Dubai Gold Massage Center
دبئی گولڈن مساج سینٹر
امارات میں آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو تین کاروبار جگہ جگہ کھلے ملیں گے۔ سالون، چائے خانے اور مساج سینٹرز۔ میں یہاں ذکر کروں گا دبئی گولڈن مساج سینٹر کا جس میں داخل ہوتے ہی ریسپشن پر موجود فلپائن کی ایک شہری نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ جب استقبال کر چکی تو اس نے میرے سامنے ایک ٹیبلٹ رکھ دی جس پر انواع و اقسام کے مساجز بمعہ تفصیلات اور ان کے چارجز پڑھے جا سکتے تھے۔
چند دنوں سے میرے زیریں مہرے چُک پڑنے کے سبب دُکھ رہے تھے۔ میں نے ہاٹ سٹون مساج کا انتخاب کیا۔ اس مساج کی تفصیل میں بتایا گیا تھا کہ گول اور نرم پتھروں کو ایک خاص درجہ حرارت پر گرم کرکے دردوں والے مقامات پر خاص پریشر سے دبا کر رکھا جاتا ہے جس کے سبب درد رخصت ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی مساج کی قسم کا انتخاب ہوا تیسے ہی فلپائن کی شہری نے ٹیبلٹ کا پیج الٹ دیا اور کہنے لگی "کیا آپ سٹاف منتخب کریں گے؟"۔
اس پیج پر مرد و خواتین کی تصاویر ان کے ناموں کے ہمراہ تھیں۔ مرد و خواتین کی اکثریت تھائی، فلپینی اور ملیشین لگ رہی تھی البتہ وہیں مجھے روسی نژاد ایک دو خواتین بھی نظر آئیں۔ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ روس سے ہی تھیں یا سویت یونین سے آزادی پانے والی ریاستوں میں سے کسی کی شہری تھیں۔ البتہ اپنی ازلی شرم و حیاء اور عزت سادات آڑے آئی۔ یہ ہر اس مقام پر آڑے آنے لگتی ہے جس مقام سے لوگ Chill کرتے ہنستے کھیلتے گزر جاتے ہیں۔
لہذا بائے ڈیفالٹ میرے منہ سے ایک مرد کا نام نکلا اور میں نے اس کی تصویر پر اُنگلی رکھ دی۔ فلپائن کی شہری نے مجھ سے کنفرم کیا کہ یا واقعی مجھے یہ میل سٹاف والا مالشیا چاہئیے؟ میں نے پھر شرم و حیا کے مارے یس کہہ دیا۔ صاحبو، مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جس میں سرخ مدھم روشنی پھیلی تھی۔ جیسے پرانے زمانے میں فلم ڈویلپ کرنے والے سٹوڈیوز ہوا کرتے تھے۔ وہاں ایک سٹریچر ٹائپ بیڈ پر کچھا پہنے لیٹنے کا حکم دیا گیا۔ جب میں لیٹ چکا تو ایک مرد اندر آیا۔ اس نے مجھ سے دریافت کرنا چاہا کہ مجھے آخر کس خاص مقام پر درد ہوتا ہے؟ مقام جان کر وہ جذباتی ہوگیا اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ دہکتے ہوئے گول پتھر کمرے میں لائے گئے۔ مجھے لگا کہ یہ ظاہر ہے ناقابل برداشت حد تک تو گرم نہیں ہوں گے اس لیے فکر کی کوئی خاص بات نہیں مگر جیسے ہی اس نے پتھر میری ریڑھ کی ہڈی پر دبا کر رکھا میری بس ہوگئی۔
مجھے سمجھ آ گئی کہ ہاٹ سٹون مساج میرا نازک مزاج ہینڈل نہیں کر سکتا۔ میں اٹھ بیٹھا اور مساج کرانے سے انکاری ہوگیا۔ اس مرد نے مجھے اپنے تئیں بہت تسلی دینا چاہی کہ کچھ نہیں ہوتا میں پتھر تھوڑے ٹھنڈے کرکے استعمال کر لیتا ہوں مگر میرا ذہن انکاری ہو چکا تھا۔ میں نے اسے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ بھائی میں پاکستان سے دبئی اپنی پیٹھ پر گرم آلو ٹائپ وٹے رکھوانے نہیں آیا۔ اس صورتحال سے نپٹنے کو ریسپشن والی لڑکی اندر آ گئی اور مجھے ٹیبلٹ پر مینو دکھاتے بولی"تم کوئی اور مساج منتخب کر لو۔ دیکھو، اب آ گئے ہو تو کچھ تو کروا کے جاؤ"۔
بس اس کی صورت پر رحم کھاتے میں نے ایک سویڈش مساج پر انگلی رکھی جس کی تفصیل میں لکھا تھا کہ خاص قسم کے ہربز اور آئل سے مساج کیا جاتا ہے اور سٹاف والے صفحے پر آ کر میری انگلی روسی نژاد مخدومہ پر چلی گئی۔ وہ تو بعد میں دوران مساج اس نے بتایا کہ وہ دراصل اُزبک ہے۔ میں نے بھی اسے بتایا کہ ہمارے جد امجد تمہارے ملک کے شہر بخارا سے ہجرت کرکے برصغیر آئے تھے۔ یہ جان کر کہ میرے اجداد کا وطن بخارا ہے وہ بہت جذباتی ہوگئی۔ مساج انٹلکچوئل ڈائیلاگز میں بدل گیا۔
دبئی گولڈن مساج سینٹر سے نکلا تو کافی فریش فِیل کر رہا تھا۔ الحمدللہ یہ تحریر مساج کے چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد لکھ رہا ہوں مگر ابھی تک فریشنس میں کمی نہیں آئی۔ دبئی گولڈن مساج سینٹر کی کیا باتاں۔