Gande Ande
گندے انڈے
کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک الگ مذہب ہے جس میں شامل ہوتے وقت انسان کے پچھلے کرتوت یکسر نظرانداز و معاف ہو جاتے ہیں مگر اسے چھوڑ کر جانے والے پر تبرہ کرنا واجب ہو جاتا ہے، نیز اُس کے ماضی کے کرتوت بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔ بھئی جب کوئی داخل از تحریکِ انصاف ہو تو وہ لوٹا نہیں مگر جب نکلے تو وہ لوٹا۔ ٹھیک ہو گیا، اس جماعت کا نصب العین بھی امریکا کے رویے جیسا ہے کہ "اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو پھر تم ہمارے دشمن ہو"۔ یعنی اگر آپ تحریکِ انصاف کی طرزِ حکمرانی و نااہلیت پر تنقید کر رہے ہیں تو پھر آپ پٹواری، جیالے یا ڈیزلی ہیں۔
مزہ تو تب آتا ہے جب آپ پچھلوں کے بھی حامی نہ ہوں تو پھر یہ تڑ پ کر کہتے ہیں " تم نیوٹرل ہو تو قومی کرائسز میں نیوٹرل ہونا جُرم ہے" (ایک مہا انصافی سوشل میڈیا انفلیونسر نے مجھے ان باکس میں آنجہانی گورے کا کوٹ بھیج کر تنبیہہ کی ہے۔
(Neutrality is a crime in the times of chaos)
صحیح اے وئی، میں آپ کی ایمانی طاقت کے صدقے۔ خان دا کلمہ پڑھو تے جاری رکھو ایس مذہب نوں۔
ویسے ایک صاف ستھری بات ہے جو کہ کرتا ہی چلوں۔ بالفرضِ محال اگر یہی چوائس ہو کہ دو گندے انڈوں میں سے کسی ایک کو چُننا ہو تو میری عقل و دانش یہی کہتی ہے کہ تھوڑا کم گندا انڈہ چُن لوں۔ اگر متحدہ اپوزیشن محاذ کو ایک انڈہ اور عمران خان کو دوسرا انڈہ مان لیا جائے تو مندرجہ ذیل کسوٹی پر رکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ اپوزیشن محاذ میں شامل جماعتیں بھی سٹیٹس کی حامی تھیں اور عمران خان بھی سٹیٹس کا ہی حصہ ہیں۔ اسی نظام میں بیٹھا ہوا ہے۔ طاقت کا اصل مرکز اور ہے۔ اس نقطے میں دونوں انڈے برابر گندے ہیں۔
۲۔ اپوزیشن محاذ میں شامل جماعتوں کی کابینہ و مشیران میں اوپر سے نیچے تلک سب ڈکیت ہوتے تھے۔ عمران خان کے پاس بھی وہی ہیں یا ان سے ملتے جلتے دو چار نئے ڈکیت ہیں۔ اس نقطے میں بھی دونوں انڈے برابر گندے ہیں۔
۳۔ اپوزیشن محاذ میں شامل جماعتوں کے لیڈران نے مذہب کارڈ اپنے اپنے دور میں بوقتِ ضرورت خوب استعمال کیا۔ نواز شریف صاحب آئینی ترمیم کر کے خود کو امیرالمومنین کہلوانے کے خواہش مند تھے تو آصف زرداری و محترمہ بینظیر بھٹو نے امام ضامن، درباروں پر حاضری اور اپنے مذہبی زیاراتی دوروں (کربلا و نجف و مدینہ) کی بھی خوب تشہیر کروائی تھی۔ اور فضل الرحمٰن تو ہر دم مذہب کارڈ ہی کھیلتے رہتے ہیں۔ ان کی تو روز کی روٹین ہے۔ عمران خان نے بھی اپنی زیرو کارکردگی کی ڈھال ریاستِ مدینہ بنا ڈالی اور ہاتھ میں تسبیح۔ اس حمام میں بھی سب برابر کے ننگے ہیں۔ دونوں گندے انڈے ہیں۔
۴۔ پچھلے بھی "ان" کی آشیرباد سے سمجھوتہ کر کے اقتدار حاصل کرتے تھے۔ عمران بھی "ان" کئ آشیرباد سے پوری سپورٹ سے اقتدار میں آیا۔ انہوں نے بھی اقتدار کا وہی راستہ اختیار کیا جو ہمارے ہاں پاور میں آنے کا روائیتی راستہ ہے۔ دونوں برابر کے گندے ہیں۔
۵۔ پچھلے بھی اپنی حکومتوں کی ناقص کارکردگی کا الزام اپنے سے پچھلی حکومت پر دھرتے تھے۔ خان نے بھی مسلسل وہی وطیرہ اپنا رکھا ہے۔ دونوں اطراف کا طرزِ سیاست ایک سا ہے۔ دونوں برابر کے گندے انڈے ہیں۔
۶۔ اپوزیشن محاذ کے لیڈران کے بچے بھی باہر ہیں۔ وہیں سیٹ ہیں یا بلاول و آصفہ باہر سے پڑھ کر واپس آ گئے لیکن آئے سیاست کرنے وگرنہ مجھے پورا یقین ہے کہ ان پر بینظیر کی موت کی صورت افتاد نہ آن پڑتی تو وہ نہ آتے۔ سیاست بچانا مجبوری تھا۔ اسی طرح وجہ جو بھی ہو عمران خان کے بچے بھی باہر ہیں۔ وہ بالغ ہیں۔ واپس اپنے والد کے پاس آ سکتے تھے اگر چاہتے۔ اس نقطے پر بھی سب برابر ہیں۔
۷۔ پچھلوں نے میٹرو لائن و اورنج ٹرین جیسے بلین ڈالرز کے سفید ہاتھی کھڑے کئیے جن کا کوئی سسٹین ایبل سسٹم نہیں تھا بلکہ الٹا سبسڈی کی صورت قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں اور جب تک یہ ہیں، قومی خزانے پر مسلسل بوجھ رہیں گے۔ یہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔ عمران خان نے بھی اسی نقشِ قدم پر لنگر خانے و پناہ گاہیں کھولیں جن کا کوئی سسٹین ایبل ماڈل نہیں ہوا کرتا۔ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے قرضہ اسکیمز متعارف کروائیں۔ کروڑوں نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والے نے احساس کارڈ بانٹے۔ سب ایک سے پراجیکٹس۔ مقصد اپنی و اپنی حکومت کی نمود و نمائش۔
۸۔ نواز شریف اینڈ کمپنی کے بیرون ملک اثاثے، زرداری صاحب کے سرے محل و دبئی ٹاورز، فضل الرحمٰن کی اربوں کی زرعی زمین اور اس کے علاوہ بہت کچھ ان سب کا آفشور بہت کچھ عیاں ہے۔ ہاں عمران خان نے بھی بنی گالا میں ایکڑوں پر پھیلے محل کو صرف بارہ لاکھ ٹیکس دے کر سی ڈی اے سے قانونی تحفظ دلوایا۔ یہ بھی کرپشن ہے۔ مگر عمران کا کوئی سرے محل، مے فیئر فلیٹ یا دبئی ٹاور نہیں ہے۔ ہاں اس نے اپوزیشن لیڈران کے مافق بے تحاشہ ڈاکا نہیں ڈالا۔
خان صاحب نے کک بیکس، کمیشنوں سے اثاثے نہیں بنائے یا اپنی ذات کے واسطے قومی خزانے کی اندھی لوٹ مار نہیں مچائی۔ اسی طرح اس نے جہانگیر ترین و علیم خان کو ان کی بدعنوانی کی فائلیں سامنے آنے پر انہیں کوئی حکومتی سپورٹ مہیا نہیں کی۔ اسی سبب سے آج وہ ترین گروپ کے ہاتھوں تنگ بھی ہو رہے ہیں۔ یہی سابقہ ادوار میں ہم وزراء کی کرپشن دیکھتے آئے جب وزیراعظم سے لے کر سیاسی جماعت میں شامل ورکر تک کرپٹ وزراء کو اپنی پوری طاقت مہیا کرتے تھے۔ کسی بدعنوان انسان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا تھا۔
بس یہ آخری نقطہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان باقیوں سے ذرا سا کم گندا انڈہ ہے۔ اور چوائس جب یہی بچے کہ دو گندے انڈوں میں سے کسی ایک کو چُننا ہو تو آپ کی عقل و دانش بھی یہی کہے گی کہ ذرا کم گندا انڈہ چُنو۔ ہاں، بشرط، آپ کا دماغ کسی سیاسی جماعت کے ہاں گروی نہ پڑا ہو، ان کے ہاتھوں ہیک نہ ہوا ہو اور آپ کی آنکھوں پر سیاسی جماعت کے کھوپے نہ چڑھے ہوں۔ نیز آپ لیڈران کے پاخانے سے خوشبو برآمد کرنے کے فن سے ناآشنا بھی ہوں۔