Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Isran
  4. Zalim Aur Mazloom

Zalim Aur Mazloom

ظالم اور مظلوم

یونانی سوفسطائی اور سقراط کسی بھی عنوان پر بحث کرنے سے پہلے اسکی تعریف طے کرتے۔ کئی دفعہ تو کسی ایک عنوان کی صرف تعریف طے کرنے میں بحث کرتے ہوئے کئی دن گزر جاتے۔ سقراط نے ان متفقہ تعریفوں کو"تعقلات" کا نام دیا تھا۔ ان تعقلات کو انگریزی میں (concept) بھی کہتے ہیں۔ جس طرح افلاطون نے "عدل" پر بحث کے کئی ابواب لکھنے سے پہلے عدل کی یہ تعریف کی تھی "ریاست کیلئے عدل یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے دیا جائے"۔

چاہے وہ فاصلے ہوں یا کوئی مادی چیز۔۔ برقی لہریں ہوں یا نظر نہ آنیوالی کوئی شے، انسان ہر چیز کی پیمائش کا ایک پیمانہ ضرور رکھتا ہے۔۔ باالکل اسی طرح بحث کا پیمانہ یہی "تعقلات" ہیں۔۔ ان تعقلات کے بغیر بحث محض جانوروں کی آپس کی لڑائی کی طرح ہے جس میں دونوں فریق آخر میں ایک دوسرے کو پنجے مارتے ہوئے غائب ہوجاتے ہیں۔۔

ظالم اور مظلوم کی لڑائی ہر دور میں رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ یہاں ظالم کبھی یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ ظلم کررہا ہے اور ہر شخص یہی کہتا ہے کہ وہ مظلوم ہے، اس لئے ظالم اور مظلوم کی تعریف طے کرنا ضروری ہے۔ تختہ مشق بنا ہر شخص جس کے بال کھینچے جارہے ہوں، کپڑے پھاڑے جارہے ہوں اور سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہو مظلوم نہیں ہوتا۔ وہ شخص مظلوم نہیں ہوتا جو طاقت اور اختیار کے نشے میں لوگوں پر ظلم کرتا رہے اور طاقت سے محروم ہوکر خود جبروستم کا نشانہ بن جائے۔ اس جبروستم کا نشانہ، جو وہ طاقت ہوتے ہوئے دوسروں پر کرتارہا ہے۔

دانتوں سے محروم بوڑھا شیر جو شکار کرنے کے قابل نہ رہا ہو اور جسے بکریاں اور ہرن تمانچے مارکر گزر جاتے ہوں وہ مظلوم نہیں ہوتا البتہ قابل رحم ضرور ہوتا ہے۔ تاریخ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ جب بھی کسی بادشاہ کا تختہ الٹا جاتا تو اسے اور اسکے حواریوں کو قتل کردیا جاتا یا انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں قیدخانوں میں ڈال دیا جاتا۔ دیکھا جائے تو ایسے بادشاہ اور انکے حواری بھی مظلوم نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنے دور حکومت میں خود ظلم و جبر کی علامت ہوتے ہیں۔

تیسری دنیا کے ممالک کے معاشی تناظر میں حکمران طبقہ ظلم وجبر کے بغیر اپنی حکمرانی برقرار نہیں رکھ سکتا اور ایسے ممالک میں اشرافیہ کی اقتدار کیلئے آپس کی لڑائی دراصل ظالموں کی آپس میں جنگ ہے جس میں اکثر ہی نادانی میں حقیقی مظلوم ہی پستے ہیں۔ آج تیسری دنیا کے ممالک کی وسیع آبادی کی غربت، بے بسی اور بھوک کی وجہ وہاں کے حکمران طبقات کا ظلم اور استحصال ہی ہے۔

ظالموں کی آپس کی لڑائی میں کوئی مظلوم نہیں ہوتا۔ مظلوم وہ ہوتا ہے جو بے اختیار ہو اور اپنے بنیادی انسانی حقوق روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار کیلئے ظالموں سے ٹکراجائے۔ استحصال کے خلاف اٹھنے والے ہی مظلوم ہوتے ہیں۔ ایرانی فوک کردار"کاوہ لوہار" جیسے ہی مظلوم ہوتے ہیں، جس نے اپنی دھونکنی کے چمڑے سے پرچم بنایا جو "درفش کاویانی" کے نام سے جانا جاتا ہے اور ظالم بادشاہ ضحاک کے خلاف یورش کی جس نے اس کے بیٹوں کو ناحق قتل کردیا تھا۔

آقا کے خلاف بغاوت کرنیوالے غلام، جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کرنیوالے کسان اور سرمایہ داروں کے خلاف بغاوت کرنیوالے مزدور ہی مظلوم ہوتے ہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan