Pakistani Muashray Mein Sex Education Kyun Zaroori Hai?
پاکستانی معاشرے میں سیکس ایجوکیشن کیوں ضروری ہے؟

وہ نیچے پڑا سِسک رہا تھا۔ میں نے موٹی سی گالی بکی اور کہا: دوچار اسٹروک لگانے کے بعد تم فارغ ہو گئے ہو، کہاں گئی تمہاری مردانگی؟ وہ ہانپتا ہوا زمین پر لیٹ گیا۔ میں نے اُس کا عضوِ تناسل ہاتھ میں پکڑ کر زور سےکھینچا۔ وہ درد سے چیخ اُٹھا۔ کہنے لگا: بس کرو، یار، مارو، گی کیا۔ ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں اور تم رونے لگ گئے ہو۔ میں نے ابھی آرگیزم حاصل نہیں کیا۔ چلو، اِسے اُٹھاؤ، مجھے نہیں پتہ، اسے اُٹھاؤ۔
بے بسی کے عالم میں زمین پر لیٹے اُس نے موبائل سے پورن کلپ نکالا اور دیکھنے لگا۔ میں نےکہا: یہ کیا کررہے ہو؟ کہنے لگا: ٹوٹا دیکھنے سے عضو تناسل میں تناؤ پیدا ہوگا، اس کے بعد ہی کچھ ہو سکے گا۔ میں نےکہا: پورن کب سے دیکھ رہے ہو؟ بچپن سے۔ واقعی۔ جی ہاں۔ اُو، اچھا، اسی وجہ سے تمہارا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔
نہیں، ایسی بات نہیں ہے، پورن کا میٹنگ سے کیا تعلق ہے؟ بے وقوف! میٹنگ کا پورن ہی تو تعلق ہے۔ مجھے اگر پتہ ہوتا کہ تمہیں پورن دیکھنے کی لت پڑی ہے تو میں کسی اور سے اپنی ضرورت پوری کر لیتی۔ پورن کے ساتھ تم ماسٹر بیشن (مشت زنی) بھی کرتے ہو گے۔ نہیں، ہاں، بٹ، کر لیتا ہوں، کبھی کبھار۔ چلو، ہٹو۔ تم سے کچھ نہیں ہونے والا، بیکار وقت ضائع کیا۔
یہ ایک کہانی ہے جو فرضی ہو سکتی ہے اور اصلی بھی۔ اس طرح کی دسیوں کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی۔ بیسیویوں کہانیوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کردار میں آپ بھی رول پلے کر چکے ہوں گے۔
پاکستان میں پورن کی لت میں مبتلا نوجوان لڑکے لڑکیوں میں 95 فیصد ماسٹر بیشن یعنی مُشت زنی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ عمل جز وقتی جنسی تسکین کے لیے شروع کیا تھا جو ناقابلِ علاج مرض کی طرح ان کے جسم و ذہن میں سرائیت کر چکا ہے جس سے جان چھڑانا قربیاً، ناممکن ہوچکا ہے۔
سائنس نے اس تصور کو ثابت کیا ہے کہ ذہن ایک اندھے کنویں کی طرح ہے جس میں کچھ بھی ڈالتے جائیں اسےکچھ فرق نہیں پڑتا۔ دماغ کو اس بات سےکوئی سروکار نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ یہ صرف سنگل کو فالو کرتا ہے اور جسم کے جملہ نظام کو ایک منطقی ترتیب سے مینج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپ پورن دیکھ رہے ہیں، ماسٹر بیشن کر رہے ہیں، میٹنگ (مباشرت) کے عمل سے گزر رہے ہیں یا کسی مر مریں جسم کے حصول کا تصور لیے یاسیت کے عالم میں سسک رہے ہیں۔ انسانی جسم کے خلیوں کو بس آرڈر فالو کرنا ہے جو نقصان دہ ہوسکتا ہے اور فائدہ مند بھی۔
اسے یوں سمجھیے، آپ نے ایک پورن کلپ دیکھا، اس کے بعد بھول بھال گئے۔ دو، چار دن کے بعد پھر کلپ دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ آپ نے خواہش کو جھٹک دیا اور بات ختم ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ آپ نے اپنے دماغ کے کسی حصے میں پنپنے والے "Dopamine" کے "serotonin" کو موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ پورن کلپ دیکھنے کے لیے آپ کو اُکسائے۔
اگر آپ نے ایک بار ماسٹر بیشن کی، اس کے بعد مصروفیت میں بات آئی گئی ہوگئی تو سمجھ لیجیے کہ آپ اندھی کھائی میں گرتے گرتے بچ گئے ہیں۔
اس کے برعکس اگر آپ نے مباشرت کے عمل سے خود کو ایک بار گزار لیا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ دوبارہ اس لذت کے لیے نہ تڑپیں۔ مباشرت کا عمل دو متضاد جنس کے حامل افراد کی باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے جسم سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کا واحد پُرسکون اور ناقابلِ فراموش کیفیات کا عملِ لطیف ہے جسے بار بار دُہرانے کی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے خواہ، اس کے لیے آپ کو کیلوں سے دیوار میں چُن دیا جائے یا اندھے کنویں میں اوندھا لٹکا دیا جائے، آپ باز نہیں رہ سکتے۔
مباشرت کے عمل کو ایک طرف رکھتے ہوئےآج پورن وڈیوز، ماسٹر بیشن اور خود لذتی کے عمل سے نجات کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آیا انسان پورن وڈیوز دیکھتا ہی کیوں ہے؟ اس کی بظاہر کئی وجوہات ہیں تاہم میرے نزدیک اہم وجوہات میں سے ایک وجہ نفسیاتی عوارض کا متنوع نظام ہے جس کے پس منظر میں کئی خانگی، معاشرتی اور سماجی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب پورا، یورپ پورن دیکھتا تھا۔ 1896 میں پہلی پورن مووی (le courcher de la mariee) منظرِ عام پر آئی تھی جو ایک فرنچ erotic short film تھی جس کا دورانیہ 3 منٹ چھیالیس سیکنڈ تھا۔ اس فلم میں محترمہ نے جسم پر اُوڑھےکپڑوں کے تھان ایک ایک کرکے اُتارے تھے لیکن دکھایا کچھ بھی نہیں تھ۔ اس گونگی فلم میں محترمہ کی ننگی پنڈلیاں دیکھ کر لوگوں نے اسے سینکڑوں مرتبہ دیکھا تھا۔
1899 میں (kiss in the tunnel) کے بعد1901 میں (body stocking) آئی۔ 1920 میں خاموش فلمیں بننا شروع ہوئیں جنھیں stag films/ blue films کہا جانے لگا۔ ان فلموں میں پرائیوٹ پارٹس کے علاوہ عورت کا پورا جسم برہنہ دکھا یا گیا جسے دیکھ کر عوام پاگل ہوگئی۔
1950 میں home movies کا کلچر پروان چڑھا۔ 1960 میں یورپ اور یونائیٹڈ سٹیٹ میں اس کا رجحان ٹرینڈ بن گیا۔ 1961کے وسط میں lasse braun نے پورن مووی بنانےکی کوشش جس کا کچھ حصہ hardcore کی نمائشی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ کے ایک فلم ڈرایکٹر Dores Wishman نے pornographic کی سیریز آٹھ پارٹس پر مشتمل بنائی جہاں سے یہ لفظporn بطور term استعمال ہونے لگا۔
انھیں دنوں سیکس وڈیو کے لیے xxx کی اصطلاح بھی وجود میں آئی۔ hideout in the sun، nude on the moon، dairy of a nudist فلموں کے نمائشی بینرز نے لوگوں میں جنسی اشتعال اس قدر بڑھا دیا کہ ہر جگہ پورن کا چرچا ہونے لگا۔ 1965 کے بعد پورن فلموں کی نمائش کے خلاف حقِ نسواں کی تحریکیوں نے زور پکڑا۔ دوسری طرف پورن فلموں کی مانگ نے ڈرائریکٹرز کو مجبور کیا کہ وہ سرکاری سرپرستی میں ان موویز کی سینسرشپ کو قانونی طور پر جائز ڈیکلیر کروا کے اسے باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دیں۔
1969-70 کے دورمیں child pornography اورbestiality یعنی جانوروں کے ساتھ سیکس کا رجحان بھی زور پکڑنے لگا جس کے خلاف انسانی حقوق کی تحریکوں نے جلسے جلوس کیے تاہم اس کا کچھ نہ بنا۔ 1970 میں سرکار بہادر یعنی یونائٹڈ سٹیٹ نے اس قماش کی فلمیں بنانےکی اجازت دے دی۔ 1980 تک ان فلموں کے خلاف کہیں کہیں مزاحمت جاری رہی لیکن رفتہ رفتہ بادل چھٹ گئے اور ببانگ دُہل یہ فلمیں بنائی گئیں حتی کہ تھیٹر میں اس کی براہ براست ناظرین کے سامنے نمائش تک کی جانے لگی۔
1980 کے بعد یورپی ممالک میں نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے یہ کام نہایت آسان ہوگیا۔ 1990 تک باقاعدہ "پورنوگرافی" نے تھیڑیکل انڈسٹری کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ جس طرح آج پاکستانی پورن دیکھ رہے ہیں اسی طرح 1990 کی دہائی میں یورپی ممالک میں پورن مووی دیکھی جاتی تھیں۔ 2000 کے بعد دُنیا کے رجحانات میں بدلاؤ آیا اور اسے غیر قانونی قرار دیئے جانے کے خلاف مزاحمت ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی۔
مزاحمت کی شدت اور عوامی بغاوت کے دباؤ کے تحت سینکڑوں فلم ساز کمپنیوں کے لائسنز معطل کیے گئے۔ پورن ایکزڑ کو گرفتار کیا گیا اور ہزاروں پورن وڈیوز کو جلایا گیا لیکن یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔ یورپی ممالک میں پورن انڈسٹری موجود ہونےکے باوجود، گو پہلے کی طرح فعال نہیں ہے لیکن اس کا زیادہ تر رجحان انٹرنیٹ کی آمد سے مشرقی ممالک میں پھیل گیا ہے جسے روکنا ممکن ہو چکا ہے۔
پورن انڈسٹری کو باقاعدہ فعال کرنے میں انھیں یورپی ممالک کا ہاتھ ہے جنھوں نے اپنی نسلوں کو تباہ کرنے کے بعد اس کا دھارا مشرقی ممالک کی طرف موڑ رکھا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسے نہایت احتیاط کے ساتھ محفوظ ماحول میں وی سی آر، وی سی پی وغیرہ کے ذریعے دیکھا جاتا تھا۔ موبائل کی آمد نے اس محفوظ ماحول کے بیانیے کو پاش پاش کر ڈالا۔
پاکستان میں 2003 کے بعد انٹرنیٹ کی MB سپیڈ کی دستیابی سے پورن وڈیو کو بلیک کیسٹ سے "امیجزنگ وڈیوز" میں منتقل کیا جانے لگا۔ پورن وڈیوز کی MP4 وڈیوز"کمپریسڈ سائز" میں بنا کر mp 4 video کی شکل میں موبائل میں انسرٹ کرکے دیکھے جانے سے اس عمل میں اتنی شدت آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورن انڈسٹری راتوں رات شہرت کے آسمان پر جا پہنچی۔
پاکستان میں پورن کی مانگ 2003 کے بعد اُس وقت بڑھی جب نوکیا موبائل کے ساتھ سیمسنگ وغیرہ نے اپنے ماڈل لانچ کیے۔ ان موبائل کا مسئلہ یہ تھا کہ اسٹوریج سپیس کم ہونے کی وجہ سے پورن کلپ میموری کارڈ میں رکھ کر دیکھے جاسکتے تھے۔ یہاں سے "ٹوٹے" یعنی porn clip کی اصطلاح نے جنم لیا جو ہنوز ہمارے ہاں مستعمل ہے۔
"ٹوٹے" سے مراد پورن وڈیوز کے وہ اہم ترین حصے یعنی "فکنگ کی اسٹروکنگ پوزیشن" مراد ہے جو پانچ سیکنڈ سے پندرہ سیکنڈ تک ہوتا ہے۔ ان کلپس کو دیکھنے کے بعد انسانی جسم میں ایسے تغیرات رونما ہوتے ہیں جیسے کسی مضبوط دیوار کو بنیاد سے پکڑ کر پوری طرح ہلایا جائے جس سے دیوار کے وجود میں شدید کپکپاہٹ سے رعشہ طاری ہو جائے۔
پورن کلپس کے ان ٹوٹوں نے عوام الناس کو مجبور کیا کہ وہ برانڈنڈ کمپنیز کے موبائل کو خریدیں اور ان ٹوٹوں سے لطف اندوز ہوں۔ 2005-06 میں چائنہ موبائل نے نوکیا، سیمسنگ، مٹرولا، وغیرہ کی واٹ لگا دی۔
ان ماڈل کے مقابلے میں بلند آواز اور بڑی سکرین والے ماڈل پاکستان میں خصوصی طور پر لانچ کیے گئے جس میں پانچ منٹ سے لے کر تیس منٹ تک کی پورن وڈیوز آسانی سے محفوظ کی جاسکتی تھیں۔ اب وی سی آر پر ڈرتے ڈرتے پورن دیکھنے اور پکڑے جانے پر کیسٹس کو چھپانےکی اذیت سے نجات مل گئی تھی۔ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ رضائی میں چھپا بندہ کیا دیکھ رہا ہے اور ہاتھ کہاں سرکتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے ہمسائے میں ایک صاحب رہتے تھے جو اکلوتے بیٹے ہونےکی وجہ سے اوائلِ جوانی میں خراب ہو گئے تھے۔ ان کی مربع زمین تھی جو نہایت زرخیز ہونے کی وجہ سے علاقہ بھر میں مشہور تھی۔ زمین کی شہرت کم اور ان صاحب کے رنگین مشاغل کی شہرت زیادہ تھی۔ یہ صاحب ہر سال ایک ایکڑ فروخت کرکے پیسے کھانے پینے اور جسم فروش عورتوں سے جنسی خواہش کی تسکین کے حصول میں بے دریغ خرچ کر ڈالتے تھے۔
میں نے ان کی شہرت سُن رکھی تھی۔ انھوں نے 2001 میں جاز کی 0300 والی سم لی اور نوکیا کا موبائل خریدا۔ پورے گاؤں میں پہلا موبائل ان صاحب کے پاس تھا۔ موبائل کو ایک نظر دیکھنے کی حسرت گاؤں بھر کے نوجوانوں کو رہتی تھی۔ جیسے جیسے موبائل کے نئے ماڈلز آتے گئے، یہ صاحب خریدتے چلے گئے۔
2004 میں انھوں نے ایک چائنہ کمپنی کا موبائل خریدا جس میں میموری کارڈ بھی ڈلتا تھا۔ ایک دن، ان کے ساتھ شہر جانا ہوا۔ یہ صاحب کئی دکانوں میں گئے۔ جانے کیا پوچھتے تھے اور کیا لینا چاہتے تھے۔ پچاس دکانوں میں دخول و خروج کے بعد ایک دُکان کے تہ خانے میں چلے گئے، وہاں کمپیوٹر پر بیٹھے ایک شخص نے انھیں اشارے سے کچھ بتلایا اور وہ موبائل ان کے حوالے کرکے میرے ساتھ بنچ پر بیٹھ گئے۔
ایک گھنٹہ ہم خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے بعد دکاندار نے موبائل دے دیا۔ انھوں نے موبائل آن کرکے کچھ دیکھا جس سے ان کے چہرے پر بشاشت کھل اُٹھی۔ کہنے لگے: چلو، کام ہوگیا ہے۔ ہم گاؤں آگئے، میں نے راستے میں پوچھا۔ آپ اتنی دیر دکان میں بیٹھے رہے، موبائل میں کیا بھروایا ہے، کوئی نئی فلم رکھوائی ہے یا نئے انڈین گانے۔
کہنے لگے: تم ابھی بچے ہو، چھوڑو، میں نے کہا، بتاؤ، تو سہی۔ گاؤں آکر انھوں نے گھر کے عقب میں تعمیر پرانی چوپال کا درازہ کھولا۔ مجھ سے کہا، یہاں بیٹھو، میں چائے بنانے کا انتظام کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد چائے کا سامان لا کر چوپال کی دائیں دیوار کے ساتھ بنے مٹی کے چوہلے پر رکھا۔ آگ جلائی اور کیتلی چولہے پر رکھ دی۔ موبائل جیب سے نکالا۔ دو منٹ بعد ایک مووی چلا دی۔ آواز بند رکھی اور موبائل میرے ہاتھ میں دے دیا۔
پورن مووی کی پہلی جھلک دیکھ کر میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ خوبصورت انگریز عورت کا تھرکتا ہوا ننگا جسم دیکھ کر میر اعضو تناسل اکڑ کر کھمبا بن گیا۔ میں گھبرایا، جلدی سے عضو تناسل کو شلوار کے نالے کی گرفت میں دے کر زور سے نالے کو ٹایٹ کر دیا تاکہ یہ بت میز کہیں نیچے ڈھلک کر سیدھا کھڑا نہ ہوجائے۔
ایک، دو مرتبہ وی سی آر، پر پورن وڈیو دیکھ چکا تھا لیکن اس وقت کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا چیز ہے اور مجھےکیوں دکھائی جارہی ہے۔ اب کے بار بقائمی ہوش و حواس موبائل ہاتھ میں لے کر اتنے قریب سے برہنہ جسموں کو دیکھ کر حیرت و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ دو، تین منٹ بعد اُن صاحب نے موبائل میرے ہاتھ سے چھین لیا اور کہا، گھر جاؤ اور کسی کو بتانا نہیں۔
ایسی کمال کی چیز بھلا چھپائے جاسکتی ہے۔ اگلے دن محلے بھر کے دوستوں سمیت اُن صاحب کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ ہمیں دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرایا، مجھے دیکھ کر گالی بکی اور کہا، دفعہ ہو جاؤ۔ رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ پورا گاؤں یہ سب جانتا ہے جس کے بارے میں ہم چھپ چھپ کر ایک دوسرے کو بتاتے تھے۔
اس واقعہ کے بعد جس دوست، یار سے پوچھا کہ تم نے اس طرح کی وڈیو دیکھی ہے۔ سبھی نےکمال شوق سے بتلا یا کہ ہاں جی دیکھی ہے۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں نے دیر سے کیوں دیکھی، یہ لوگ تو مجھ پر سبقت لے چکے ہیں۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ ہر وقت اس صاحب کے گھر کے چکر کاٹتے رہتے کہ کب یہ بندہ اکیلے میں ملے اور ہم آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔
دیکھتے دیکھتے سال بھر میں گاؤں کے نوجوانوں کے پاس موبائل فون موجود تھے، کسی نے چوری کرکے لیا، کسی نے بکرے چھترے بیچ کر خریدا، کسی نے حویلی سے گندم چوری کروا کے خریدا اور کسی نے ماؤں بہنوں کے دوپٹوں سے پیسے چُرا کر خرید لیا۔ ہم ٹھہرے ایک مفلس و قناعت پسند شخص کے چشم و چراغ، اس لیے کئی سال اس نعمت سے محرو م رہنا پڑا۔
موبائل فون بُری چیز نہیں ہے، اس کا استعمال بھی بُرا نہیں ہے لیکن جس انداز میں اس نئی ٹیکنالوجی کا تعارف ہمیں کروایا گیا وہ نہایت مضر اور ضررساں ثابت ہوا۔ موبائل فون پر کال کرنے اور دوست احباب سے رابطے میں رہنے کا رجحان و احساس تو بہت دیر بعد طبیعت میں پیدا ہوا۔
2008-09 میں چائنہ نے موبائل ماڈلز کو سستے داموں مارکیٹ میں متعارف کروایا، تب بڑی کمپنیز کے موبائل فون کی قیمت گری اور لوگوں نے مال مفت دل بے رحم جان کر موبائل فون خریدے۔ ان دونوں Q موبائل کا مڈل کلاس دیہاتی نوجوانوں میں طوطی بولتا تھا۔ اس موبائل کی خاصیت تھی کہ اس کے سپیکر کی آواز بہت زیادہ تھی، اس میں "میموری کارڈ " الگ سے ڈلتا تھا جس میں فلمیں، گانے، نعتیں، ڈرامے وغیرہ رکھنےکی زیادہ گنجائش نسبتاً زیادہ موجود تھی۔
یاد رہے کم پڑھے لکھے اور نیم خواندہ طبقے میں موبائل فون کا پہلے پہل استعمال روابط کی آسانی کے لیے ہرگز نہیں کیا گیا تھا۔ انٹر ٹینگ کی غرض سے محض دکھاوے اور "شو آف" کرنے کے لیے موبائل خریدا جاتا تھا۔ 2005-2006-2007 کے دور میں موبائل فون ہاتھ میں پکڑ کر تصاویر بنوانے کا ٹرینڈ بہت عام تھا۔
رفتہ رفتہ انٹرنیٹ کی رفتار میں تیزی آئی۔ 3G کی آمد نے انقلاب برپا کردیا۔ انٹرنیٹ پر براہ راست بغیر کسی رکاوٹ کے پورن سائٹس سے پورن وڈیوز دیکھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ دوستوں میں جس چیز کا مقابلہ ہوا کرتا تھا وہ یہی کہ کس ویب سائٹ سے ٹوٹے مل سکتے ہیں اور کس ویب سائٹ سے نئی پورن وڈیو، ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ موبائل ٹیکنالوجی کی دریافت و آمد صرف پورن انڈسٹری کی یلغار کو مستحکم کرنے کے لیے لائی گئی تھی۔
ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر ہے، تاہم نوجوان نسل نے اس ٹیکنالوجی کو زیادہ تر جنسی تلذذ کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا۔ ایک موبائل خریدنے کے بعد دوسرا لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی رہی، اس کی وجہ کچھ بھی، مقصد انٹریننگ تھا۔
جن بازاروں میں پہلےکتابوں کے اسٹال تھے، وہاں کمپیوٹر کی مارکیٹیں بن گئیں، پھر ایک وقت آیا جہاں کمپیوٹر فروخت ہوتے تھے وہاں موبائل فون کی مارکیٹیں بن گئیں اور اب وہ دور ہے کہ ہر جگہ موبائل فونز کی خرید و فروخت ہونے لگی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق 85 فیصد نوجوان محض ایک نئے فیچر کی وجہ سے موبائل کا ماڈل تبدیل کر لیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ کہ ایک پینٹ خرید کر دو، چار ہفتے پہنی جاسکتی ہے لیکن موبائل خرید کر دو ہفتے نہیں رکھا جاسکتا۔ 2012 سے 2020 کے درمیان دُنیا بھر میں پورن سائٹس کی سرچنگ کو سب سے زیادہ واچ کیا گیا۔ سب سے زیادہ واچ کرنے والے ممالک میں مشرقی ممالک سرفہرست رہے۔ 2010 تک یہ رجحان مغربی ممالک میں زیادہ تھا۔ 2015 میں 4G کی آمد سے پورن سائٹس کی سرچنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
2013 کے اواخر تک "وٹس ایپ" پاکستان میں تیزی سے وائرل ہو رہا تھا۔ 2015 اور 2016 میں وٹس ایپ کے استعمال سے زندگی میں جہاں آسانیاں آئیں وہاں اس ایپ کی وجہ سے ٹوٹوں کی شئیرنگ میں بھی اضافہ ہوا۔ اب سرچنگ کی ضرورت نہ رہی، وٹس ایپ گروپ میں روزانہ نئے ٹوٹے شئیر کیے جاتے تھے اور کمال شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ ہنوز جازی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا دور تھا۔ میں نے 2004 میں میٹرک کے بعد کمپیوٹر کا شارٹ کورس کیا تھا، اس کے بعد گاؤں بھر میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو کمپیوٹر سکھاتا۔ گاؤں میں ایک کمپیوٹر کی آمد سے اگلے سال پچاس کمپیوٹر میرے پڑھائے ہوئے شاگروں کے گھر آگئے۔
ان کمپیوٹرز کی ونڈو 98 میں خود گھر گھر جاکر کیا کرتا تھا۔ XP ونڈو آنے کی وجہ سے 98 ونڈو سے جان چھوٹ گئی کیوں کہ XP میں آڈیو، وڈیو کارڈ کے ڈرائیور انسٹال نہیں کرنا پڑتے تھے۔ اس تجربے سے میں کئی بار گزرا کہ کسی شاگرد کی ونڈو، اُڑ گئی اور وہ میرے دروازے پر دستک دے دے کر جینا حرام کر رہا ہے۔
ونڈو انسٹال کرتے ہوئے بڑی لجالجت سے بلکتے ہوئے مجھےکہتا ہے سر، جی، ڈی ڈرائیو کو نہیں چھیڑنا اور پارٹیشن بھی نہیں کرنی ایسے ہی کچھ جگاڑ لگا کر اسے ٹھیک کر دو۔ میں ایکسٹرنل ہارڈ، ڈسک لگا کر ڈی ڈرائیو کا ڈیٹا نہایت چالاکی سے اپنی ہارڈ ڈسک پر کاپی کر لیتا اور اس کی ونڈو سی ڈرایئو میں کر دیتا۔
گھر آکر ڈی ڈرائیو کی فائلز کو جب کھول کر دیکھتا تو فولڈر کے فولڈر پورن وڈیوز اور انڈین مووی سے بھرے ہوتے۔ مزے کی بات یہ کہ فولڈر کا نام ایسا ہوتا جسے پڑھ کر یوں لگتا جیسے اس میں کوئی مقدس مواد موجود ہے۔ یہ تجربہ ایک مولوی صاحب کے کمپیوٹر کی ونڈو کرنے کے دوران ہوا، ایک دو مرتبہ تو سکول کے سیکنڈ ماسٹر کے کمپیوٹر میں بھی یہی کچھ دیکھنے کوملا۔
جب سے شعور سنبھالا ہے پورنو گرافی کے ماحول کو ارد گرد وائرل پایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کلاس فیلوز کی طرح میں خود بھی اس لت میں مبتلا رہا۔ اسی ماحول میں ایم اے پاس کر لیا۔ شہر لاہور آنے کے بعد ان عوارض سے جان چھوٹی۔ ملازمت کی تلاش اور مزید تعلیم کے حصول کی خواہش نے ایسا الجھایا کہ پلٹ کر اس دُنیا میں قدم نہیں رکھنےکا ہنوز موقع نہ ملا۔
اس مفصل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی مڈل کلاس معاشرت میں پورنو گرافی اور ماسٹر بیشن ایسی رچی بسی ہیں کہ انھیں کسی صورت اس معاشرت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ میں ذاتی طور پر اسی معاشرت کا حصہ ہوں۔ مذکور تجربات کا میں شاہد ضرور ہوں لیکن شعوری طور پر اس فعل میں مبتلا ہونے کی کوشش نہیں کی، جبراً یہ لت مجھ پر نافذ کی گئی۔
چوں کہ طبیعت میں شروع سے حساسیت تھی اسی لیے کچھ بھی دیکھتا تھا تو بہت گہرائی سے اس کی اثریت کو محسوس کیا کرتا تھا۔ برس ہا برس کے تجزئیے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی معاشرت اپنے تنزل کی آخری سیڑھی پر لڑھک رہی ہے۔ بہت جلد یہ معاشرہ اپنی موت آپ مرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے بعد ہر وہ قباحت جو پہلی دُنیا کے باسی ترک کر چکے ہیں وہ ہمارے ہاں ٹرینڈ بن کر وائرل ہو رہی ہے۔
پاکستان میں 95 فیصد نوجوان اور 65 فیصد ساٹھے پاٹھے اور سترے بہترے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پورن، ماسٹر بیشن، ڈیٹنگ، میٹنگ سے کس طرح لطف اندوز ہونا ہے اور خود کو چھپا کر شریف النفس انسان کی حیثیت سے معاشرے میں سروائیو بھی کرنا ہے۔ "انسٹا گرام، ٹِک ٹاک، فیس بک، چِٹ چیٹ، میٹ ٹو" وغیرہ میں معاشرتی تنزل کی کھدتی قبر آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے جس میں قو م کی قوم دفن ہوچکی۔
جنسی خواہش کی تسکین کوئی بُری چیز نہیں ہے، یہ انسانی جسم کا بنیادی حق ہے جو اسے ہر صورت ملنا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہےکہ سیکس ایجوکیشن کی باقاعدہ تعلیم کے بغیر ہمارے بچے بُری طرح اخلاقی، جسمانی، ذہنی، دماغی، قلبی، معاشرتی اور خانگی عوارض کا شکار ہو کر بے راہ روی کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ شادی سے پہلے ان کی جوانیاں واش روم کے گٹر میں بہہ رہی ہیں۔ انھیں کوئی سمجھانے کو تیار نہیں کہ پورنو گرافی، ماسٹر بیشن اور چیٹ سیکس وغیرہ کے کیا نقصانات ہیں۔
میں نے سینکڑوں باپ اور مائیں ایسی دیکھی ہیں جو خود اس لت میں مبتلا رہے اس کے باوجود آنکھیں بند کرکے اپنی اُولاد کو اس مرض سے بچانے کی فکر سے بے نیاز ہیں۔ اس المیے کی بنیادی وجہ ان باپ اور ماؤں کو، ا سیکس ایجوکیشن کا شعور نہ ہونا ہے۔
ایک باپ جو خود جوانی میں ان حرکات وسکنات میں مبتلا رہا، وہ اپنے بیٹے کو پاس بٹھا کر یہ بتا سکتا ہے کہ بیٹا! بات یہ ہے کہ آپ اپنے دوستوں میں اُٹھتے بیٹھے ہیں، آپ کو سیکس کے بارے میں بتایا جاتا ہے، آپ نے پورن وڈیوز بھی دیکھی ہوں گی، آپ نے ماسٹر بیشن کرنےکی کوشش بھی کی ہوگی یا کرو گے۔ میں چاہتا ہوں، بہ حیثیت باپ تمہیں یہ بتا دوں کہ یہ سب غیر ضروری اور انتہائی نقصان دہ ہے۔
عمر کے ایک خاص حصے میں اس خواہش کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ، وقت ہے جب تمہاری ساری توجہ پڑھائی اور زندگی کے مقصد پر صرف ہونی چاہیے۔ اگر تم ان حرکات و سکنات میں پڑ جاؤ گے تو اپنی صحت تو تباہ کرو گے، اپنا مستقبل بھی تباہ کر لو گے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم میری طرح اپنی جوانی کو مذموم حرکات میں ضائع کرکے مستقل پچھتاوے کا شکار رہو۔
جب میں جوان تھا تو مجھے کوئی سمجھانے والا نہ تھا۔ آج تم جوان ہو۔ اس لیے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں تاکہ تم میری طرح ایک کمزور انسان کی حیثیت سے زندگی کی اصل خوشیوں سے محروم نہ ہو جاؤ۔ جنس کی خواہش اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں رکھی ہے۔ یہ اس کی فطرت کا حصہ ہے جسے پورا کرنا ضرور ی ہے۔ ہمارے معاشرے اور دین میں اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ جب تم اس لائق ہو جاؤگے تو میں خود تمہارے لیے حلال اور جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تسکین کا سامان مہیا کردوں گا۔
باپ کی طرح یہی دوستانہ احساس ایک ماں شباب کی سیڑھیاں چڑھتی بیٹی کو باتوں باتوں میں کروادے تو کافی حد تک ہمارے بچے پورنائزڈ ہو کر ماسٹر بیٹر بننے سے بچ جائیں گے۔ حکومتی سطح پر سیکس ایجوکیشن کے بارے میں کہیں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ حکمرانوں کو اس بات کی فکر ہے کہ ہماری کُرسی بچی رہی۔ باقی سب بھاڑ میں جائیں۔
نفانفسی کے اس عالم میں بہ حیثیت ماں باپ اور معلم ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں تاکہ اپنے اندر کے گلٹ سے نکل سکیں اور مطمئن ہو کر اپنی اُولاد کو مذکور نفسانی عوارض سے بچا سکیں۔ میں جانتا ہوں۔ یہ ایک نہایت مشکل کام ہے۔ اُولاد کے سامنے یا طالب علموں کے سامنے اس با ت کا اعتراف کرنا کہ میں پورن دیکھتا رہا ہوں اور ماسٹر بیشن بھی کرتا رہا ہوں۔ یہ اعتراف بہت رسکی ہوسکتا ہے۔ رسک لیے بغیر کھائی میں گرتے ہوئے انسان کو بچایا نہیں جا سکتا۔ آپ ہمت کریں گے تو یہ رسک راز، بن کر آپ کی اُولاد اور شاگردوں تک محدود رہ رہ جائے گا لیکن کل کو اگر اُولاد نامرد، بے حس، بے مرورت اور دغا باز ہوگئی تو پھر سر پیٹنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ اور نہ کرسکیں گے۔
یاد رکھیے۔ شرما شرمی میں اگر آپ نے اپنی اُولاد کو "اوورلک" کیے رکھا اور نظر انداز کرنے کے رویے کو جائز سمجھا تو پھر اپنی اُولاد سے بڑھاپے میں سہارے کی اُمید مت کیجیے گا۔ یہ نسل وفاداری بشرط اسُتواری کی قائل نہیں ہے۔ یہ قربانی کے لفظ سے ناآشنا ہے۔ یہ ہمدردی سے بے نیاز ہے، یہ سہارے کی لطافت سے بیگانہ ہے۔ یہ اپنے آپ سے تنگ ہے۔ یہ اپنے آپ کو مارنے کاٹنے کی فکر میں رہتی ہے۔
ان کے اپنے اتنے مسائل ہیں جن کا کوئی حل نہیں۔ یہ دراصل ایک لائنحل ہجوم ہے۔ یہ اینڈرائڈ جنریشن اپنی سوچ و عادات کی فرسٹیشن سے اس قدر عاجز آچکی ہے کہ ماں، باپ، بڑا بھائی، بڑی بہن، اُستاد، ناصح اورہمدرد بن کر انھیں کوڑا مارنے والا اور سختی سے سمجھانے والا ذلیل وخوار ہو کر رہ جائے گا۔
وقت کی نزاکت اور معاشرتی تنزل کو نگاہ میں رکھتےہوئے کوشش کیجئے، اپنی شمع ضرور جلائیے، اپنے حصے کی ذمہ داری نباہنے میں کسی اور کی پہل کا انتظا رمت کیجیے۔ ہوسکتا ہے آپ کی پہل سے اوٹ سے کھڑے ہوؤں کو حوصلہ مل جائے۔