Dostan e Rahim Yar Khan, Hamari Mazrat Qubool Kijiye

By Haider Javed Syed