Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. 1984

1984

1984

بڑا بھائی دیکھ رہا ہے!

جنگ امن ہے!

آزادی غلامی ہے!

جہالت طاقت ہے!

وزارتِ صداقت!

وزارتِ صلح!

وزارتِ الفت!

وزارتِ افراط!

ٹیلی اسکرین!

خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس!

درج بالا نکات ہی یہ بتانے کو کافی ہیں کہ یہ ناول کس طرز کا ہے۔

یہ ناول "بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ" کے شکنجوں کے اوپر لکھا گیا ہے۔ ہر ملک میں جو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے ان تمام کے ڈانڈے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ان تمام کا کام کرنے کا طریقہ کار ایک سا ہوتا ہے بس علاقے، قوم اور وقت کے لحاظ سے ان کی جزیئات میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

"بڑا بھائی" ہر ملک میں موجود ہوتا ہے جس کاقبضہ ملک کے تمام وسائل پر ہوتا ہے اور جن کے نزدیک جنگ ہی امن کا دوسرا نام ہوتی ہے۔ عوام کو جاہل رکھنے میں ہی ان کی طاقت کا راز پوشیدہ ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ جن اداروں سے کام لیتے ہیں وہ بھی کمال کے ہیں۔

وزارت صداقت

جس کی ذمہ داری ہر سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا ہوتی ہے۔

وزارت صلح

جس کے ذمہ تمام امور جنگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر دوسرے ممالک سے جنگ کرتے ہیں ان میں بھی ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے اور خانہ جنگی تو ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔

وزارت الفت

اس کےذمہ ملک کا قانون ہوتا ہے جو کہ بڑوں کی راکھیل کا کام کرتا ہے اور چھوٹوں پر عزرایئل بن کر ٹوٹتا ہے۔

وزارت افراط

اس کے ذمہ اقتصادی امور کی دیکھ بھال ہوتی ہے جس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ملکی وسائل پر کہیں عوام کا قبضہ نہ ہو جائے۔

ٹیلی اسکرین

مصنف کی چشم بینی کو داد دینے کا دل کرتا ہے کہ جب اس نے یہ ناول لکھا تھا تب مواصلات کے ذرائع اتنے تیز نہ تھے، وہ تو جب ماضی قریب میں اعلان ہوا "کمپنی ملک میں وٹس ایپ چیٹس سنا کرے گی" تو پتہ چلا کہ مصنف نے 70 سال پہلے کس اہم مسئلہ کی نشاندہی کی تھی۔

خیالات کا جائزہ لینے والی پولیس

نام سے ہی اس محکمے کا کام ظاہر ہے۔ کسی بھی استعماری قوت کی سب سے بڑی طاقت ذہنوں پر حکومت ہے۔ مصنف نے یہ محکمہ اتنا ظالم دکھایا ہے جس میں ملک کی عوام پوری طرح سے جکڑی ہوئی ہے اور کوئی بھی ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا، جو کچھ بولے گا یا صرف سوچے گا ہی اسے فی الفور غائب کر دیا جائے گا اور جس کی زندگی موت کی مالک صرف اور صرف وہ قوت ہوگی۔

یہ ایک بہت بڑا ناول ہے گو کہ اس میں فلسفہ کی بہتات ہے جو کہ کہانی کو تھوڑا بور کر دیتی ہے مگر موجودہ حالات سے مماثلت کی وجہ سے وہ فلسفہ بھی دل پر اثر کرتا ہے۔ میں ہر پڑھنے والے کو اس ناول کا مشورہ ضرور دوں گا۔

Check Also

Kahani Praetorian Guard Ki

By Toqeer Bhumla