Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (6)

Falasteen Israel Tanaza (6)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (6)

گزشتہ کالم میں صہیونی اسرائیلی جنونیت کا ذکر کیا گیا جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی نسل کُشی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس جنگ کے دوران امتِ مسلمہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ماسوائے ایران کے جو کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اکتوبر 2023 سے جاری خونی تصادم میں اسرائیل اپنے مزموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہر حد پار کر رہا ہے۔ اس خونی تصادم کی وجہ سے فلسطینی عوام اور خاص کر غزہ کی پٹی میں قیامت برپا ہے مگر امتِ مسلمہ نہ صرف خاموش بلکہ غافل ہے۔

کیا مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانے کی ذمہ دار صرف اہلِ فلسطین ہی ہیں یا امتِ مسلمہ پر بھی اس کی ذمہ داری ہے؟ افسوس کہ اسرائیلی مذہبی جنونیت پر امت شکوک و شہبات میں مبتلا ہے جسکی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور وہ روز بروز کمزور ہو رہی ہے۔ آج ہمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ فقط ایک مسلمان مضبوط امت کیسے بنتا ہے اوراسلام ہمیں کیا درس دیتا ہے۔

اسلامی قوائد و ضوابط اور تعلیمات کی روشنی میں تمام مسلمان بلاتفریقِ رنگ و نسل اور وطن کے آپس میں بھائی بھائی ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ کلمہ پڑھتا ہے تووہ رب کی واحدنیت اور رسولِ خدا کو خاتم النبین ﷺ مانتے ہی ایک پائیدار اور مستحکم امت سے منسلک ہو جاتا ہے جسے "امتِ مسلمہ"کہا جاتا ہے۔

عظیم و بلند مرتبت کتاب قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے کہ "مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں" (الحجرات)۔ اسی طرح مختلف احادیثِ رسول ﷺ ہیں جو مسلمانوں کو متحد ہونے کی ترغیب دیتی ہیں جیسا کہ فرمانِ رسول ﷺ ہے کہ "تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو" اور "ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کی اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے"۔

قرآنی احکامت اور احادیث سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کی باہمی محبت، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا امت میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرتا ہے اور مسلمان ایک قوت بن کے ابھرتے ہیں۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ مسلمان جب تک متحد تھے توانہوں نے ایک مضبوط، مہذب و منظم سلطنت قائم کی۔ امتِ مسلمہ جب متحد تھی تو اہلِ روم اور یہود و نصاریٰ ان کا نام سن کر لرز جاتے تھے۔ مگر آج کا مسلمان دنیا میں مگن ہو کر اسی کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے جس سے امتِ مسلمہ بے چینی اور افراتفری میں مبتلاء ہوگئی ہے۔

آج کا مسلمان اپنے مفادات کے حصول کے لیے دینِ اسلام سے روگردانی کرتا چلا جا رہا ہے اور اُس سے احساسِ انسانیت بھی چھنتی جا رہی ہے۔ امتِ مسلمہ کو متحد رکھنے کے لیے سب سے بڑی چیز احساس ہے جس کا درس ہمیں ہمارا دین دیتا ہے اور ہمارے پیارے نبی خاتم النبین ﷺ کی بھی یہی تعلمیات ہیں۔ ایک موقع پر آپ ﷺ مسلمان کو دوسرے مسلمان سے باہمی ربط اور احساس بارے بڑے پیارے انداز میں فرماتے ہیں کہ "سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں، جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہوتو سارے جسم میں درد ہوگا"۔

اسلام ایک عالمی دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا احساس کرنے اور متحد رہنے کا درس دیتا ہے کیونکہ یہ وہ واحد دین ہے جس میں سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک قبلہ ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں وہ جیسے ہی عقیدہ اسلام کو مانتے ہیں تو وہ ایک جسم اور ایک دیوار کی مانند ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو متحد و منظم رہنے کا درس دیا جیسے کہ قرآن کریم میں رب فرماتا ہے "رب کی رسی مضبوط تھام لوسب مل کراورآپس میں بٹ نہ جانا"۔ مگر آج ہم ان تمام قرآنی تعلیمات اور سننِ نبویہ ﷺ سے روگرانی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان غفلتوں، نافرمانیوں اور بدعقیدتیوں کی وجہ سے آج مسلمان ذلت و رسوائی کے دن دیکھ رہا ہے جس کی وجہ سے یہود و نصاریٰ اور صہیونی طاقتیں مسلمانوں کو بلا رنگ و نسل تہ تیغ کررہی ہیں۔ علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل و غارت کو یوں بیاں کرتے ہیں:

ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے اتحاد بین المسلمین پارہ پارہ ہو چکا ہے مگر ہم ابھی بھی غفلت کی نیند سورہے ہیں سوال یہ ہے کہ کب تک اور آخر کب تک ہم خوابِ غفلت میں رہیں گے؟ آج کے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کرے اور دشمن کی چالوں سے ہشیار رہے۔ عالمِ اسلام میں جتنے بھی مسائل ہیں ان کو بلاتفریقِ رنگ و نسل اوروطن مل کر حل کرکے ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔ مسلم ممالک اپنی زمین، سرمایہ اور قوت دوسرے مسلم ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ اگر آج مسلمان اپنی اسلامی شناخت، ثقافت اور تہذیب پر عمل پیرا ہوجائیں تو کوئی شک و شہبہ نہیں کہ پھر سے سنہری دور کا آغاز ہو۔ علامہ اقبالؒ اسی غفلت کی نیند سوئی ہوئی امت کو جگاتے ہوئے فرماتے ہیں:

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اگر ہم غفلت میں نہیں تو کیا پھر ہم کمزور اور بزدل ہو گئے ہیں؟ کیا ہماری تعداد کم ہوگئی ہے؟ نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کی آبادی تو 2 ارب کے لگ بھگ ہے اور ہمارے پاس اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کے ظلم برداشت کر رہے ہیں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو خون میں لت پت دیکھ کر خاموش ہیں؟ میرے مطابق آج ہم روحانی طور پر کمزور ہیں کیونکہ ہمارا رب تعالیٰ پر توکل اور مدد پر یقین محکم نہیں اور ہم قرآنی آیات کی اصل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ہم دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ کر زن، زر اور زمین کے چکروں میں گھوم رہے ہیں جس کا اغیار بہت چالاکی سے استعمال کرکے مسلمانوں کے عقیدے کو کمزور کر رہے ہیں۔ آج ہم فرقے فرقے ہو گئے ہیں بلکہ یہ لکھتے ہوئے دل غمگین ہو جاتا ہے کہ آج مسلمان مسلمان کا جانی دشمن بن گیا ہے، ہم وطن پرست بھی ہو چکے ہیں جو صرف اپنے وطن کی فکر میں ہیں۔ یہی اغیار کی محنت تھی کہ اس امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان پر حکومت کرو اور ان کو اپنے اشاروں پر چلاکر مقاصد پورے کرو۔ علامہ اقبالؒ اسی دکھ کو اپنے اشعار میں کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں:

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز

علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو اتحاد، اخوت، بھائی چارے اور پاسبانیِ اشعارِ اسلام کا درس دیتے آئے کہ اے مسلم جاگ جا اور اپنی تاریخ کو پڑھ، اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد کرکے میدانِ عمل میں اترکر وہی نظام لے کر آ جس سے ساری امت متحد تھی۔

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر سے استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

امتِ مسلمہ کے اجزا جن کی بنیاد پر یہ امت بنی ہے بہت ہی نایاب اور قیمتی ہیں، ہماری ثقافت، ہماری تعلیمات نیز ہر ہر پہلو نمایاں اور عظیم ہے۔ اسلام کو ہمیشہ سے نقصان اندر سے اپنوں کی غداریوں کی بناپر ہی پہنچا ہے۔ اغیار بڑے طریقے سے کمزور ایمان و عقیدے والے مسلمانوں کو شکار کرکے پھر انہیں دنیا مال و زر کے لالچ دے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے اور ان کو نقصان پہنچانے میں استعمال کرتے آئے ہیں۔

آج کے مسلمان نوجوان کا عقیدہ اور ایمان متزلزل ہے جسے یہودونصاری بڑی ہشیاری سے استعمال کررہے ہیں۔ دجال کے پیروکاروں نے امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو مختلف دنیاوی چیزوں میں اتنا جکڑ دیا ہے کہ اب یہ نوجوان نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا آلہِ کار بنا ہوا ہے۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کس طرح وہ ناموسِ اسلام اور خونِ مسلمان کو یہودو نصاریٰ کو بیچ رہا ہے۔ ایک موقع پر علامہ اقبالؒ نے اس اظہار ان الفاظ میں فرمایا:

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

اور دوسری جگہ مسلمانوں کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم سے تو اپنی میراث کی بھی حفاظت نہیں ہوئی اور اغیار بڑی آسانی سے تجھ سے چھین کر لے گئے اور مزید شعارِ اسلام کو بھی ایسے ہی لے جائیں گے۔

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز

اسلامی تعاون تنظیم اسرائیلی جارحیت کی صرف الفاظ میں مذمت کرکے سمجھ رہی ہے کہ ہم نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے حقیقت میں اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ سلام ہے فلسطینی عوام کو جن کے حوصلے بلند ہیں اور وہ ہر طرح کی اسرائیلی جارحیت کا جواب دے رہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب مسلمان جرات و حوصلے سے یہو دو ہنود کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں تو ان کی ربانی مدد کی جاتی ہے۔ اب وقت ہے امتِ مسلمہ کمر بستہ ہوکر آنے والے مشکل حالات کو مقابلہ کریں اور قبلہِ اول کے تحفظ کے لیے ایک ہو جائیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغرٓ

دورِ حاضر میں امت مسلمہ کا اتحاد نہ ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے اور کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آ رہا جو اس خلا کو پُر کرکے روحانی طور پر کمزور امت کو اکھٹا کرے اور ان کو خوابِ غفلت سے جگائے

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz