Farooq Ghumman
فاروق گھمن

بیتے دن اور بھولی بسری یادوں کو چھوتے کبھی کبھی ذہن کے پردے پر جمی دھول کسی یاد سے یوں اڑتی ہے کہ منظر صاف شفاف آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ کالج کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ نئی نئی جوانی، جیب میں گنے چنے پیسے اور ہائے محبتیں۔ پروفیسرز اور والدین کے درمیاں سینڈوچ بنے رہنا۔
سیکنڈ ائیر میں پہنچتے گہری مونچھیں آ چکیں تھیں جن کو بڑے چاو سے آئینے کے سامنے سیٹ کرنا پڑتا۔ یہ گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ تھا۔ سیکنڈ ائیر میں پہنچا تو میرا ایک دوست دو چار دن میں ہی بن گیا۔ کئی لوگ اچانک سے قریب آ جاتے ہیں۔ ان سے قربت جلد بڑھ جاتی ہے جیسے پہلے سے شناسا ہوں۔ اس کا نام فاروق گھمن تھا۔ گھمن عرصہ تین سال سے مسلسل فیل ہوتا آیا تھا اسی وجہ سے اب تک سیکنڈ ائیر میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ فیل ہونے کی وجوہات بہت سی تھیں۔
اول تو یہ کہ گھمن کبھی کلاس اٹینڈ نہیں کرتا۔ اس کا شوق چھوٹی موٹی بدمعاشی کا تھا۔ وہ بلا ناغہ صبح 8 بجے کالج کی گراونڈ میں بیٹھا پایا جاتا۔ اس نے پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن) جوائن کر رکھی تھی۔ ہمارے زمانے میں کالجز میں تین سٹوڈنٹس گروپ ہوا کرتے اور تینوں کا مقصد صرف بدمعاشی ہوا کرتا۔ باقی دو تھے ایم ایس ایف (مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور اے ٹی آئی (انجمن طلباء اسلام)۔
فاروق گھمن عمر میں مجھ سے چار سال بڑا تھا۔ اصولی طور پر تو اب تک اسے گریجویشن پاس کرکے ایم اے میں ہونا چاہیئے تھا مگر اس کے "شوق" اسے آگے بڑھنے نہیں دیتے تھے۔ اس کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ آئے دن اسے کسی نہ کسی لڑکی سے محبت بھی ہو جایا کرتی اور لڑکی اس کی "شخصیت" سے گھبرا کر اپنی راہ ہی بدل لیا کرتی۔ گھمن چند دن اداس رہتا پھر زندگی ڈگر پر آجاتی۔
سن 2001 میں، اس زمانے میں، جو میرے ہم عمر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ کسی سٹوڈنٹ کے پاس اگر ہنڈا 125 بائیک ہوا کرتی تو وہ بہت خوش نصیب مانا جاتا تھا۔ بائیک بھی ایک لگژری مانی جاتی تھی۔ سٹوڈنٹس تو پبلک ٹرانسپورٹ پر آتے یا سائیکلز پر۔ خال خال ہی کوئی بائیک پر آیا کرتا۔ گھمن کے پاس چمکتی دمکتی ہنڈا 125 ہوا کرتی۔ دوسرا گھمن کے پاس ایک عدد موزر ہوا کرتا (اس زمانے میں نائن ایم ایم یا اس جیسی ہر شے کو عرف عام میں موزر کہا کرتے تھے)۔ موزر کو گھمن نے کبھی شلوار کے نیفے کے ساتھ باندھا ہوتا تو کبھی پینٹ کی بیلٹ کے ساتھ چھپا کر لگایا ہوتا۔ یہ موزر اس کی پہچان تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سٹوڈنٹس فیڈریشنز بدمعاشی کیا کرتیں اور کبھی کبھی آپس میں بھی بھڑ جایا کرتیں۔ اسی واسطے تمام لوفروں نے اسلحہ بھی ساتھ رکھا ہوتا۔
گھمن کو موزر بہت عزیز تھا۔ اتنا عزیز کہ وہ کالج کی گراونڈ میں روزانہ اسے اپنے ساتھ سردیوں کی دھوپ لگواتا۔ اسے چومتا۔ سٹوڈنٹس کو اس کی زیارت کرواتا تا کہ سب جان لیں کہ گھمن ہی اس کالج میں ان کا "لیڈر" ہے۔ بات بات پر موزر نکالنا اور نکال کر بس سائیڈ پر کھلے عام رکھ دینا اس کی سرشت تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ دل کا انتہائی اچھا انسان تھا۔ آج تک اس نے چیونٹی بھی نہ مسلی تھی۔ جب وہ میرا دوست بنا تو مجھے اس کا معلوم ہوا کہ یہ موزر اور یہ سب کچھ تو بس برائے "شغل" ہے وگرنہ گھمن سے تو سٹوڈنٹس کجا ننھا بچہ بھی نہ ڈر سکتا تھا۔
اگر آپ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ گھمن کوئی توپ شے تھا تو آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ گھمن کا قد پانچ فٹ تھا۔ وہ کالج میں سب سے پستہ قد تھا۔ اس پانچ فٹ قد پر اس کی گہری دبیز مونچھیں اس کی "شخصیت" کو مزید دبا دیتیں۔ ہنڈا 125 کی کک بھی وہ کبھی کبھی کسی راہ چلتے سٹوڈنٹ سے بزور بازو لگوایا کرتا۔ اس کی وجہ کہ 125 کی کک ہارڈ تھی اور گھمن کا قد بمعہ دبلی پتلی صحت اس قابل نہ تھا کہ وہ کک لگا کر باآسانی موٹرسائیکل سٹارٹ کر سکے۔ شاید اسی "محرومیوں" کی سبب اس نے سوچا تھا کہ اگر اس معاشرے میں سر اٹھا کر جینا ہے اور اپنی عزت کرواتی ہے تو پی ایس ایف جوائن کر لو اور موزر رکھ لو۔ اب آپ صحیح سمجھے ہیں کہ گھمن کی شخصیت کیا شخصیت تھی۔
گھمن یاروں کا یار تھا۔ جب وہ یار بنا تو اس نے مجھ سے بھی پی ایس ایف کا فارم سائن کروایا اور مجھے پی ایس ایف کا رکن بنوا دیا۔ میں ان کے ساتھ کبھی نہ بیٹھتا تھا۔ اول تو کلاسز لینا ہوتیں تھیں، دوئم یہ کہ میں کسی لڑائی جھگڑے کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی سبب سے ایم ایس ایف والے یا اے ٹی آئی والے مجھے راہ چلتے پی ایس ایف کا ممبر سمجھ کر پیل جائیں۔ ان دنوں یہ کلچر عام تھا کہ مخالف گروپس ایک دوسرے کو کالج کے باہر "پھینٹا" لگا جاتے تھے۔
ایک بار ایم ایس ایف کے کن کٹوں نے کالج میں داخل ہوتے ہوائی فائرنگ کی۔ راوی کے مطابق (راوی ہمارا مشترکہ دوست تھا) گھمن اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس نے یہ جانتے ہی کہ ایم ایس ایف کے کن کٹے کالج میں داخل ہو رہے ہیں موقعہ سے فرار حاصل کیا اور گھمن یوں غائب ہوا کہ اس کی ہوا بھی نہ مل سکی۔ جبکہ گھمن کے مطابق قصہ یوں تھا کہ اگر اس کے موزر کے چیمبر میں گولی نہ پھنستی تو وہ ایم ایس ایف کی لاشوں کے ایسے پشتے لگا دیتا کہ مائیں اپنے بچوں کو نہ پہچان پاتیں۔ آپ کو بتایا ناں گھمن بس ایسا ہی تھا۔
ایک دن معمول کے مطابق وہ کالج سے شام کو گھر جانے کے واسطے نکلا۔ موزر ڈبے لگا ہوا تھا۔ ان دنوں گلی محلوں میں پولیس کے ناکے لگا کرتے تھے۔ گھمن اپنی مستی میں ہنڈا 125 پر جھولتے ڈولتے جا رہا تھا کہ آگے پولیس ناکے پر کھڑے پولیس والے نے اسے روکنے کو اپنا بازو آگے کر دیا۔ گھمن کو شرارت سوجھی۔ اپنے تئیں گھمن نے چاہا کہ پولیس والے کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر یعنی "ہائی فائیو" کرکے بائیک بھگا دے۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ گھمن کا تیر خطا ہوا، نشانہ یوں چوکا کہ گھمن کا ہاتھ پولیس والے کے منہ پر جا پڑا۔ اس ماجرے کے بعد گھمن آگے آگے تھا اور دو پولیس والے اپنی بائیک پر اس کے پیچھے لگے تھے۔
گھمن کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ اس نے ایک مسجد دیکھی۔ اس کے باہر بائیک کو گرا دیا کہ بائیک کو سٹینڈ پر لگا کر کھڑا کرنے کا وقت بھی نہیں مل پایا۔ بھاگم بھاگ مسجد میں گھسا اور سیدھا نماز نیت لی۔ اب پولیس والے اس کے پیچھے مسجد میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ تو نماز پڑھنے میں مشغول ہے۔ وہ گھمن کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
بقول گھمن کہ اس شام اس نے بنا وضو کے ایک گھنٹہ نماز پڑھی۔ ایک ختم کرتا تو فوری دوسری کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا۔ پولیس والے بیزار ہو گئے اور آخر ایک نے دوسرے کو کہا "چلو چلیں، لڑکا دل کا اچھا ہے، نیک ہے، بس اس سے غلطی ہوگئی"۔ جس کو چپیڑ لگی تھی اس نے جاتے جاتے کہا تھا "ابھی معاف کر رہا ہوں، ہمارے لئے بھی دعا کر دینا بھائی"۔
گھمن کے بقول مسئلہ یہ تھا کہ اگر پولیس والے اسے دھڑ لیتے تو موزر برآمد ہو جاتا اور پھر مسئلہ بہت سیریس ہو جانا تھا۔ اسے یہی سوجھا کہ ان سے بچنے کو نماز نیت لو۔
ایک سرد دوپہر کا ذکر ہے۔ کالج کی گراونڈ میں رونق لگی تھی۔ ہم دوست بیٹھے کینو چھیل رہے تھے۔ گھمن آیا، اس نے بڑے سنجیدہ لہجے میں مطلع کیا کہ اسے ایک لڑکی سے سچی محبت ہوگئی ہے اور وہ اسے پرپوز کرنا چاہ رہا ہے۔ گھمن کو اتنا سنجیدہ دیکھ کر میں نے پوچھا کہ تجھے لڑکی کہاں ملی؟ کب ملی؟
یہ میں بتانا بھول ہی گیا کہ گھمن ہر دوپہر بلا ناغہ 1 تا 2 گورنمنٹ کالج برائے خواتین کے گیٹ کے سامنے پایا جاتا تھا۔ ہم اس کام کو اس زمانے میں"ٹائم اٹھانا" کہتے تھے جسے آپ "پونڈی" کرنا کہتے ہیں۔ وہ اپنا ہنڈا کھڑا کرتا اور اس سے ٹیک لگا کر مونچھوں کو تاو دیتا لڑکیوں کو آتے جاتے دیکھتا رہتا۔ اسی دوران اسے ایک لڑکی سے "محبت" وغیرہ ہوگئی تھی۔ وہ اب اسے پرپوز کرنا چاہتا تھا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ گھمن محبت گئی تیل لینے یہ تو کن چکروں میں پڑ رہا ہے مگر وہ نہ مانا۔
راوی کے مطابق (راوی وہی مشترکہ دوست) کہ میں ساتھ تھا۔ گھمن نے مجھ سے بائیک کی کک لگوائی، مجھے پیچھے بٹھایا اور گورنمنٹ گرلز کالج کے سامنے روک کر اس لڑکی کا انتظار کرنے لگا۔ وہ لڑکی نکلی۔ گھمن چلتا ہوا سیدھا اس کے پاس پہنچا۔ اس نے ڈبے لگا موزر نکالا اور اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا "مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔ اگر تم کو نہیں ہے تو یہ لو مجھے ابھی گولی مار دو ورنہ میں تمہیں مار دوں گا"۔ گھمن کو لگا تھا کہ ایسے اس لڑکی کا دل پسیج جائے گا کہ یہ شخص میرے لئے گولی کھا کر مرنا بھی چاہتا ہے نیز گھمن کے خیال میں لڑکیاں ہیروانہ انداز پر دل فریفتہ ہو جاتی ہیں۔
اس لڑکی نے جو یہ ماجرا دیکھا تو وہ گھبرا گئی۔ اس نے منمناتے ہوئے بمشکل کہا "میری منگنی ہو چکی ہے۔ اسی سال شادی ہے" اور یہ کہہ کر اس نے دوڑ لگا دی۔ یہ ماجرا وہاں موجود ڈیڑھ دو سو لڑکیوں اور دیگر افراد نے بھی دیکھا۔ گھمن نے واپس آ کر بائیک سنبھالی اور ہم دونوں چل دیئے۔
وہاں سے واپس آتے ہی گھمن میرے پاس آیا۔ جب سارا قصہ معلوم ہوا تو مجھے بہت ہنسی آئی۔ اس نے میرے سر پر چت لگائی اور موزر دکھاتے بولا "مہدی، اب تو ہنسا تو قسم ہے حنا کی کہ گولی تیرے منہ کے اندر سے گزاروں گا"۔ یہ سنتے ہی میری گھگھی بندھ گئی۔ میں نے سنجیدہ ہوتے کہا "اب حنا کون؟"۔ بولا " وہی جو جھوٹ بول رہی تھی کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے اور اسی سال شادی ہے"۔ ہمیں معلوم ہوا کہ حنا نامی لڑکی پشتون فیملی سے تھی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ گھمن وہ سچ کہتی ہوگی۔ پشتون خاندانوں میں لڑکیوں کی شادیاں جلد کرنے کا رواج ہے یا کم از کم رشتے وہ جلد طے کر دیتے ہیں۔ اب اس کا پیچھا چھوڑ دو۔
گھمن نے "ٹائم اٹھانا" چھوڑ دیا تھا۔ وہ دلبرداشتہ ہو چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دو تین ماہ اس نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کا رخ نہیں کیا۔
پھر ایک انہونی گھٹنا گھٹی۔ رفتہ رفتہ گھمن کے زخم بھرے تو اس نے پھر سے کسی لڑکی کو پسند کر لیا۔ اب کی بار نجانے کیسے لڑکی بھی اس میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ پائی کہ آخر گھمن نے اسے کیسے "متاثر" کیا تھا مگر حقیقت یہی تھی کہ ایک لڑکی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ گھمن اس کے گھر باقاعدہ رشتہ بھیجے۔ یہ صورتحال جب مجھے معلوم ہوئی تو میں نے گھمن کو مشورہ دیا کہ اگر واقعی سنجیدہ ہو تو گھر بات کرو۔
گھر بات کرنے کی دیر تھی کہ گھمن کے گھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ گھمن کی فیملی سیالکوٹ کے نواحی گاوں میں رہتی تھی۔ والد صاحب زمیندار تھے اور انتہائی سخت مزاج تھے۔ وہ ایک مکمل لینڈ لارڈ تھے۔ ویسی ہی سختی مزاج میں تھی۔ گھمن ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مسئلہ والد سے زیادہ گھمن کی والدہ کا تھا جنہوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ خود بہو اپنی منشاء سے لائیں گی۔ یہ سنتے ہی والدہ ڈھ گئیں۔ ان کو جب ہوش آئی تو گھر آسمان پر اٹھا لیا۔ بہت ہنگامہ ہوا۔
نجانے کیسے گھمن نے گھر والوں کو راضی کر لیا تھا۔ جس دن گھمن کے ماں باپ لڑکی کے گھر رشتہ لینے جا رہے تھے اس دن گھمن انتہائی خوش تھا۔ راوی کے مطابق (راوی اب کے گھمن کا چھوٹا کزن تھا جس کو والدین ساتھ لے گئے تھے) ہوا یوں کہ لڑکی کے گھر والے سیالکوٹ کینٹ میں واقع عسکری کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ یعنی پڑھی لکھی اور امیر فیملی تھی۔ رشتے کی بات ہوئی تو لڑکی کے والد نے کہا "ہاں ٹھیک ہے، میں ماڈرن خیالات کا آدمی ہوں، یہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، بس آپ ایسا کیجیئے کہ عسکری کالونی یا شہر سیالکوٹ میں کسی اچھی جگہ گھر بنا لیجیئے پھر میں بیٹی کو بیاہ دوں گا۔ میری بیٹی گاوں کے ماحول میں نہیں رہ سکتی"۔
یہ سن کر بڑے گھمن صاحب نے کہا کہ جائیداد یا دھن دولت کی کمی نہیں ہے۔ سب کچھ فاروق کا ہی ہے۔ وہ جب چاہے شہر میں گھر بنا لے مگر یہ شرطوں کے ساتھ رشتہ بنانا اچھا نہیں اس واسطے آپ ہاں کیجیئے، کل کو یہ دونوں خود ہی جو بہتر لگے گا کر لیں گے"۔ لڑکی کے والد پھر بھی بضد رہے۔ گھمن کے والدین وہاں سے رخصت لے کر واپس آ گئے کہ یوں شرط رکھنا مناسب نہیں۔
اسی شام گھمن نے مجھے اور دیگر دو دوستوں کو اللہ مالک ریسٹورنٹ پر بلایا۔ ہم وہاں پہنچے۔ ہمارے ذہنوں میں تھا کہ گھمن کا رشتہ پکا ہونے کی خوشی میں گھمن ہم کو پارٹی دے رہا ہے۔ گھمن پہنچا۔ آتے ہی اس نے چیخ کر کہا "کیا مسئلہ ہے میرے ابے کو؟ کیوں نہیں مان جاتا۔ شہر میں کیوں گھر نہیں خرید لیتا"۔
اس شام ہمیں ماجرا معلوم ہوا۔ گھمن شدید غصے میں تھا۔ وہ والدین سے باغی ہوا چاہتا تھا۔ ہم تینوں نے اسے ٹھنڈا کیا۔ اسے بہت سمجھایا۔ وہ وہاں سے اٹھا اور گھر چل دیا۔ گھر پہنچ کر اس نے کچھ نہیں کیا۔ سیدھا کمرے میں گیا اور سو گیا۔ مگر اگلی صبح کچھ اور ہی مقدر لئے اتری۔
قصہ اب یوں ہے کہ گھمن کے والد صاحب چھت پر بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔ والدہ ان کے برابر بیٹھیں گندم کو صاف کر رہی تھیں۔ فاروق نے موزر نکالا۔ چھت پر گیا۔ والدین کے سامنے اس نے موزر اپنی کنپٹی پر دھرا اور والد کو مخاطب کرتے بولا "اگر آپ نہ مانے تو میں ابھی خود کو گولی مار لوں گا"۔ بڑے گھمن صاحب کرسی سے اٹھے۔ انہوں نے رکھ کے ایک چانٹا دائیں اور ایک بائیں رسید کیا۔ گھمن کا موزر ہاتھ سے چھوٹ کر گرا۔ والد صاحب نے موزر اٹھایا اور گھر کے برابر میں نیچے کھڑے تالاب نما چھپڑ میں پھینک دیا۔ گھمن کی گھر کی دیوار کے ساتھ تالاب بنا ہوا تھا جس میں مدتوں سے پانی کھڑا تھا۔ اس تالاب میں کائی اگ آئی تھی۔ دلدلی تالاب تھا۔ موزر اس کی تہہ میں اتر چکا تھا۔
خدا جانے کہ گھمن کے والد صاحب نے مزید کیا کیا۔ مجھے اتنا ہی معلوم ہوا۔ گھمن کالج سے غائب ہوگیا۔ پورے سات دن بعد کالج آیا۔ موزر کا قصہ سنایا اور پھر بولا "میں نے اب ہتھیار پھینک دیا ہے۔ اب ابا جو چاہے کرے۔ اب میں کسی سے محبت نہیں کروں گا۔ یہ لے آئیں اپنی مرضی کی اور اسے سنبھالتے رہیں"۔
سیکنڈ ائیر کا سال گزر گیا۔ میں پاس ہو کر کراچی یونیورسٹی چلا گیا۔ گھمن پھر فیل ہوا۔ اس نے پی ایس ایف چھوڑ دی تھی۔ موزر تو کب کا جا چکا تھا۔ یوں بھی وہ اب کالج کم کم آنے لگا تھا۔ میرا اس سے تعلق کراچی جا کر ختم ہوگیا۔ اس زمانے میں موبائل کی سہولت نہیں تھی۔ موبائل افورڈ کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ سنہ 2003 تھا۔
میرے والد کا انتقال 2006 میں ہوا۔ انتقال کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد گھمن کو کہیں سے خبر ملی۔ وہ ایک دن اچانک افسوس کرنے سامنے آن کھڑا ہوا۔ میں نے بیٹھک کھولی۔ افسوس کر چکا تو بولا کہ شادی کر چکا ہے۔ ایک تین سال کی بیٹی ہے۔ بیگم خاندان سے ہی ہیں۔ امی کی خالہ زاد بہن کی بیٹی ہے۔ ابا جی کے ساتھ زمیندارہ دیکھتا ہے۔ ابا جی تو اب کام نہیں کرتے سوائے حساب کتاب دیکھنے کے۔
بس اس دن اسے آخری بار دیکھا۔ سال قبل ایک گم گمشتہ مشترکہ دوست سے سیالکوٹ میں ملاقات ہوگئی۔ میں والدین کی قبروں پر دعا پڑھنے گیا تھا۔ قبرستان سے نکل کر پیرس روڈ سیالکوٹ پر کھڑی ایک ریڑھی سے چاٹ کھانے کو رکا۔ یہ اس لئے کہ یہاں میرا آفس ہوا کرتا تھا اور اسی ریڑھی والے سے چاٹ کھانا معمول ہوا کرتا تھا۔ وہاں سے گزر ہوا تو پرانی یاد تازہ کرنے کو پھر بریک لگا دی۔ اسی اثناء میں مجھے وہ دوست پہچان کر آن ملا۔ گھمن کا یاد کرواتے بولا "پچھلے ماہ نومبر میں اس نے بیٹی کا نکاح کر دیا۔ تم تو سالوں سے غائب ہو گئے۔ میں انوائٹ تھا۔ گھمن بالکل اپنے مرحوم والد جیسا لگ رہا تھا۔ سر پر کلاہ، واسکٹ اور پاوں میں کھسہ۔ بیٹی کو کسی نے پسند کرکے رشتہ بھیجا۔ گھمن نے بتایا کہ جب رشتہ آیا میں نے بیٹی کو بلایا اور اسے پوچھا۔ اس نے رضامندی ظاہر کر دی تو میں نے بھی ہاں کر دی۔ رخصتی ان کی ڈگری مکمل ہونے کے بعد کروں گا۔ ابھی تو یہ دونوں بی ایس کے سٹوڈنٹس ہیں"۔
میں نے اس سے گھمن کا موبائل نمبر لیا۔ اسے کال ملا دی۔ جیسے ہی کال اٹینڈ ہوئی میں نے اپنا تعارف کروایا۔ پہچانتے ہی بہت خوش ہوا۔ بیٹی کے نکاح کی مبارک دے کر میں نے ہنستے ہوئے "اب تو تم نے دو چار موزر رکھے ہوں گے؟"۔ جواب میں فلگ شگاف قہقہہ آیا پھر بولا "کیا یاد کروا دیا۔ تالاب کب کا خشک ہوگیا۔ اب تو وہاں مکان بن چکا ہے۔ پانی کے خشک ہونے پر میں نے موزر تلاش کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مل سکا تھا اور لعنت بھیجو موزر پر، جوانی کا زمانہ تھا ایسے ہی بیکار گزار دیا"۔
"اچھا تو پھر تم نے موزر ڈھونڈنے کی کوشش کیوں کی تھی؟"
"اس لئے کہ اگر مل جاتا تو بطور یادگار رکھتا اور آخری سانسوں تک اسے دیکھ دیکھ سوچتا کہ
ہائے کیا دور تھا جو بیت گیا
اب جو سوچوں تو آنکھ بھر آوے
واپسی کا راستہ مجھے اپنا کالج یاد آتا رہا۔ اچانک سے ماضی کا ایک کردار نظروں کے سامنے آیا۔ گھمن بظاہر اپنے مرحوم والد کی مانند ایک لینڈ لارڈ بن چکا ہے مگر اندر سے وہ آج بھی والد سے مختلف ہے۔ شاید اپنی محرومیوں کا ازالہ کر رہا ہو۔ جو بھی ہے، میں نے جانا تو یہ جانا کہ انسان نہیں بدلتے، حالات بدلتے ہیں۔ دنوں کے پھیرے میں انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ افتخار عارف کیا خوب کہہ گئے۔
کوئی تدبیر کرو وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے

