Call Center, Thailand, Mayanmar, Laos Aur Cambodia
کال سینٹر، تھائی لینڈ، میانمار، لاؤس اور کمبوڈیا
پچھلے دنوں ایک پاکستانی شہری کو لاہور ائیر پورٹ سے تھائی لینڈ میں نوکری کا جھانسا دے کر میانمار پہنچا دیا گیا۔ اس لڑکے کے بقول یہاں لاہور میں ان کا پورا نیٹ ورک موجود ہے اور چند منٹ پہلے ہمیں بتادیا گیا تھا کہ کس کاونٹر پر جانا ہے۔ لڑکے کے مطابق اسے باآسانی لاہور ائیر پورٹ سے بھیجنے کے بعد بنکاک ائیر پورٹ پر امیگریشن کی لمبی قطار سے نکال کر فوری طور پر ائیر پورٹ سے باہر ایک گاڑی میں دھکیل دیا گیا حالانکہ اس کی ایجنٹ سے ڈیل ہوئی تھی کہ وہ تھائی لینڈ میں ملازمت کرے گا۔ اس شہری نے ٹرانسلیٹر کو آن کرکے ویڈیو بھی بنائی اور ان کی باتیں بھی سمجھتا رہا۔
چار گھنٹے سفر کے بعد ایک جگہ پر گاڑی رکی تو ڈرائیور اور ائیرپورٹ والا بندہ ایک سپر سٹور پر رکے تو کچھ دیر بعد اس نے گاڑی سے اتر کر فرار ہونا چاہا لیکن وہ لوگ اس پر نظر رکھے ہوئے تھے اور اس کے سر پر وار کرکے اسے بے ہوش کردیا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تو گاڑی چلے جارہی تھی تقریباً سات گھنٹے کے بعد وہ تھائی لینڈ کے سرحدی علاقے مے سوٹ (Mae Sot) پہنچے۔ ادھر سے اسے چیک پوسٹ سے گزار کر دریائے موئی (River Moei) کو عبور کرواکر میانمار (برما) کے علاقے میاڈے (Myawday) میں موجود ایک سکام سینٹر میں پہنچا دیا۔ جہاں اسے دھوکا (Scam) دینے کی تربیت دی جانے لگی۔
اس کے ساتھ چھ پاکستانی، دس بھارتی اور بےشمار چینی، ملائیشین اور فلپینی باشندے تھے۔ اسے لڑکی کی آئی ڈی بناکر دی گئی اور مختلف لوگوں کو پھنسانے کی تربیت دی جانے لگی۔ اس میں اے آئی کے ذریعے مختلف زبانوں کا ترجمہ ہوتا رہتا تھا اور ان کے اس ایسے سوفٹ وئیرز بھی تھے جنکی مدد سے آواز بھی تبدیل ہوجاتی تھی بلکہ ویڈیو کال کی صورت میں فلٹر سے لڑکے کا چہرہ بھی لڑکی کا چہرے سے تبدیل کردیاجاتا ہے۔ ان کا ہدف گلف، امریکہ اور امیر ممالک کے لوگ ہوتے تھے۔
کام نہ کرنے کی صورت میں انہیں کرنٹ لگایا جاتا تھا۔ ایک ملائیشین باشندے کو فرار کی کوشش کرتے ہوئے اتنا مارا گیا کہ اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس لڑکے کے والد نے لوگوں سے مانگ تانگ کر پینتیس لاکھ جرمانہ اور خرچہ کرکے اپنے بیٹے کو واپس بلایا لیکن ابھی بھی بہت سے لڑکوں کے والدین اپنے لڑکوں کے لیے کوششیں کررہے ہیں جن سے پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار امریکی ڈالر تک کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس لڑکے بعد اور بھی پاکستانی لڑکوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں جو آپ یوٹیوب پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن غیر ملکی سطح پر اس کا پتا اس وقت چلا جب تین جنوری دوہزار پچیس کو ایک غیرمعروف چینی اداکار کو اداکاری کا لالچ دےکر تھائی لینڈ سے اغوا کے بعد میانمار پہنچا دیا گیا۔ اس نے وہاں پہنچتے ہی اپنا موبائل چھینے جانے سے قبل ادھر کی لوکیشن اپنے موبائل کے ذریعے اپنی گرل فرینڈ سے شئیر کردی۔ اس کی گرل فرینڈ نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی تو سات جنوری دو ہزار پچیس کو تھائی پولیس کے پاس اسے بازیاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
تھائی پولیس نے بدنامی سے بچنے کے لیے اسے بیان دلوایا کہ وہ تھائی لینڈ سے بہت خوش ہے اور دوبارہ بھی ادھر آنا چاہے گا لیکن اس واقعے کے بعد چین سے آنے والے بہت سے ٹریول ایجنٹ نے تھائی لینڈ جانے کے دورے منسوخ کرنے شروع کردیے۔
تفصیل کے مطابق ینگون (Yangon) شمالی میانمار میں ایک قصبہ تھا جہاں جوے، جسم فروشی اور آن لائن سکامز (Scams) کا کاربار عروج پر تھا۔ ادھر چین کے چار بڑے بدقماش لوگوں اور کچھ ملائیشین باشندوں کے سینکڑوں (Scam Centers) سکام سینٹرز میں لاکھوں کی تعداد میں چینی، ملائیشین، فلپینی، بھارتی، پاکستانی شہری نظربند تھے جو نوکری کے لالچ میں ادھر فروخت کردیے گئے تھے۔ اُدھر چین کی فوج نے حملہ کیا تو وہ لوگ ادھر سے فرار ہوکر تھائی لینڈ کی سرحد کے ساتھ میاڈے (Myawaddy) کے علاقے میں آگئے۔
ادھر انہوں نے میانمار کی باغی فوج کے ساتھ مل کر سینکڑوں کی تعداد میں سکام سینٹرز بنا لیے ہیں جہاں لاکھوں لوگ نظربند ہیں اور دھوکہ دہی کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں ڈیڑھ دو لاکھ پاکستانی روپے تنخواہ دی جاتی ہے اور بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کروایا جاتاہے۔ اس علاقے میں میانمار کی حکومت کی بالکل بھی عملداری نہیں ہے اور چین بھی ادھر حملہ نہیں کرسکتا ہے کہ یہ علاقہ اس کی پہنچ سے دور ہے۔ ادھر کرپٹو کرنسی اور لڑکی بن کر بینک اکاونٹس کی معلومات لینے والے دھوکے کیے جاتے ہیں اور اگر یہ لوگ کسی کو نہیں پھنسا پاتے ہیں تو انہیں مختلف طریقوں سے ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں۔ ان سزاؤں میں مار پیٹ اور کرنٹ لگانا عام ہیں۔
ایسے سینٹرز لاؤس اور کمبوڈیا میں بھی تھے لیکن ادھر کچھ سختی ہونے کی بنا پر وہ لوگ بھی میانمار کے سکام ہب میں آگئے ہیں جہاں باغی فوج کی نگرانی میں وہ اپنا کام آزادی سے کرسکتے ہیں لیکن ابھی بھی ادھر یہ کام ہورہا ہے۔
بھارت کے بھی کچھ شہریوں کی ویڈیوز منظرعام پر آئیں تھیں جس میں وہ مدد کی اپیل کر رہے تھے لیکن ابھی تک ان کے لیے بھی کچھ نہیں ہوسکا ہے۔ لوگ پانچ سے بیس لاکھ دے کر ادھر پھنسے ہوئے ہیں اور واپس آنے کے لیے بھی اتنے ہی پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
میرے پاس یہ تمام معلومات اس لیے آئیں کہ میرا ایک عزیز بھی ان لوگوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ میں بے شمار لوگوں کے قصے سن چکا ہوں اور سب کی ایک ہی کہانی ہے۔ اس لیے خدارا اپنے اوپر رحم کریں اور لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنی جان عذاب میں مت ڈالیں۔ تھائی لینڈ میں آپ کو سوائے جسم فروشی کے کچھ نہیں ملنے والا اور جو بھی آپ کو تھائی لینڈ اور کمپیوٹر پر کام کرنے کے سبز باغ دکھائے گا وہ سراسر دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کو آگے فروخت کردیا جائے گا اور آپ کا واپس آنا معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
مزے کی بات ہے کہ سوائے چند لڑکوں کے کوئی نہیں بتاتا کہ اسے ایجنٹوں نے ملازمت کا جھانسا دیا تھا۔ سب بس کہتے ہیں کہ ہم سیر کے لیے گئے تھے تو ہمیں اغوا کرلیا گیا۔ کمال ہے کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنے ماں، باپ، بیوی بچوں کو چھوڑتے ہوئے انہیں احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ وہ غلط کام کرنے جارہے ہیں۔
تمام لوگ ہوش کے ناخن لیں بالخصوص شادی شدہ افراد کی بیگمات پیسے کی لالچ چھوڑ کر اپنے خاوند کو غیرقانونی طریقے سے باہر بھیجنے کی مخالفت کریں کیونکہ شوہر کے بغیر ان کی زندگی کچھ نہیں ہوگی۔ باقی باہر جانے والوں سے بھی عرض ہے کہ اپنے والدین کو یا خود قرضوں کے بوجھ تلے دب کر مرنے سے بہتر ہے اپنے وطن میں کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے کام کریں۔ ہاں اگر قانونی طریقے سے کوئی کمپنی خود بلاتی ہے تو چھان بین کریں اور معاہدہ کرکے ہی باہر جائیں۔ اس کے علاوہ کہیں بھی جانے سے پہلے مشورہ ضرور کریں یا پھر نیٹ کو ہی کھنگال ماریں۔
میرا فرض تھا آپ کو بتانا اور یہ آپ پر ہے کہ آپ اس پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ ایجنٹس سے بچ کر رہیں کیونکہ اس ہی میں آپ کی عافیت ہے۔