Depression, Stress Aur Hum Pakistani
ڈپریشن، سٹریس اور ہم پاکستانی

اسلام آباد پولیس کے ایک ایس پی نے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ آپ صرف پچھلی ایک دہائی میں سرکاری افسران کی خود کشیوں کی وجوہات کا جائزہ لے لیں۔ ایک ہی بات سامنے آتی ہے۔ ڈومیسٹک ایشوز یا پرائیویٹ افئیرز اور ورک لوڈ کے سبب ڈپریشن۔ ڈپریشن ہی انسان کو خودکشی کی جانب لے جاتا ہے۔ اس میں کوئی تفریق بھی نہیں کہ افسر سی ایس ایس پاس تھا یا رینکر تھا۔
یو این میں ہر سال ہر ملازم کی نفسیاتی حالت کا جائزہ لینے کو ایک مفصل سیشن ماہر نفسیات لیتا ہے۔ اس سیشن کی فائنڈنگ رپورٹس جمع کی جاتی ہیں۔ ان کی بنیاد پر ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزلی بھی ہو سکتی ہے۔ آپ کو جاب سے رخصت بھی ہونا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی کی نفسیاتی حالت پر سنگین سوال اٹھتے ہوں تو اس کی مکمل چھان بین کے لیے دوسرے ذرائع بھی بروئے کار لا کر پھر حتمی فیصلہ لیا جاتا ہے۔
یہی ماڈل یا طریقہ کار سرکاری افسران اور بالخصوص ایسے محکمے جو پبلک سے منسلک ہوں یا جن کی پبلک ڈیلنگ ہو، انسداد جرائم کے محکمے، سیکیورٹی کے محکمے، وغیرہ میں لازم اپنانا چاہئیے۔ افسران کا سالانہ نفسیاتی ٹیسٹ لازم ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ ملک بھی چونکہ معجزہ ہے اس واسطے یہ بھی ممکن ہے کہ بالفرض ایسا طریقہ کار اپنا بھی لیا جائے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کام پر معین سائیکاٹرسٹس ہی پیسے لے کر رپورٹس بنانے یا بگاڑنے لگ جائیں اور پھر ان کی اپنی نفسیاتی حالت یا ان کے کام پر چیک کے لیے ایک اور محکمہ قائم کرنا پڑے۔
لیکن یہ سوچ تو اس ادارے یا ریاست میں پیدا ہوتی ہے جس کو اپنے ملازمین یا شہریوں کی جسمانی و نفسیاتی صحت کی پرواہ ہو۔ یہاں تو ایک نفسیاتی الجھنوں کا شکار جائے تو اس کی جگہ دس نفسیاتی بیمار پوسٹ لینے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ بجٹ کے حساب سے یہ ریاست ہر شہری پر صحت کی مد میں گن کر بائیس روپے ماہانہ خرچ کرتی ہے۔
ڈپریشن اور سٹریس دو الگ سٹیجز ہیں۔ پہلے سٹریس گھیرتا ہے۔ سٹریس کا سبب ورک لوڈ، گھریلو مسائل (بیوی اولاد خاندان) یا نوکری یا بزنس پر پیش آنے والی مشکلات بنتی ہیں۔ سٹریس انسان کی نیند چھین لیتا ہے۔ اس کا دماغ ہر وقت آن رہتا ہے۔ سوچوں کا شکار رہتا ہے۔ سٹریس حد سے بڑھتا جائے اور کافی عرصہ رہے تو وہ ڈپریشن کے فیز میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن میں منفی سوچیں گھیرنے لگتی ہیں۔ انسان کو اپنا آپ بے کار معلوم ہوتا ہے۔ مسئلے کا حل جان لینا سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جان اپنی ہو یا کسی دوسرے کی ہو۔
پاکستان میں اس وقت جتنے افراد جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں اس سے دس گنا زائد وہ ہیں جو بظاہر تندرست ہیں مگر پیچیدہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل کے جنم لینے کی وجوہات بہت گھناؤنی اور جائز ہیں۔ غربت، بے روزگاری، گھریلو چپقلش، نامساعد کاروباری حالات، منشیات کا استعمال، ملک میں دہائیوں سے پھیلی دہشت گردی اور سیاسی و سماجی افراتفری جیسی وجوہات ہیں۔ لوگ ذہنی سکون حاصل کرنے کو منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ کوئی xanax یا والیم جیسی اعصابی سکون یا نیند کی گولیاں پھانکتا ہے۔ آپ صرف ایک مشاہدہ کریں۔ ذرا صبح اپنے شہر کی کسی مصروف شاہراہ یا چوک میں کھڑے ہو کر لوگوں کا بغور جائزہ تو لیں۔ اگر آپ کو پریشان حالی، چڑچڑا پن، افراتفری، سنجیدگی، یا خیالوں میں چلتے ہجوم کے سوا کوئی اکا دکا خوش باش چہرہ نظر آیا تو بتائیے گا۔
سماج کا زوال راتوں رات نہیں ہوتا۔ سرکاری مشینری کے پرزے خوامخواہ خود کشیاں نہیں کرتے۔ یوں تو سیلاب آ چکا اور اب حفاظتی پشتوں پر ریت کی بوریاں رکھنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں مگر پھر بھی کم از کم اگلی نسل کو اتنا ایجوکیٹ کرنے پر ہی زور دے لیں کہ جتنا جسمانی بیماری کا علاج کرانا ضروری ہے اتنا یا اس سے قدرے زیادہ نفسیاتی مسائل کا علاج ضروری ہے۔ والدین اپنی اولاد کی sleeping habits کے ساتھ اس کے طور اطوار کو نظر میں رکھیں۔ کچھ محسوس ہو تو اس کا معائنہ کرائیں۔ مگر پہلے اپنا بھی کرائیں۔

