Chacha Taxi Wala
چاچا ٹیکسی والا
دنیا کے پیشتر ممالک میں سفر کرنے کے دوران مجھے ٹیکسی والوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ذہنی مطابقت کے لحاظ سے ٹیکسی ڈرائیورز بلا تفریق رنگ و نسل و جغرافیہ لگ بھگ ایک سے ہوتے ہیں۔ یہ آپ کو غیر ملکی سمجھتے ہوئے اضافی چارج کرنا چاہتے ہیں یا آپ کو لمبا راستہ دکھا کر میٹر کا بل بڑھا دیتے ہیں۔ نیز اگر آپ کے پاس کیش کی صورت میں کھُلا نہ ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ٹیکسی والا آپ کو اپنی رقم کاٹ کر لوٹا دے۔
ٹیکسی والوں کا یہ مزاج ساری دنیا میں یکساں سا ہی ملتا ہے۔ اُبر کا معاملہ کئی ممالک میں یوں ہے کہ وہاں اُبر والے اتنا انتظار کرواتے ہیں کہ آدمی تنگ آ کر راہ چلتی ٹیکسی لینا بہتر سمجھتا ہے۔ مگر صاحبو جو ٹیکسی والے مملکتِ خداداد میں پائے جاتے ہیں اور جو ان کا طریقہ واردات ہوتا ہے وہ جگ سے نرالا ہے۔ باقی دُنیا میں پھر بھی کچھ پروفیشنل ازم اپنایا جاتا ہے جیسے کہ سواری سے بیشک اضافی رقم نکلوا لو مگر اس کے دماغ کی لسی نہ بناؤ۔
اگر وہ چپ ہے تو اس سے خود مسلسل بات کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اسے بلا وجہ اپنے ذاتی دُکھڑے، مہنگائی کے رونے، بچوں کی جسمانی حالت وغیرہ وغیرہ کے متعلق سُنا کر اسے جذباتی کر کے ٹِپ کی صورت مزید اضافی رقم نکلوانے کی سوچ صرف و صرف پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ میرا چونکہ ائیرپورٹ سے گھر اور گھر سے ائیرپورٹ جانے کا سلسلہ اکثر رہتا ہے۔ اندرون ملک سفر کرنا ہو یا بیرون ملک ائیر پورٹ کے لئے ٹیکسی ہی آرڈر کرتا ہوں۔
اپنی گاڑی گیراج میں کھڑی رکھتا ہوں۔ ان ٹیکسی والوں کے ساتھ آپ بیٹھ جائیں۔ یہ آپ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں اور ان باتوں کا فوکس ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی طرح اس سواری کے کپڑے بھی اُتار سکیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ آپ کو ایسے ایسے قصے سنانے لگیں گے کہ آپ اس سوچ میں مبتلا ہو جائیں کہ غریب آدمی ہے۔ جاتے ہوئے بل کے علاوہ اس کی کچھ مالی مدد بھی کر دوں۔
چونکہ پروفیشنل ازم کا ہمارے ہاں اوپر سے نیچے تک، وزیراعظم سے چپڑاسی تک، آرمی چیف سے پولیس کے سپاہی تک، کسی سے واسطہ نہیں اس لئے ٹیکسی ڈرائیورز سے انسان کیا اُمید لگائے اور کیوں لگائے۔ وہ بھی قومی مزاج کے حقیقی عکاس ہیں۔ آج صبح لمبی فلائٹس لے کر لاہور ائیرپورٹ اترا۔ مسلسل سولہ گھنٹے سفر میں بِتا کر انسان کی حالت خراب ہو چکی ہوتی ہے۔ چھ گھنٹے کی ایک فلائٹ، پھر جدہ ائیرپورٹ پر ساڑھے چار گھنٹے کا قیام، جدہ سے لاہور پونے پانچ گھنٹے کی پھر فلائٹ۔
امیگریشن بھگت کر فارغ ہوتے انسان کے اعصاب جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ایک چاچا ٹیکسی والا مل گیا۔ گھر تو آنا تھا۔ ٹیکسی کیا تھی مہران کار تھی۔ بڑی گاڑی والوں نے پٹرول کا واویلا مچا کر کرائے اس قدر بڑھا دئیے ہیں کہ سوچا کہ اکیلا آدمی ہوں، تھوڑا سا سامان ہے، لمبا سفر بھی نہیں تو چلو مہران ٹھیک ہے۔ یوں بھی چچا نے ڈرائیوروں کی بھیڑ میں میرا بازو تھام رکھا تھا اور مسلسل کام نہ ملنے کا رونا رو رہا تھا۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلیں تو ڈرائیورز آپ کو ایسا گھیراؤ ڈالتے ہیں جیسے آپ شہد کی ملکہ مکھی ہیں اور وہ چھتے کے کارکنان۔ سفر شروع ہوا۔ چاچا بولا "کہاں سے آ رہے ہیں؟" ٹیکسی والوں کا یہ سوال بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارے ہاں ماہر کنسلٹنٹ ڈاکٹر مریض کی "ورتھ" چیک کرنے کو پوچھتا ہے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں تاکہ اس کی حیثیت کے مطابق اس کا علاج سجیسٹ کیا جائے۔
"کراچی سے"۔ میں تھکاوٹ کے باعث آدھ موا ہوا پڑا تھا۔ یوں بھی بولنے کا من نہیں تھا۔
چچا نے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنا چاہیں جن میں اس کی گھریلو غربت مسلسل ٹپک رہی تھی مگر میں بُت بنا رہا۔ میں جانتا تھا کہ اگر چاچے کے ہاتھ جواب کی ڈفلی تھمائی تو وہ اسے مزید بجانے لگے گا۔ تھک ہار کر چاچے نے پینترا بدلا۔
"باؤ جی، عمران خان کو نکال کر فوج نے سر میں سواہ ڈلوا لی ہے۔ جب تک فوج ہے اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ "
"اچھا"۔ میں پھر چپ ہو گیا۔
"ویسے نواز شریف کا دور بہتر گزرا تھا۔ غریب آدمی کا سانس تو نکل ہی رہا تھا۔ ہے ناں باؤ جی؟ آپ پڑھے لکھے بندے لگتے ہیں۔ ہم تو ان پڑھ ہیں۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟"۔ اب چاچے نے بات کا رخ یہ سوچ کر بدلا کہ عمران خان اور فوج والی بات کے کانٹے پر باؤ نہیں پھنسا۔
"اچھا"۔ میں پھر چپ ہو گیا۔
"باؤ جی اس ملک کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔ ہر بندہ چور ہے۔ پولیس، عدالتیں، نادرا، جس محکمے میں چلے جاؤ غریب کو دھکے ہی پڑتے ہیں اور امیر پیسے دے کر کام کروا لیتا ہے۔ یہ عوام ہی ایسی ہے۔ عوام میں کوئی اپنا کام مکمل ایمانداری سے نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی اپنے کام سے کام نہیں رکھتا۔ "
میں اب تک چپ چاپ تھکن کے مارے بُت بنا ہوا تھا۔ چاچے کی یہ بات سُن کر میرا صبر جواب دے گیا۔
"ہاں چاچا۔ کوئی اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرنا چاہتا۔ جیسے یہی دیکھ لو کہ تمہارے شعبے میں ٹیکسی ڈرائیورز بھی تو ایسے ہیں۔ جب میں گھر سے ائیرپورٹ گیا تھا تو ٹیکسی ڈرائیور نے سارا راستہ مہنگائی کا رونا سنایا۔ اپنے حالات سنائے اور اترتے ہوئے مجھ سے کہا کہ اگر میں اس کی اضافی مدد بھی کر دوں تو میرے بچے جیویں۔ بالکل ایسے جیسے سڑک پر بھیک مانگنے والا دعائیں دیتا ہے۔
حالانکہ چاچا ٹیکسی والا تو برسر روزگار تھا مگر اسے عادت پڑ چکی تھی سواری سے مانگنے کی۔ ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں جن کو عادت پڑ جاتی ہے ایسی۔ وہ وزیراعظم ہو یا کوئی بھی۔ مانگنا ہمارا قومی شعار ہے"۔ چاچے نے سن کر ہلکا سا "ہاں جی" کہا اور چپ ہو گیا۔ باقی کا سفر چپ ہی گزرا۔ چاچے نے شاید نتیجہ نکال لیا تھا کہ اس کی سواری کچھ زیادہ ہی "پڑھی لکھی" ہے۔
گھر اترا۔ اس کے ساتھ طے شدہ معاوضہ دینے لگا۔ پانچ ہزار کا نوٹ تھا۔ اس نے باقی پیسے واپس کرتے مجھ سے ہزار روپیہ اضافی مانگتے ہوئے کہا "باؤ جی، قسمے رنگ روڈ کا سو روپیہ لگ جاتا ہے، ائیرپورٹ کی بھی سو روپے فیس ہے اور پارکنگ میں ٹیکسی کھڑی رکھنے کا بھی سو لگ جاتا ہے۔ تین سو روپے تو یونہی لگ جاتے ہیں"۔ خیر، یہ ہمارا وطیرہ ہے۔ میں اب اس سے کیا بحث کرتا۔ دروازے پر بچے آ گئے وہ مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے۔ میں نے اسے بقیہ رقم لی۔ اس نے اضافی ہزار رکھا اور پلٹ گیا۔
گھر پہنچ کر بیگم بچوں سے مل کر تھوڑی تھکاوٹ اتری۔ بیگم نے بیگ کھولا۔ سب نے اپنے اپنے تحفے دیکھے۔ میں سونے چلا گیا۔ سو کر اٹھا تو بیگم بولی "آپ جو مجھے پیسے دے کر گئے تھے وہ سب ختم ہو گئے۔ اتنی مہنگائی ہو چکی ہے۔ " "کیا مطلب سب ختم ہو گئے؟ یار میں تو اچھے خاصے دے کر گیا تھا وہ تین ہفتوں میں ختم نہیں ہو سکتے"۔ میں نے حیران ہوتے پوچھا کہ سچ میں اتنی رقم روز چاندی کھا کر بھی ختم نہیں ہو سکتی۔
میں جب بیرون ملک جاؤں اچھی خاصی رقم دے کر جاتا ہوں کہ خدانخواستہ پیچھے کوئی ایمرجنسی ہو گئی تو کام آ سکے۔ "میں اب کیا حساب لکھا کروں؟ آئندہ سے میں ڈائری پر حساب لکھا کروں گی۔ شرم نہیں آئی آپ کو ایسی بات کرتے کہ مجھ سے حساب کا پوچھنے لگے"۔ بیگم کا پارہ ہائی ہونے لگا۔ "او یار میں نے کب حساب کا ذکر کیا؟ بس یہی تو پوچھا کہ ختم کیسے ہو گئے۔ مانا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے"۔
صاحبو، وہ ختم ہوتے ہی ہیں۔ آج تلک مجھے تو کبھی واپس نہ ملے کہ یہ لیجئیے یہ بچ گئے تھے۔ بیگم نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں سنانا شروع کیں اور بات پھر اسی نقطے پر پہنچ گئی جس کے مطابق بیگم کی تمام تر محرومیوں کا ذمہ دار صرف میں ہوں۔
رات نو بجے کھانا کھاتے اس کا موڈ کچھ بہتر ہوا۔ بولی " کیا سوچ رہے ہیں۔ چپ چپ ہیں؟"
"بس یار، یہی سوچ رہا ہوں کہ ٹیکسی ڈرائیور کتنا سچا انسان ملا تھا۔ "
خدا کا شکر ہے کہ وہ ٹیکسی والے چاچا کا پس منظر نہیں جانتی تھی۔ سب خیریت ہے دوستو۔ پاکستان واپس پہنچ چکا ہوں۔ خوش باش ہوں۔ اُمید ہے آپ سب بھی راضی باضی ہوں گے۔
والسلام۔