Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Punjabi Chauvinism Aur Saraiki Qaumi Sawal

Punjabi Chauvinism Aur Saraiki Qaumi Sawal

پنجابی شاونزم اور سرائیکی قومی سوال

این جی اوز کا کاروبار کیسے سامراج کی خدمت کرتا اور سماج میں اٹھنے والی مزاحمتی تحریکوں کو فنڈڈ پروجیکٹ میں بدل دیتا ہے اور اس تحریک سے جڑی قیادت کیسے دیکھتے ہی دیکھتے مزاحمت اور انقلاب کا راستا چھوڑ کر فنڈڈ پروجیکٹ کے تنخواہ دار ملازمین کی شکل اختیار کرلیتی ہے؟

اور یہ مقامی سماجی مزاحمتی تحریکوں کو باہم ملنے اور مل کر بڑے پیمانے پہ مظلوم، محکوم، مجبور گروہوں کو مل کر جبر سے نجات کی جدوجہد کی تحریک بننے سے روکتی ہیں؟

اس سارے عمل کی جان پہچان کے لیے نظریاتی کام جمیس پٹراس کی کتاب "این جی اوز ان دا سروس آف امپریلزم" ہے۔

اس کتاب میں جمیس پیٹراس مغربی فنڈڈ این جی اوز کو سامراج کی خدمت گزار قرار دیتا ہے۔

مشرف کے زمانے میں پنجاب میں مزارعین کی تحریک ہو، کچی آبادیوں کے متاثرین کی تحریک ہو، جبری مشقت کا شکار بھٹہ مزدوروں کی تحریک ہو، قالین بافی کی صعنت اور سپورٹس انڈسٹری سیالکوٹ میں چائلڈ لیبر سے نجات کی تحریک ہو، فیصل آباد سے اٹھنے والی پاور لومز کے محنت کشوں کی تحریک ہو، مذھبی جبر کا شکار ہونے والوں کے حقوق کی تحریک ہو، ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے نیسلے، پیپسی اور کوکا کولا کے کچے مزدوروں کی پکے ہونے کی جدوجہد پہ مبنی مقامی تحریک ہو یہ سب کی سب این جی اوز کی مداخلت سے فنڈڈ پروجیکٹ میں بدل گئیں اور باہم متحد ہوکر محنت کشوں کی قومی تحریک بننے سے رہ گئیں۔ یہی صورت حال ہمیں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں اٹھنے والی مقامی تحریکوں کے عملی طور پر پروجیکٹس میں بدل جانے کی شکل میں نظر آئی۔

پنجابی زبان و ثقافت کے گرد اٹھنے والی تحریک پر بھی سامراجی اور ریاستی فنڈنگ کے ایسے ہی اثرات مرتب ہوئے۔

بندوبست پنجاب اور بندوبست وفاقی ریاستی ادارے پہلے اردو کو نوآبادیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے اور پنجابی کو سکھوں کی زبان قرار دیتے رہے کیونکہ برٹش پنجاب میں پنجابی زبان پنجابی قوم پرستی کو سامراج مخالف رخ دے رہی تھی اور پنجابی قوم میں نوآبادیاتی قبضے کے خلاف ترقی پسند مزاحمت جڑ پکڑ رہی تھی۔

انگریز سامراج نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اردو کو رواج دیا اور پنجابی کسانوں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت اور بغاوت کا راستہ روکنے کے لیے اس نے ان کسانوں کے ماجھے اور دو آبے میں آباد گاوں کے گاوں اپنی سامراجی کینالائزیشن اور کالونائزییشن پر مبنی سوشل انجنئیرنگ کے تحت مغربی برٹش پنجاب کی باروں اور سرائیکی خطے کی قابل کاشت بنائی گئی اراضی کو آباد کرنے کے لیے بنائے گئے نئے چکوک میں لاکر آباد کردیا۔

اس سارے عمل نے مقامی آبادی کو کیسے مغلوب کیا اور انھیں کیسے اقلیت میں بدلا اس کا ایک احوال ڈاکٹر عمران علی کی کاتب میں تفصیل سے ملتا ہے جو اس موضوع پر ریفرنس بک ہے اور کسی حد تک پنجابی-سرائیکی قومیتی تضاد اور سرائیکی قومی سوال کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔

سرائیکی قومی سوال کے تاریخی تناظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں ستلج ویلی پراجیکٹ، پاکستان بننے کے بعد ون یونٹ اسکیم، پہلے پنجابی۔ اردو اسپیکنگ مہاجر اشرافیہ اور نوکر شاہی اتحاد، ایوب دور کے صنعتی ترقی کی منصوبہ بندی، گرین انقلاب کے تحت پنجاب میں الاٹمنٹ، لیز اور زمینوں کی بندر بانٹ، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پھر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور اب کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سرائیکی خطے کی زمینوں پر قبضہ گیری کی مہم۔ کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس نے پنجابی-سرائیکی قومیتی تضاد اور سرائیکی قومی سوال کو جنم دیا۔

سرائیکی خطے کو نوآبادیاتی دور میں سب سے پہلے جبری اور منصوبہ بند ڈیمو گرافی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑا۔

انگریز کی پنجاب میں کالونائزیشن جن علاقوں میں عمل پذیر ہوئی جو نئے ٹاونز اور میونسپلٹی ایریاز بنائے ان میں بھی پنجابی ہندو اور سکھ اور کم تعداد میں مسلمان درمیانے درجے کے کاروباری اور پروفیشنل تنخواہ دار لاکر بسائے گئے۔

پنجاب میں کینالائزیشن اور کالونائزیشن کا بنیادی مقصد تو برطانیہ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو خام مال کی فراہمی، برٹش ہند فوج اور سویلین نوکر شاہی کو اناج، سبزیاں، پھلوں کی فراہمی تھا لیکن ساتھ ساتھ مخصوص طرز کی آبادکاری کا مقصد ماجھے اور دو آبے میں گنجان آباد کسان آبادی میں بدحالی اور جبر کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں اور مزاحمت کو کمزور کرنا تھا۔ اس کا ثانوی اثر خود پنجاب کی باروں میں مقامی جانگلی قبائل اور آبادی کے اقلیت میں بدل جانے اور ان کی مزید پسماندگی اور بد حالی کی صورت میں نکلا۔ جبکہ سرائیکی خطے میں بھی یہ مقامی آبادی کی محرومی اور اپنے وسائل سے ہمیشہ کے لیے بے دخلی اور اس کی جو مخصوص لسانی۔ ثقافتی شناخت سرائیکی ارتقاء پذیر تھی اس کے خلاف بھی یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد پنجابی قوم کا طبقہ اشراف اور پیٹی بورژوازی کی اکثریت کا رویہ بندوبست پنجاب میں "زبان" کے سوال کو لیکر دو بڑے رجحانات میں بدلا۔

ایک تو وہ تھا جو اردو اور دو قومی نظریہ سے جڑا ہوا تھا۔ پنجابی جاگیردار، نواب، درمیانے درجے کا کاروباری طبقہ اور بڑی تعداد میں مسلم پنجابی تنخواہ دار طبقہ، مذھبی دایاں بازو اس میں شامل تھا۔

دوسرا وہ تھا جو ترقی پسند اور پنجابی قوم پرستی کے ملے جلے جذبات سے مملو تھا لیکن ان ترقی پسندوں اور پنجابی قوم پرستوں کے درمیان کے درمیان ایک بات پر اتفاق تھا کہ یہ برٹش دور کے نوآبادیاتی پنجاب کے جغرافیے کو عقیدے کی حد پوجتے تھے اور بندوبست پنجاب کے اندر کثیر اللسانی۔ ثقافتی منطقوں کو سرے سے نہیں مانتے تھے۔

انھوں نے ایک طرف تو سرائیکی خطے میں پنپنے اور ارتقاء پاکر بننے والی سرائیکی زبان اور اس پہ استوار ثقافتی وحدت کو ماننے سے انکار کردیا اور پنجابی زبان کو بندوبست پنجاب میں ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ کیا۔

پنجابی زبان کے معیاری لہجے کے نام پر ماجھے اور دوآبے اور نوآبادیاتی دور میں لاہوری لہجے کو معیاری لہجہ اور اسے پنجابی معیاری تحریر میں بھی اپنایا گیا جبکہ عمومی طور پر جو پنجاب کی باروں میں بولے جانے والے لہجے اور بولیاں تھیں وہ ایک طرح سے پسماندہ ہی رکھی گئیں۔ یہاں کے باسیوں کو بھی غیر مہذب اور دور وحشت کی باقیات قرار دیا گیا۔

سرائیکی خطہ کے ترقی پذیر شہر پسماندگی کی طرف گئے اور ترقی کے نوآبادیاتی یا آج کے نیو آبادیاتی پیمانوں پر پنجاب کی سب سے ترقی یافتہ ریاست اور ون یونٹ کے وقت جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ڈویژن تھا وہ بہاولپور تھا وہ رفتہ رفتہ سب سے پسماندہ ڈویژن بن گیا۔ کیا یہ زوال اور پستی کسی منصوبہ بندی کے بغیر تھی اور ہے؟ ہرگز نہیں یہ باقاعدہ منصوبہ بند اور زبردستی مسلط کردہ تھی اور ہے۔

پنجابی پیٹی بورژوازی شہری دانشور طبقہ سرائیکی خطے کی پسماندگی اور سماجی۔ معاشی بدحالی بارے بالکل اس طرح کا نسل پرستانہ متعصب رویہ رکھتا ہے جیسا ہندوستان سمیت دیگر نوآبادیات کے بارے میں برطانوی پیٹی بورژوازی دانشوروں کا تھا۔ اسے سرائیکی کسان سست، کاہل، محنت سے جی چرانے والا، سرائیکی محنت کش طبقہ تعلیم اور ٹیکنالوجی سے دور رہنے والا اور اس خطے کی پسماندگی اور غربت کا سارا الزام سرائیکی زوال پذیر زمیندار اشرافیہ کو دیتا ہے۔ نسل پرستانہ حقارت پنجابی پیٹی بورژوازی کی شہری مڈل کلاس کے رویوں اور رجحانات سے صاف عیاں ہوتی ہے۔

پنجابی ترقی پسندوں کی اکثریت جو پاکستان میں قومیتی تضاد اور قومی سوال کو مارکسی فلسفہ کی روشنی میں تسلیم کرنے کے دعوے دار ہیں انھوں نے پنجابی-سرائیکی قومیتی تضاد سے ابھرنے والے سرائیکی قومی سوال کو تسلیم کرنے اور سرائیکیوں کو ایک قوم ماننے سے انکار کیا۔

انھوں نے لینن کے قومی جبر اور قومی تضاد اور قومی سوال پر رہنماء اصولی تحریروں کی روشنی میں سرائیکی خطے سے روا رکھے سلوک اور ان کے خلاف ریاستی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کا تجزیہ کرنے اور مادی تاریخی حالات کی روشنی میں سرائیکی قومی سوال کے ابھرنے کا جائزہ لینے سے انحراف کرکے پنجابی شاونزم کو پروان چڑھایا۔ بجائے اس کے کہ سرائیکی خطے پر ریاستی قومی جبر کے خلاف واضح لائن لیتے انھوں نے الٹا سرائیکی قومی شناخت کے خلاف محاذ بنایا۔

وہ جیسے بنگالی، سندھی، بلوچ، پشتون کو مظلوم و مجبور اقوام مانتے ہیں ویسے وہ سرائیکی قوم کو نہ تو قوم مانتے ہیں نہ ان کی سرائیکی کو زبان مانتے ہیں اور نہ ہی پنجابی-سرائیکی قومیتی تضاد کو تسلیم کرتے ہیں۔

وہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ بندوبست پنجاب میں سرائیکی خطہ نوآبادیاتی ڈیزائن، حملہ آوری، قبضہ گیری اور قومی جبر کا شکار خطہ ہے۔

وہ پنجابی ثقافت میں حکمران طبقے کی ثقافت اور پنجابی محنت کش طبقے کی ثقافت کو الگ نہیں کرتے بلکہ پنجابی قوم کے حکمران طبقے کی پنجابی ثقافت کو زبردستی سرائیکی خطے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

پنجابی زبان و ادب کے فروغ کی سرکاری اور غیر سرکاری این جی اوز ہوں یا خود پنجاب کی نوکر شاہی ہو وہ سرائیکی خطے سے اس کی شناخت اور پہچان چھینے کے درپے ہیں۔

وہ سرائیکی کے قومی شاعروں کو پنجابیانہ چاہتے ہیں۔ بلھے شاہ، شاہ حسین، سلطان باہو اور وارث شاہ کو وہ پنجابی قومی شاعر بنا چکے لیکن خواجہ فرید کو وہ پنجابی قومی شاعر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

وہ سرائیکی زبان اور سرائیکی ثقافت پر اصرار کو پنجابی دشمنی بناکر پیش کرتے ہیں۔

اگر پنجابی علاقوں میں سرائیکی ثقافتی دن منایا جا رہا ہوتا، زبانوں کے عالمی دن پر لاہور میں سرکاری سطح پر پنجابی-سرائیکی ڈے منایا جا رہا ہوتا اور بیساکھ کے دنوں میں پنجابی-سرائیکی میلے کے عنوان سے ثقافتی شو پنجابی علاقوں میں منائے جا رہے ہوتے تو سرائیکی خطے میں پنجابی میلہ کرنے اور پنجابی ناٹک پیش کرنے کا جواز ہوتا۔

سرائیکی قوم اپنے خطے کی وحدت کو وفاق پاکستان میں ایک اکائی کی صورت تسلیم کیے جانے کی لڑائی لڑ رہی ہے اسے پنجابی نسل پرستوں کی جانب سے مسلسل قومی جبر کا سامنا ہے جب تک سرائیکیوں پر قومی جبر ختم نہیں ہوتا اور انھیں الگ وفاقی اکائی کا درجہ نہیں ملتا سرائیکی۔ پنجابی سانجھ کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔

پنجابی محنت کش طبقات کی سرائیکی محنت کش طبقات کے ساتھ جڑت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پنجابی محنت کش طبقات اپنی قوم کے حکمران طبقے کے قومی جبر، وسائل کی لوٹ کھسوٹ، قبضہ گیری، سرائیکی زبان دشمنی کے خلاف غیر مصالحانہ جنگ نہیں کرتا۔

پنجابی پیٹی بورژوازی دانشوروں کی اکثریت اس وقت پنجابی حکمران طبقے کی لے پالک اور ان کی طرف سے روا رکھے گئے قومی جبر کو پنجابی شاونزم کے راستے فروغ دے رہی ہے۔

Check Also

1035 Din Baad

By Najam Wali Khan