Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Darbar Shah Rukne Alam

Darbar Shah Rukne Alam

دربار شاہ رکن عالم

سورج سر پر آن کھڑا تھا جب میں شاہ رکن عالم کے مزار پہنچا تھا۔ لوگوں کا غیر معمولی ہجوم تھا۔ فقیر تھے، ملنگ تھے، مرید تھے، عقیدت مند تھے اور ان سب کے بیچ میں مکمل اجنبی کیمرا اٹھائے کھڑا تھا۔ دربار کے اطراف کبوتر اڑتے پھر رہے تھے۔ ان کا غول اڑتا، دربار کا چکر کاٹتا، اور پھر احاطے میں اتر جاتا۔ ہجوم سے الگ ہو کر میں نے ایک جگہ تلاش کی جہاں میرے اور دربار کے بیچ لوگوں کی آمد و رفت نہ ہو سکے۔ کیمرا ٹرائی پوڈ پر لگا کر میں دربار کے اطراف اڑتے کبوتروں کی تصاویر لینے لگا۔

کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک اماں چلتی ہوئی آئیں اور دربار کے اس دروازہ پر آ کر بیٹھ گئیں جو عوام کے لئے بند تھا، شاید یہ دروازہ مستقل بند رہا کرتا ہے۔ میں اب ان کے اُٹھ کر جانے کا انتظار کرنے لگا تاکہ یہ میرے فریم سے نکل جائیں۔ اماں نے سوکھی روٹیاں شاپر بیگ سے نکالیں اور ان کے ٹکرے ٹکرے کرنے لگی۔ میں دیکھتا رہا۔ اماں آہستہ آہستہ روٹیوں کے ٹکرے کرتے رہی۔ جب یقین ہو چلا کہ اماں جلدی اٹھ کر جانے والی نہیں تو میں ان کو اٹھانے ان کے پاس چلا گیا کہ بات کر کے شاید سمجھا پاؤں۔

قریب جا کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور پوچھا "اماں کیا کرنا ہے ان روٹیوں کے ٹکرے کر کے؟ کبوتروں کو ڈالنے ہیں؟" اماں نے سر اٹھا کر دیکھا اور سرائیکی میں بولی "نئیں پُتر! کبوتروں کو تو یہاں بہت لوگ دانہ خرید کر ڈالتے ہیں۔ کبوتروں کو تو ضرورت سے زیادہ مل جاتا ہے۔ میں یہ روٹیوں کے ٹکرے کر کے کوؤں کو ڈالتی ہوں کیونکہ کوے کبوتروں والا دانہ نہیں کھاتے اور یہاں کوؤں کی کوئی پراہ نہیں کرتا۔ وہ صرف میری روٹیوں کے ٹکرے کھاتے ہیں۔ پُتر کوے بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں ناں؟"

اماں کا جواب مجھے حیرت میں ڈبونے لگا۔ میں نے اک نظر اوپر اٹھا کر شاہ رکن عالم کے دربار پر ڈالی، اوپر کوے منڈلانے لگے تھے۔ میں وہیں اماں کے قر یب چوکری مار کر بیٹھ گیا۔ اماں آہستہ آہستہ روٹیوں کے ٹکرے کرتی جا رہی تھی۔ تجسس و اضطراب کے مارے اب پوچھا "اماں تم کیا کرتی ہو؟ یہاں دربار پر بس روٹیاں ڈالنے آتی ہو کوؤں کے لیئے؟" وہ سُن کر بولی "نئیں پُتر میں پندرہ سالوں سے یہاں رہ رہی ہوں، میں مانگنے والی نہیں ہوں۔

بس دربار سے لنگر مل جاتا ہے وہ کھا لیتی ہوں اور ادھر ہی سو جاتی ہوں، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر لوگ مجھے فقیر سمجھ کر میری جھولی میں پیسے ڈال جاتے ہیں تو مجھے غصہ آتا ہے، اس لیے میں لوگوں سے ہٹ کر الگ جگہ تلاش کرتی ہوں جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو"اماں کے چہرے پر ابھر آئی جھڑیوں کا بغور جائزہ لیا۔ کچھ توقف کے بعد پوچھا "اماں یہاں سارا دن کیا کرتی ہو پھر؟ گھر بار کوئی نہیں تمہارا؟"

یہ سوال سن کر وہ کچھ دیر چپ رہی پھر اس نے پلو سے چادر کو پکڑ کر ڈبڈباتی آنکھیں پونچھیں اور بولی "پُتر میں بال بچوں والی ہوں، میرے پیٹ سے اللہ نے مجھے دو بیٹیاں اور دو بیٹے دیئے، وہ سب گھر بار والے ہیں، مجھے انہوں نے گھر سے پندرہ سال پہلے نکال دیا تھا کیونکہ وہ گھر میں ٹی وی پر ناچ گانا دیکھتے تھے، ان کے بچے مجھے تنگ کرتے تھے، مجھے یہ ماحول پسند نہیں تھا تو میں ان کو ٹوکتی تھی، میری بہوؤں نے مجھے گھر سے نکال دیا کہ جاؤ اپنی بیٹیوں کے پاس ہم یہاں اپنی مرضی سے جو دل کرے گا وہی کریں گے۔

میں ایک بیٹی کے گھر گئی تو اس کے شوہر نے مجھے نکال دیا، دوسری کے گھر گئی تو وہاں کا ماحول بھی ایسا ہی ملا۔ مجھے اس نے بھی نکال دیا، اب پندرہ سالوں سے شاہ رکن عالم کا دربار ہی میرا گھر ہے" یہ سن کر مجھے چپ لگ گئی تھی۔ میرے لئے یہ بہت غیر متوقع جواب تھا جس کو جذب کرنا میرے بس کا نہ تھا۔ میری آنکھیں نم ہونے لگیں تو میں نے دھیان بھٹکانے کو سامنے ٹرائی پوڈ پر لگے اپنے کیمرے کو دیکھا۔ اٹھا، کیمرے کے پاس گیا اور اسے بند کر دیا۔

تھوڑے وقفے کے بعد میں واپس آیا۔ اماں بدستور روٹیوں کے ٹکرے کر رہی تھی۔ میں بولا "اماں تم کو ماحول کیوں نہیں پسند آیا؟ آج کل ہر گھر میں ٹی وی، گانا وغیرہ چلتا ہے۔ اس میں اتنا برا منانے والی کیا بات تھی؟ تم کچھ برداشت کر لیتی"۔ اماں نے پہلی بار نظریں اُٹھا کر مجھے غور سے دیکھا۔ شاید وہ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ یہ کون ہے جو میرے سے سوال در سوال پوچھ رہا ہے؟ شاید اس کو آج تک کسی نے کوئی سوال پوچھا ہی نہ ہو۔

"پُتر میں ساری زندگی قرآن پڑھتی آئی ہوں، مجھے آدھا قرآن پڑھ پڑھ کی حفظ ہو چکا ہے، میرے ماں باپ کے گھر کا ماحول بہت پاکیزہ تھا، میرا شوہر بھی نیک آدمی تھا مگر وہ مر گیا اور میری اولاد بن باپ کے بگڑتی گئی"۔ اماں نے نم آنکھیں پھر اپنی چادر کے پلو سے پونچھیں تو میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہاں بیٹھنے کی ہمت مجھ میں نہیں رہی تھی۔ میں اس کی مالی مدد بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ اماں غصہ کر جائے گی۔ میں نے کیمرا سمیٹا اور تیز چلتے دربار سے باہر نکل گیا۔ میرا وہاں رکنا محال ہو چکا تھا۔

چلتے چلتے مُڑ کر ایک نظر دربار کو دیکھا تو آسمان کبوتروں کے اڑتے غولوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہیں کہیں کوؤں کا جھنڈ تھا جو دربار کے احاطے کے عین اسی جگہ کے اوپر منڈلا رہا تھا جہاں اماں بیٹھی تھی۔

Check Also

Karoonjhar Se Karachi Tak

By Nasir Abbas Nayyar