Circle Of Life (2)
سرکل آف لائف (2)

الارمنگ صورتحال تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کیا مذہبی اور کیا سیاسی سب جماعتیں ہی دائیں بازو کی جماعتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ پاکستان سے لیفٹ یا بائیں بازو کا مکمل خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ پاور پالیٹیکس ہی ہر جماعت کا واحد موٹو ہے۔ ہائبرڈ سسٹم کی چھتری تلے کافی جماعتیں خوشی خوشی جمع ہو کر سانس لے رہی ہیں اور جو سسٹم سے باہر ہیں ان کا بھی کُل زور یا تقاضہ یہی ہے کہ ان کو بھی موقعہ دیا جائے یا دوبارہ موقعہ دیا جائے تو وہ سسٹم کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔ جیل میں بیٹھی قیادت بھی اسی سسٹم میں واپس آنا چاہتی ہے اور اسی میں اپنا حصہ بقدر جثہ چاہتی ہے۔ اگر کوئی کارکن خود کو انقلابی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مجھے اس کی خوش فہمی سے سروکار نہیں۔
زندگی کا دائرہ یعنی سرکل آف لائف کیا ہے؟ کیچوا مٹی کھاتا ہے اور زرخیز بناتا ہے۔ پرندے کیچوا کھاتے ہیں، پرندوں کو شکاری کھا جاتے ہیں۔ چھوٹے شکاریوں کو بڑے شکاری کھا جاتے ہیں۔ بڑے شکاریوں کو بیماری اور زخم چاٹ جاتے ہیں اور پھر ان کو گدھ کھا جاتے ہیں۔ گدھ کو کثرتِ خوراک یا قلتِ خوراک کھا جاتی ہے اور پھر گدھ کا پنجر مٹی کھا جاتی ہے۔ موت سے زندگی اور زندگی سے موت جنم لیتی ہے۔ گویا زندگی کا دائرہ زنجیر سا ہے۔ اگر اس زنجیر میں سے سب سے چھوٹی کڑی کو بھی زنگ لگ جائے تو اس کا اثر بڑی کڑی کو کمزور کر دیتا ہے اور یوں پوری زنجیر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن سرکل آف لائف میں معنی اور رنگ کون بھرتا ہے۔ مخالف قوت یا تضاد۔ سیاہ یوں سیاہ ہے کہ سفید سامنے کھڑا ہے۔ سچ کا وجود نہ ہو اگر جھوٹ مدِ مقابل نہ ہو۔ پانی کے بغیر خشکی کیسے سمجھ میں آئے گی؟ دنیا کی پوری آبادی کا آئی کیو لیول ایک ہوتا تو کیا ایسی دنیا ایک انچ بھی آگے بڑھ سکتی ہے؟ بے وقوفی کا وجود نہ ہو تو عقل مندی کو کون پوچھے؟ اگر سب مذکر ہوتا یا سب مونث ہوتا تو دنیا کتنے دن چلتی؟ محرومی نہ ہوتی تو کوشش اور مقابلے کا تصور کیوں پیدا ہوتا۔ مقابلہ نہ ہوتا تو ترقی کیوں ہوتی۔ شاید یہ سب تضادات ہی زندگی کو متحرک اور متوازن رکھنے والے انجن کا پٹرول ہیں۔
ظالم اور مظلوم کی لڑائی کیا یہ اختیار اور بے اختیاری کی لڑائی کے سوا بھی کچھ ہے؟ جب مظلوم غالب اور ظالم مغلوب ہو جاتا ہے تو پھر ایک نیا ظالم کیسے وجود میں آ جاتا ہے۔ کیا تمام انسان کسی ایک ظالم یا ایک مظلوم پر کبھی متفق ہو سکے یا سکیں گے؟ ہر ایک کا باطل اور ہر ایک کا حق، ہر ایک کی سچائی اور ہر ایک کا جھوٹ اتنا الگ الگ کیوں؟ اچھا یہ کیوں کہا گیا کہ بے شک انسان ناشکرا ہے اور یہ کیوں کہا گیا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ شاید تضاد سے پیدا ہونے والی کشمکش ہی زندگی ہے۔
جب کوئی فرد، سیاسی یا مذہبی گروہ یا ریاست قدرتی توازن کو بدل کے اپنی مرضی کا توازن بنانے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی دن سے لڑ کھڑانا شروع کردیتے ہیں۔
میں شاید لکھنا چاہتا تھا کہ جب مقتدرہ نے بائیں بازو کے خلاف اپنی پوری توانائیاں صرف کر دیں تو پھر دائیں بازو کے خلاف کوئی متبادل قوت (کاؤنٹر فورس) یا جوابی نظریہ (کاؤنٹر نیریٹو) باقی نہ رہا۔ یوں وفاقی و سماجی ترازو کے سیاسی و مذہبی پلڑے پوری طرح ایک طرف کو جھک گئے۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوت لگا کر بائیاں بازو یا لیفٹ کی جماعتوں کو کچل دیا یا ان کا بازو مروڑ کر اپنا ہمخیال بنا لیا تو پھر کوئی متضاد قوت باقی نہ رہی۔ پھر سی سا جھولے کے ایک جانب صرف دایاں بازو رہا اور دوسری جانب کے پھٹے پر ریاست اور اس کے لوگ بیٹھے ہوا میں معلق رہے۔
لیفٹ یا بائیں بازو کا نظریہ کوئی انقلاب کا نظریہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنا کوئی نظام نافذ نہیں کرنا چاہتے۔ لیفٹ صرف و صرف سسٹم کے آپریٹ کرنے کو جو میکانیزم آئین پاکستان کی صورت موجود ہے اس کو حقیقی معنوں میں نافذ العمل کرنے کے طلبگار ہوتا ہے۔ اداروں کو آئینی حدود میں رکھنا چاہتا ہے۔ جمہور اور جمہوریت کا محافظ ہوتا ہے۔ غیر آئینی اقدامات کو ناقابل قبول سمجھتا ہے۔ صوبائی خودمختاریوں کے ساتھ وفاق کو بھی بطور ون یونٹ مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ اپوزیشن یا حزب مخالف کو سپیس دینا چاہتا ہے۔ احتجاجی سیاست کو جمہوریت کا بنیادی و لازم جزو سمجھتا ہے۔ مسائل کا حل ٹیبل ٹاک کے ذریعہ چاہتا ہے۔ احتسابی عمل شفاف اور عدلیہ کو اٹانومس باڈی بنانے کا مائنڈ سیٹ ہے۔
دائیں بازو کا منشور اقتداری خواہش کا منشور ہوتا ہے۔ ہر حال میں طاقت میں رہنے اور طاقت کو برقرار رکھنے کے ساتھ مسلسل بڑھانے، سماج کو معاشی، مسلکی و صوبائی طبقات میں تقسیم کرکے بااثر طبقات کو اپنے ہمراہ رکھنے، مذہب سے لیکر لوگوں کے نجی و کاروباری معاملات کو کنٹرول کرنے، مخالف کو ہر طرح سے کچلنے، خود کو مقدس اور ان ٹچ ایبل بنانے، اپنے سوا ہر انسان کو درجہ دوم کا سمجھنے کا ہوتا ہے۔
مگر زندگی کا دائرہ جامد تھوڑی ہوتا ہے۔ قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ کبھی اسی ملک میں لیفٹ ونگ متبادل اور خاصی طاقت تھی۔ آج اگر رائٹ ونگ اس کو مکمل کچل چکا ہے تو پھر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ لیفٹ بھی اُبھر آئے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ارتقائی سماج ایک ہی طاقت کے ہاتھوں مسلسل ایک ہی حالت میں چلتا رہے۔

