Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Digital Watch

Digital Watch

ڈیجیٹل واچ

اہم معاملات زندگی میں زمانے کے ساتھ چلنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان نوکیا کی مانند پیچھے رہ جاتا ہے اور پھر واش آؤٹ ہو جاتا ہے۔ گیجٹس کی مانند انسان کو بھی اپنا سافٹ وئیر اپڈیٹ کرتے رہنا چاہئے۔ مگر کئی گیجٹس کو تو میں انسانیت کی فلاح کے بجائے اُلٹا ٹینشن سمجھتا ہوں۔ میرا دوست شیخ یاسر ٹپ ٹاپ رہتا ہے۔ کانوں میں بلیو ٹوتھ ہیڈ فونز، ہاتھ میں ایپل کی ڈیجیٹل گھڑی۔ میں کانوں میں آج تلک "ٹوٹی" نہ لگا پایا۔ ذرا اولڈ سکول سمجھ لیں۔ البتہ گھڑیاں میرے پاس چار پانچ ہیں اور سب ہی اچھے برآنڈز کی ہیں۔ مگر شیخ یاسر کو ایک دن دیکھ کر میں اپ سیٹ ہوگیا۔

ہم باتوں میں مگن تھے کہ اچانک یاسر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی سے ٹائم دیکھا۔ پھر اس گھڑی کی سکرین پر ایک کلک کیا۔ اور پھر اچانک ہی بول پڑا "کی آکھیا؟ پیمنٹ شارٹ اے؟ سلیم صاحب تُسی پہلاں پشلا حساب سِدھا کرو فیر تہانوں مال ملے گا۔ سوری میں مزید مال نئیں دے سکدا"۔ اور پھر سے گھڑی پر کلک کرکے بولا "پ چ، شاہ بزنس دے حالات اگے ای کوئی نئیں اُتوں لوکی ادھار مال منگدے۔ ایس بندے نے میرے گیارہ لکھ دینے نیں۔ مزید ادھار مال منگ ریا اے۔ لوکاں نوں شرم وی نئیں آؤندی"۔

یقین مانئیے میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ میں حیران بیٹھا تھا کہ یاسر صوفے سے ٹیک لگا کر چھت کی جانب منہ کرکے کس سے باتیں کرنے لگ گیا ہے؟ سچ مانئیے مجھے پل بھر کو لگا کہ شاید یاسر کے برین ہیمرج ٹائپ کچھ ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کوئی ایسی بیماری کا دورہ پڑا ہو، جس میں انسان کو غیر مرئی مخلوق نظر آنے لگتی ہے اور یہ اسے حقیقت جان کر اس مخلوق سے باتیں کرنے لگ گیا ہو۔ میں حیرت میں چپ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یاسر نے مجھے گھور کے دیکھا۔ پھر بولا "بخاری خیر تو ہے؟ طبیعت ٹھیک ہے ناں؟ مجھے چپ چاپ مسلسل کیوں گھور رہے ہو؟ تم سے کہا ہے کہ لوگ ادھار مال مانگتے ہیں تو کیا کچھ غلط کہہ دیا میں نے؟"۔

اس دن مجھے یاسر نے صورتحال جان کر بتایا کہ اس کی کلائی میں ایپل واچ ہے۔ کانوں میں ایپل کی ٹوٹی لگی ہے۔ جب موبائل پر کال آتی ہے تو واچ پر ڈسپلے ہوتا ہے اور واچ سے ہی کال اٹینڈ کی جا سکتی ہے۔ لہذا وہ کال پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ پھر اس نے میرے "آؤٹ ڈیٹڈ" ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس دن یاسر نے مجھے احساس ندامت میں مبتلا کر دیا۔ میں نے اپنی کلائی پر بندھی مہنگی گھڑی دیکھی تو مجھے یوں لگا جیسے انگریز کے زمانے کی باقیات میں سے ہو۔ میں نے واپسی پر فیصلہ کر لیا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ مجھے بھی فیشن کے مطابق ڈیجیٹل واچ لینا چاہئیے۔ آج یاسر نے شرمندہ کیا کل کو کوئی اور کرے گا کہ بخاری نے ڈیجیٹل واچ نہیں پہنی۔

لو بھائیو، کرنا خدا کا یوں ہوا کہ انتہائی مہربان دوست محسن رضا برطانیہ سے تشریف لائے اور اتفاق دیکھئے کہ مجھے دو عدد ڈیجیٹل واچز کا تحفہ دے کرکہنے لگے "ایک آپ کی اور ایک بھابھی کی"۔ میں نے وہ ڈیجیٹل گھڑی موبائل سے کنیکٹ کی اور پہن لی۔ بس وہیں اسی دن سے میری پریشانیوں کا آغاز ہوا۔

واچ دل کی دھڑکن بتاتی تھی۔ جب تک واچ نہیں پہنی تھی لائف نارمل تھی۔ جس دن پہنی رہ رہ کر ہارٹ بِیٹ پر نظر مارتا۔ شام کو یوں ہوا کہ ہارٹ بِیٹ ایک سو بیس ہوگئی۔ یہ دیکھتے ہی میرا دل بیٹھنے لگا۔ مجھے لگا جیسے مجھے ہارٹ اٹیک آنے والا ہے۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ مرد کی نارمل ہارٹ بیٹ سو تک رہتی ہے۔ میری گھڑی سے نظریں نہ ہٹتیں تھیں۔ ہنگامی طور پر بیگم کو پاس بٹھا لیا کہ نجانے کب ایمرجنسی پیش آ جائے لہذا کوئی پاس تو ہو۔ بیگم صورتحال جان کر ہنسی۔ اس نے میری کلائی سے گھڑی اُتاری اور بولی "آپ اسے رہنے ہی دیں۔ اپنی گھڑی ہی پہنا کریں۔ فل پلیٹ نہاری دو نان کے ساتھ ڈکار کر بیٹھے ہیں اور دل کی دھڑکنوں کا کتنا خیال ہے آپ کو"۔

بس وہ گھڑی اُترنے کے دو منٹ بعد مجھے طبعیت بہتر محسوس ہونے لگی۔ ایسا لگا جیسے سب نارمل ہے اور دل بہترین دھڑک رہا ہے۔ میں نے از رہ تجسس چیک کرنے کو وہ گھڑی پھر پہن کر دیکھنا چاہا۔ واقعی ہارٹ بِیٹ نارمل شو ہو رہی تھی۔ کافی دیر گھڑی کی سکرین کو مانیٹر کرتا رہا۔ جب مکمل تسلی ہوگئی تو میں نے لعنت بھیج کر سگریٹ سلگا لیا، جو اس ٹینشن میں پچھلے ایک گھنٹے سے نہیں پیا تھا کہ مبادا اس حالت میں ہارٹ اٹیک فوراً ہی نہ تیزی سے آ جائے۔

بھائیو۔ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ گھڑی ڈاکٹر ہونے کے ساتھ فزیو تھراپسٹ بھی ہے۔ اس میں ایک فنکشن تھا، جو والک سٹیپس کو کاؤنٹ کرتا تھا۔ گھڑی میں سینسر لگے تھے جو کلائی یا بازو مسلسل ہلنے سے والک کے سٹیپس کاؤنٹ کرتے ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھا سگریٹ پیتا رہا۔ کوئی دو گھنٹے بعد میں نے شاید ساتواں سگریٹ ختم کیا ہوگا کہ گھڑی میں وائبریشن ہوئی۔ دیکھا تو سکرین پر چمک رہا تھا

"ویل ڈن! مشن کمپلیٹ" اور آگے لکھا آ رہا تھا "ون تھاؤزنڈز سٹیپس"

میں تو گھبرا گیا اور ٹینشن میں سوچنے لگا کہ اب یہ کیا یبن کٹیٹا ہے؟ اسی وقت ہارٹ بیٹ والی سکرین چمکی "ہارٹ بِیٹ 130"۔

بس صاحبو۔ وہ آخری دن تھا۔ اس کے بعد سے اپنی گھڑیاں ہی پہنتا ہوں۔ زمانے چاہے کچھ بھی کہے مگر اس ڈیجیٹل واچ کے سبب میں کئی گھنٹے خوامخواہ کی ٹینشن جھیل کر شوگر ہائی کرتا رہا۔ گلوکو میٹر پر شوگر چیک کی تو وہ ٹینشن ہائی ہونے کے سبب 210 پر پہنچ چکی تھی۔

اگلے دن میں نے اپنی گھڑی پہن لی۔ بیگم نے دیکھا تو بولی "ارے اس میں آکسیجن مانیٹرنگ بھی ہے۔ آپ نے پھر اپنی پرانی گھڑی پہن لی"۔ میں نے کہا "تم رہنے دو۔ میرا آکسیجن لیول اس کو پہن کر خراب ہونے لگتا ہے"۔

پ چ، کال مجھے کوئی آئی نہیں۔ گھڑی سے کال والا ششکا پورا ہوا نہیں، مگر اس گھڑی نے میری شوگر، بی پی اور ہارٹ بیٹ سمیت سٹریس لیول ہائی کر دیا۔ جب سے پرانی گھڑی پہنی سب ایکدم نارمل چل رہا۔

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin