Establishment Ki Mudakhlat
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت
سن دو ہزار نو میں میں نے فیسبک اکاؤنٹ بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زرداری صاحب اقتدار میں آ چکے تھے۔ پنجاب میں خادم اعلیٰ کی حکومت تھی۔ میرا نظریہ آغاز سے ہی ایک رہا ہے۔ تب بھی میں لکھتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ناجائز ہے۔ ان کو اپنے دائرے میں رہنا چاہئیے۔ اس وقت زرداری صاحب اور میاں برادران"اُن" پر تنقید نہیں کیا کرتے تھے صرف سابق صدر مشرف کا نام لیتے اور اسے ہی اپنا ہدف بناتے۔ جنرل کیانی کی ساری سیاسی جماعتیں گُن گایا کرتی تھیں۔
جنرل کیانی نے ہی وہ خفیہ سمجھوتہ کروایا تھا جس کے تحت مشرف کی رخصتی کے بعد پانچ سال زرداری صاحب کی باری ہو گی اور میاں صاحبان ہلکی پھلکی ڈھولکی بجائے رکھنے کے سوا کوئی بڑا ہنگامہ برپا نہیں کریں گے اور اگلے پانچ سال میاں صاحب کی باری اور زرداری صاحب کی خاموشی۔ پھر وقت بدلا، میمو گیٹ آیا۔ زرداری صاحب نے چیخنا شروع کیا " تم تین سال کے لیے آتے ہو ہم ہمیشہ رہیں گے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے"۔
اصل جیالے جو کہ بھٹو کے مداح ہیں وہ تو عسکری قوت کے ویسے ہی مخالف رہے ہیں جو ماڈرن جیالے تھے وہ بھی وردی پر تبرہ کرنے لگے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ پانامہ لیکس کا تیر آسمان سے غائبانہ طاقت سے آن لگا۔ "مجھے کیوں نکالا" اور " خلائی مخلوق" اور " جنرل راحیل شریف و باجوہ کو حساب دینا ہو گا" کی صدائیں اٹھیں۔ خدا کا کرنا دیکھئیے کہ نون لیگ والے بھی "اُن" کی سیاست میں مداخلت پر بولنے لگے اور مریم نواز نے تو سینٹرل پنجاب میں نام لے لے کر مردہ باد کے نعرے لگوا دئیے۔
دو روائیتی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے بیچ فوج کا تشخص تیزی سے بگڑتا گیا۔ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو عمران خان صاحب نے فوج کا جائز ناجائز دفاع کرنے کا ذمہ اٹھا لیا۔ انصافی بھائی جرنیلوں کے گُن گانے لگے۔ "ایک پیج" کا پرچار کیا گیا اور مخالفین کے ہر سیاسی حربے کی ناکامی پر فوج کا شکریہ بابانگ دہل ادا کیا جاتا رہا۔ اس وقت اگر آپ سیاست میں عسکری ادارے کی مداخلت پر بات کرتے کہ یہ غلط ہے تو انصافی بھائی آپ کے چیتھڑے اڑانے پہنچ جاتے۔ "فوج پر بھونکتا ہے"، "بھارت کی شہریت لے لو" وغیرہ وغیرہ جیسے گھسے پٹے جملے اور گالم گلوچ کی نوبت تک اتر آتے۔
آج سے چھ ماہ پیچھے تک سب "سیٹ" تھا۔ خان صاحب اسمبلی میں فنانس بلز پاس کروا رہے تھے۔ اپوزیشن کے اراکین "غائب" ہو رہے تھے۔ اور انصافی بھائی "غائبانہ" مدد کو معجزہ قر ار دے کر وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔ اور پھر ڈی جی آئی کی تقرری کا معاملہ آ گیا!خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ آج جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو اس وقت کیا نونی، کیا جیالا، کیا فضلی اور کیا انصافی۔
سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ عسکری ادارہ کیا کرتا ہے اور کب تک کرتا رہے گا۔ اور ان کو انہی کے قائدین نے گلا پھاڑ پھاڑ کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس ملک میں ایک دن یہ ہونا تھا۔ طاقت کے اصل مرکز پر بات چھڑنا ہی تھی۔ جو رویہ غلط ہو وہ کسی جانب سے بھی ہو وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سیاسی کارکنان اور نوجوانان اب یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ "استاد! اب بس، ایسے نہیں چلے گا"۔
رہ گئی بات کہ کون کتنا نظریاتی ہے تو اس کا ذکر چھوڑئیے۔ کل تک ووٹ کو عزت دو تھی آج موقع نظر آیا ہے تو "بیانئیے " کا "ب" جگہ بدل کر "بوٹ کو عزت دو" میں ڈھل چکا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی پھُرتیوں نے تحریک انصاف کو پھر سے زندہ کر دیا ہے جبکہ بارہ ماہ بعد مدت پوری کر کے الیکشنز ہونے ہی تھے۔ نجانے کاہے کی جلدی تھی۔ خان صاحب نے اب ڈھولکی بجانا شروع کی ہے۔ ابھی انہوں نے جو پیغام جہاں دینا تھا وہاں پہنچا دیا ہے۔ ٹائم بمب سیٹ کر دیا ہے جو ٹک ٹک ٹک کر رہا ہے۔
آنے والا ہر دن " نظریاتی سرحدوں کے محافظوں " واسطے مشکلات بڑھائے گا۔ ایک بات آپ کو وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ وہ یہ کہ خان صاحب اگر کسی کام کو سرانجام دینے پر تُل جائیں تو وہ ہر قیمت پر وہ کر کے رہتے ہیں۔ ابھی انہوں نے ہلکے سُر چھیڑے ہیں۔ اگر حکومت گئی تو ایسی راگنی گائیں گے کہ دما دم مست قلندر ہو گا اور شطرنج کا کھیل کھیلنے کے شوقین اپنے اس لمحے کو کوسیں گے جب انہوں نے حکومت ختم کرنے کا کھیل کھیلنے کا سوچا تھا۔
دیکھئیے دوستو۔ جب انسان کو شعور ملتا ہے تو اسے ایک لکیر کھینچنا ہوتی ہے۔ وہ لکیر ہوتی ہے اچھے اور برے کی۔ میں نے یہ لکیر برسوں قبل کھینچ دی تھی۔ ایک محکم سوچ ہے میری کہ عسکری ادارے کی سیاست میں مداخلت کرنا سراسر غلط ہے۔ ان کو حکومتیں بنانے اور گرانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے سیاسی قائد کو دیوتا سمجھ کر اس کے پجاری بن جاتے ہیں۔
اگر وہ کہے کہ "بوٹ کو عزت دو" تو ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک کہتا ہے۔ اگر وہی کہے کہ "سیاست میں مداخلت بند کرو" تو ہم فوری کہتے ہیں " بند کرو بند کرو"۔ جس دن ہم نے اچھے اور برے میں لکیر کھینچ لی۔ یہ طے کر لیا کہ جو عمل غلط ہے وہ غلط ہے۔ چاہے وہ اپنا سیاسی قائد کرے۔ اسے بھی کہنا ہے کہ تم یہاں غلط ہو۔ اس دن سے معاملات بہتری کی جانب جانے لگیں گے۔ لوگو، بھیڑ بکری نہ بنو۔ اپنے شعور کو زندہ رکھو۔ جو جہاں غلط ہے وہ غلط ہے۔
رہ گئی بات ہمارے "جوانوں " کی تو کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ اس سے مراد فوج بیحثیت ادارہ ہے۔ تنقید اوپر والے کرتے دھرتے جرنیلوں پر ان کی سیاست میں ناک گھسانے کے سبب کی جاتی ہے۔ فوج ایک ڈسپلن کا نام ہے۔ کرتے اوپر والے ہیں باقی تو آرڈر کو فالو کرنا ہی اس ادارہ کا پروفیشن ہے۔ اس واسطے لفظ "اسٹیبلشمنٹ" استعمال کیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی بات یاد آ رہی ہے۔ وہ ٹھیک کہتی تھی کہ یہ ڈفر ہیں۔ یہ اپنے ذاتی عارضی مفاد کی خاطر لانگ ٹرم کا نہیں سوچتے۔ یہ عارضی طور پر تو اپنے بوٹ "پالشیئوں " کی خدمت لے کر چمکا لیتے ہیں مگر لانگ ٹرم کے لئے اپنے سر پر خاک ڈلوا لیتے ہیں۔ آج کی حالت دیکھ لیجئیے۔ آج بلا امتیازِ سیاسی وابستگی ہر سیاسی جماعت کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ جو کراتے ہیں "وہی" کرواتے ہیں۔ جون بھیا بھی کیا شاعر تھے۔ جو وہ فرما گئے وہ اکثر حسبِ حالت یاد آتا ہے۔ اپنے "آہنی ہاتھوں " کے نام ان کا مطلع عرض ہے
گاہے گاہے اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا؟
اور پھر اس غزل کا آگے چل کر شعر ملاحظہ ہو، یوں گمان ہوتا ہے یہ آہنی ہاتھوں کی جانب سے ہی بیان کیا گیا ہو
اب میں سارے جہاں میں ہوں بدنام
اب بھی تم مجھ کو جانتی ہو کیا