Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bheer Chaal

Bheer Chaal

بھیڑ چال

بھیڑوں کا ریوڑ جب چلتا ہے تو سب سے کمزور اور لڑکھڑاتی بھیڑ سب سے آخر میں چلتی ہے۔ کسی سانحے یا حادثے کے سبب ریوڑ کو رُخ بدلنا پڑ جائے تو پھر وہ کمزور لڑکھڑاتی بھیر میرِ کارواں بن جاتی ہے اور سارا ریوڑ اسی کی قیادت میں چلنے لگتا ہے۔ میں یہ تو وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ اس قوم کا رُخ کب اور کس سانحے کے سبب بدلا اور کون میرِ کارواں بن گیا۔ مگر ایک بات پکی ہے اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اب یہ کارواں سست روی کا شکار ہوتا ہوتا آخر جمود کا شکار ہو چکا ہے اور عرصے سے رُکا ہوا ہے۔

یہ گراوٹ کا سفر منزلیں مارتا اس نشیب میں اُتر چکا ہے جہاں قوم جسمانی و نفسیاتی طور پر اُلجھن، چرچڑے پن، مار دھار، ٹرول، گالم گلوچ، بدتمیزی، تو تو میں میں میں گھِری ہوئی اپنی ذاتی معاشی و سماجی ترقی کو بھول گئی ہے۔ اب یوں ہے کہ جو آسودہ حال ہے وہ کُتا ہے، جو مختلف خیال رکھتا ہے وہ غدار ہے، جو بھیڑ چال کا حصہ نہیں بن پایا وہ لبرل بغیرت ہے۔

قوموں کے مقدر میں رہبر ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر لگا دیتے ہیں۔ جن قوموں نے رفعت پائی اور دنیا نئے ڈھنگ سے اپنے مطابق تشکیل دی۔ نیو ورلڈ آرڈر لائے ان قوموں نے جسمانی و ذہنی مشقت اُٹھائی ہے۔ قدرت نے کسی کو یونہی نہیں نوازا۔ یہ نظامِ قدرت ہے کہ جو جتنی سعی کرے گا اسے اس کا اجر ملے گا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے "انسان کے لیے وہی ہے جتنی اس نے سعی کی"۔

یہاں تو "تُو کتا، نہیں تُو کتا" کہنے سے فرصت ملے تو کچھ اور سوچیں۔ صبح تا شام روزگار کے مسائل سے اُلجھتے یہ رات گئے تک سوشل میڈیا پر تھکن اتارنے آتے ہیں۔ دو چار مغلضات اِس کو بکیں، تھوڑا گالمانہ پتھراؤ اُس جانب کیا، دس بارہ اخلاق سے گری ویڈیوز دیکھ کر ہنسے اور پھر سو گئے۔ من الحیث القوم یہی ہمارا سماجی دائرہ ہے۔ یہی شب و روز ہیں۔

ہر روز ایک نیا کٹا کھُلتا ہے جو رات گئے بند ہوتا ہے۔ پھر نیا دن، نئے ایشو کی تلاش اور وہی پتھریلی سوچ۔ ایک ہجوم ہے جو مسلسل لکھتا جا رہا ہے اور ایک انبوہ ہے جو مسلسل ہگتا جا رہا ہے۔ اپنے گریبان پر کسی کی نظر جاتی ہے نہ ہی کوئی اپنی ذاتی صلاحیتیں نکھارنے اور معیار زندگی بلند کرنے کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ پرسنل و پروفیشنل گروتھ زیرو، سوشل میڈیا پر ہیرو۔۔ جب افراد آگے بڑھتے ہیں تو معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ یہاں ریوڑ جمود کا شکار ہو چکا۔ آپ اس روئیے سے نکلیں گے، دوسروں کو جج کرنے اور ان پر نظر رکھنے اور ان پر بدتمیزانہ رائے دینے کے دائرے سے نکلیں گے تو خود پر نگاہ جائے گی ناں۔ کیا ہے یہ سب؟ یونہی کمنٹتے کمنٹتے قبر میں اتر جانا ہے؟ مہلت عمر تمام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔

دنیا میں کوئی شخص بیکار نہیں ہوتا المیہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتیں پہچاننے میں ہی ساری عمر گنوا دیتے ہیں۔ مجھے آئے روز ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن کا بھیجنے والا غربت، نامساعد حالات اور بیروزگاری کا رونا روتے کسی نوکری کی آس میں پیغام بھیج رہا ہوتا ہے۔ وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو سرکاری نوکری یا پرائیویٹ نوکری کر تو رہے ہیں مگر تنخواہ سے گزر بسر ناممکن ہو چکا ہے۔ ایسے پیغامات وصول پا کر میں خود پریشان ہو جاتا ہوں کہ اب ان کو کیا جواب دوں۔

دیکھیں، آج کا دور سرمایہ دارانہ نظام کا دور ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسا ہے کہ اگر آپ ذرا سے بھی قابل ہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کے حالات نہ بدل سکیں۔ آپ اپنے اندر ہنر پیدا کریں۔ آج کا دور یونیورسٹی ڈگری حاصل کرنے کا دور نہیں ہے۔ آج کا دور اسکلز کا دور ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ خداداد اور کچھ محنت کرکے پیدا کردہ اسکلز ہوتی ہیں۔ ان کو جس نے پہچان لیا وہ کامیاب ہے۔

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ آپ اپنی قیمت یا ویلیو کو پہچان لیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کی پہچان بھی نہیں ہو پاتی۔ اور یہ المیہ بڑے بڑے باہنر لوگوں کے ساتھ ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ کبھی بھی ایک انکم سورس پر انحصار نہ کریں۔ آپ کے دو یا دو سے زائد انکم سورس ہونا چاہئیے۔ آپ کے اندر ایسی قابلیت ہو کہ آپ مواقعوں کو دیکھیں اور ان مواقعوں سے فائدہ لیں۔ اگر آپ نے کچھ سرمایہ کما لیا ہے تو اسے کسی کام میں لگائیے نہ کہ بینک بیلنس کی صورت اکاؤنٹ میں رکھیں۔

میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جو قدرے باشعور، ہنرمند اور فیصلہ لینے کی قوت رکھتے ہیں۔ زندگی ڈرپوک انسان کے لیے ڈراؤنی ہی رہتی ہے۔ کامیاب وہ ہوتا ہے جو رسک لینا جانتا ہے اور رسک لیتا ہے۔ کاروبار کا خیال خود کو حاملہ کرنے جیسا ہے مگر یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ بچہ تندرست ہوگا کہ معذور۔ ذرا سی متعلقہ کاروباری میدان میں ریسرچ اور طلب و رسد کی معلومات لے لینے سے رسک فیکٹر صفر بھی کیا جا سکتا ہے۔

اپنی ذاتی زندگی سے کچھ مثالیں سمجھانے کو دے سکتا ہوں۔ سب سے پہلا نقطہ تھا کہ آپ کو باہنر بننا ہے اور تیسرا نقطہ کہ آپ کو اپنے انکم سورسز متعدد رکھنے ہیں۔ ذاتی طور پر میرے اندر خداداد ہنر ہے مگر اس کو پریکٹس کرکے سیکھا بھی جا سکتا ہے اور بہت بہترین سیکھا جا سکتا ہے۔ فوٹوگرافی سے میری آمدن مستقل طور پر وابستہ نہیں مگر یہ ایسا ہنر ہے کہ اس سے آمدن ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ سال کے اختتام پر نیشنل اور ملٹی نیشنل اداروں کو اپنی ڈائریز، کیلنڈرز اور دیگر مواد چھاپنے کو تصاویر کی ضرورت رہتی ہے تو یہ ہنر مجھے سال کے آخر میں سارے سال کی انکم دے دیتا ہے۔

دوسرا انکم کا سورس میری جاب اور کنسلٹنسی یا بزنس ہے۔ دو عالمی اداروں سے منسلک ہوں اور یہ سورس مستقل اور سارا سال ہے۔ تیسرا انکم سورس میری رائیٹنگ اسکلز ہیں جیسا کہ آکسفورڈ پریس نے اپنے تعلیمی نصاب کے لیے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ماؤنٹین رینجز پر کتابچے چھاپے تو مواد میرا استعمال کیا اور یوں مجھے یکمشت ادائیگی کے ساتھ ساتھ پانچ فیصد پبلشنگ رائٹس کی ادائیگی بھی ہوتی ہے جو میرے زندہ رہنے تک جاری رہے گی۔

پھر اسی طرح میں اگر ڈان کو کالم بھیجوں یا کسی بھی بڑے میڈیا ہاؤس کو تو فی کالم پندرہ سے بیس ہزار روپے ملتے ہیں۔ ماہ میں چار کالم بھی ہوں تو گھر کی گروسری کا خرچ تو نکل سکتا ہے ناں؟ پھر آپ نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ آپ اپنے ایسٹس کہاں انویسٹ کرتے ہیں۔ سیکئور انویسٹمنٹس آپ کو ماہانہ کچھ نہ کچھ منافع دے ہی دیتی ہیں اور یہ انویسٹمنٹس آپ کی لائف ٹائم ہوتی ہیں۔ اگر مزید کرنا ہو تو یوٹیوب اچھا سورس بن سکتا ہے مگر میں اپنے کاموں میں اتنا الجھا ہوا ہوں کہ آج تک یوٹیوب چینل بنانے کی زحمت تک نہیں اٹھا سکا۔ علاوہ ازیں اگر انرجی ہو اور سکت ہو تو کئی کاروباری مواقع سامنے آتے رہتے ہیں جو آپ کو شارٹ پریڈ میں منافع دے سکتے ہیں۔ سفر کرنے والے انسان اور دیگر ممالک کی معلومات رکھنے کے ساتھ "ویل کنیکٹڈ" انسان کے سامنے تو دنیا ننگی اور کھُلی ہوتی ہے۔ کمرشل فوٹوگرافی یعنی ویڈنگز، ایونٹس، انڈسٹریل وغیرہ وغیرہ کی جانب بھی دھیان نہیں جا سکا۔ الغرض کمانے کے مواقع ہر باہنر انسان کے پاس متعدد ہوتے ہیں۔

دوسرا نقطہ جو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی مارکیٹ ڈھونڈنے، خود کو اس میں مارکیٹ کرنے اور اپنی ویلیو یا قیمت کا تعین کرنے میں ہی عمر گذار جاتے ہیں۔ باہنر ہونا کافی نہیں ہوا کرتا۔ آپ لاکھ باہنر ہوں مگر آپ اس سے آشنا ہی نہ ہوں کہ آپ کے فن یا سروسز کی قیمت اور ان کی مارکیٹ کیا ہے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک عمر میں نے بھی ایسی گذاری ہے جہاں مجھے خود اپنی قیمت کا اندازہ نہیں تھا اور اسی میں خوش ہو جاتا تھا کہ کچھ بک ہی گیا ناں۔

مثال کے طور پر ایک ادارے سے کال آنی کہ آپ کی بارہ عدد یا فلاں عدد تصاویر چاہئیے سالانہ کیلنڈر کے لیے تو آپ کیا چارج کریں گے۔ میں نے بہت چھلانگ لگانی تو جھجھکتے جھجھکتے کہہ دینا "پانچ ہزار فی تصویر"۔ اور اگلے ہنسی خوشی ڈن کر لیتے۔ میں بھی خوش ہو جاتا۔ کچھ شعور آیا تو معلوم ہوا کہ اداروں کے پاس تو ایڈورٹائزری بجٹ ہی کروڑوں میں ہوا کرتا ہے۔ صاحبو ایک دن میں یونہی مالی حالات سے پریشان بیٹھا تھا۔ یہ آج سے سات آٹھ سال قبل کی بات ہے۔ مسلم کمرشل بینک جو اب ایم سی بی ہے اس نے رابطہ کیا۔ وہ کیلنڈر کرنا چاہتے تھے۔

میں اکتایا ہوا تھا سوچا کہ جتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ ان سے ہی نکال لوں ورنہ نہیں تو نہ سہی۔ میں نے ان کو پچاس ہزار فی تصویر کہہ دیا۔ میرے لیے پہلا جھٹکا یہی تھا کہ وہ فوری مان گئے۔ چھ لاکھ میں ان کو بارہ تصاویر بنا ٹیکس کے بیچ دیں۔ مزے کی بات آگے ہے۔

اس کے بعد میں کبھی نہیں رکا۔ جو جو ادارہ رابطہ کرتا میں قیمت بڑھاتا گیا۔ ایک بار نیسلے نے رابطہ کیا اور کہا کہ رمضان کمپین میں ان کو میری چھ تصاویر چاہئیے جو وہ پوسٹ کارڈ بنا کر اپنی ہر آئیٹم کے ساتھ منسلک کریں گے۔ نیز یہ کہ فوٹوگرافر کا نام یا کریڈٹ بھی نہیں دیا جائے گا صرف و صرف نیسلے کا مونوگرام ہی ہوگا۔ تیسرا یہ کہ وہ تصاویر میں نے کہیں پوسٹ بھی نہ کیں ہوں۔ اتنی ڈیمانڈز سن کر میں نے ان کو پانچ لاکھ فی تصویر کوٹ کر دیا کہ جب کاپی رائٹس بھی میرے نہیں، نام بھی میرا نہیں لکھنا اور کام بھی وہ جو فریش ہو یا جو پبلک پوسٹ نہ ہوا ہو تو پھر یہی قیمت ہے۔ نیسلے مان گیا۔

اس سے بھی بڑھ کر سن لیں۔ ہمارے ایک بہت اچھے، مجھ سے سینئیر اور انتہائی شاندار فوٹوگرافر ہیں۔ فاطمہ فرٹلائزر نے رابطہ کیا اور بولے کہ کچھ تصاویر آپ کی ہم منتخب کر چکے ہیں مگر کچھ ان صاحب کی ہیں تو کیا آپ ہمیں یہ تمام تصاویر مینج کر دیں گے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ میں ان فوٹوگرافر سے رابطہ کرکے ان سے بھی لے لوں اور اپنی منتخب شدہ بھی ڈال کر ان کو ایک ساتھ ساری بھیج دوں۔ میں نے قیمت طے کی اور ٹھوک بجا کر کی۔

اب مرحلہ آیا ان صاحب سے تصاویر لینے کا تو میں نے کال کی اور کہا کہ مجھے فلاں فلاں فلاں تصاویر آپ کی چاہئیے۔ کیلنڈر کے لیے چھپیں گیں۔ آپ بتائیں فی تصویر کیا لیں گے؟ بولے " بخاری یار، دیکھ لو خود ہی۔ میں سات ہزار فی تصویر دے دیتا ہوں۔ پر تم کہہ رہے ہو تو چلو پانچ ہزار کر لو"۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ سر جی کو اپنی ویلیو کا آج تک اندازہ نہیں ہو سکا۔ خیر، کام ہوگیا۔ پیمنٹ ملی۔ ان کے دفتر چلا گیا۔ ان کی چھ عدد تصاویر کے میں نے ان کو ڈھائی لاکھ دئیے تو ان کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ مجھے خوشی سے گلے لگا کر بولے "بخاری توں کمال کر دتا"۔ میں نے کہا " سر، نہیں کمال آپ کا ہی ہے۔ بس آپ کے فن کی قیمت ٹھیک وصول کی ہے"۔

اتنا لمبا مضمون لکھنے کا ایک ہی مقصد ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا پہچانیں، بروئے کار لائیں، سمارٹ بنیں، دنیا کی کوئی طاقت اس سرمایہ دارانہ نظام میں آپ کا حصہ مارنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ میں سے کوئی بیکار انسان نہیں ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ صلاحیت ہے۔

میں ایسے بہت سے لوگوں کو ملا ہوں جن کے اندر کوئی غیر معمولی صلاحیتیں نہیں ہیں مگر وہ کامیاب ہیں۔ وجہ بس یہ کہ ان کی اپنے شعبے میں ریسرچ ہے کہ کیا چل رہا ہے اور کیا بِک رہا ہے۔ نوکری کریں مگر ساتھ ساتھ وہ کام بھی کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔ رسک شرط ہے۔ بنا رسک لیے آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ یہ رونا چھوڑ دیں کہ مالی حالات اچھے نہیں۔ نوکری کی آس بھی کسی سے نہ رکھیں۔ کوئی آپ کا ہاتھ نہیں پکڑے گا۔

والدین سے گذارش ہے کہ اپنے بچوں کو ووکیشنل انسٹیٹیوٹس سے پڑھائیں۔ ان کے اندر اسکلز ڈویلپ کریں۔ ان کی ٹیکنیکل ڈگری کروائیں جس کی دنیا کو ضرورت ہو۔ ڈگری برائے ایجوکیشن کو چھوڑ دیں۔ ڈگری برائے اسکلز ڈویلپمنٹ ہو۔

یہ بھاشن نہیں دے رہا۔ لوگوں کے، سماج کے، دوستوں کے حالات دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ کڑھتا ہے تو لکھ کر بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ اگر کوئی ایک فرد بھی اس پر سوچنے لگے تو میری کوشش کامیاب ہوئی۔ اگر نہیں کوئی سوچتا تو میرا کیا بگڑ جاتا ہے۔ لگے رہیں دوسروں پر دانت نکالنے، طعنے کسنے، ٹرول کرنے، کتیاپہ کرنے، اختلاف رائے کو ذاتی رنجش بنانے، دوسرے کی سوچ کے ساتھ اس کی ذات سے نفرت کرنے۔ آپ اپنا نقصان ہی تو کرتے ہیں۔ آپ وہیں کھڑے رہ جائیں گے اور جب احساس ہوگا کہ عمر رائیگاں جا رہی تب وقت بِیت چکا ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا کُل وقتی توجہ اور وقت لے جاتا ہے۔ آپ کس قیمت پر اس کا استعمال کر رہے ہیں کبھی یہ سوچا ہے؟ اپنا سکون، چین، کاروبار، فیملی ٹائم کی قیمت پر۔ چھوڑیں یہ سب اور اپنی ذات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں۔ جب کامیاب ہو جائیں، اپنے گھریلو و معاشی حالات بہتر بنا لیں پھر عمر پڑی ہوگی دانت نکالنے، ٹرول کرنے، اور طعنے کسنے کو(اگر اسی میں خوشی میسر ہوتی ہے)۔

ہر انسان کے لیے وہی ہے جتنی اس نے سعی کی۔ القرآن

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra