Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Begum, Turkey Aur Main

Begum, Turkey Aur Main

بیگم، ترکی اور میں

کل شب گھر داخل ہوا تو ٹی وی سکرین کے سامنے بچوں کے ساتھ بیگم اشکبار بیٹھی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی کہ ہوگا کسی ڈرامے کا جذباتی سین۔ کچھ عرصہ قبل ارطغرل چلتا تھا تو ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ بیگم اتنے انہماک سے وہ دیکھتی کہ گاہے گاہے روہانسی ہو جاتی۔ اس دوران اگر میں ہنس پڑتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا۔ عافیت اسی میں جانتا تھا کہ اس دوران چپ رہا جائے۔

ایک بار تو ہلکی پھلکی نوک جھونک اس بات پر ہوگئی کہ "یہ دیکھیں وہ (ارطغرل) اپنی ہونے والی بیوی سے کیسی شاعرانہ گفتگو کر رہا ہے اور آپ نے آج تک بیگم سے بھی اس قسم کا ایک جملہ نہیں بولا۔ یوں تو آپ لکھاری ہیں مگر بد ذوق لکھاری"

ابھی اس غیر متوقع حملے کو اپنی ڈھال پر سنبھالنا ہی چاہ رہا تھا کہ بیگم نے دوسرا وار سیدھا گردن پر کر دیا۔ بولی " اگر آپ اس دور میں ہوتے تو مجھے یقین ہے آپ منگولوں کے دستے کے کمانڈر ہوتے"۔ میں نے کٹ کر گرنے سے پہلے دبے لفظوں کہا کہ بیگم میں حسبی نسبی سید ہوں، منگولوں کے دستے میں کیوں ہوتا؟ بیگم نے اب کے تلوار دل بھی پیوست کرتے جواب دیا "شکل مومناں، کرتوت کافراں"

وہ جب جب ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی میں گھر کے دوسرے گوشے میں سہما پڑا رہتا کہ نجانے کب ڈرامے کے کسی سین سے کوئی ایسا کبوتر نکل آئے جو سیدھا اڑ کر میرے سر پہ آن بیٹھے اور وہیں بیٹ کر جائے۔

ڈرامے نے بیگم پر وہ روحانی نقوش چھوڑے کہ اس نے فرمائش کر دی کہ اس بار ترکی جانا ہو تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔ بلآخر میں اسے ترکی لے گیا۔ اس نے ارطغرل کے مزار مبارک پر حاضری دی۔ وہ قبر مبارک کے اطراف تادیر فاتحہ خوانی کرتی رہیں۔ وہاں سے نکلے تو گاڑی میں بھی چپ چپ سی رہیں۔ میں نے چپ رہنے کی وجہ دریافت کرنا چاہی تو بولیں" میں سوچ رہی تھی کہ ہم کتنی خواہش کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد اپنے والدین کی قبر کے برابر میں دفن ہوں مگر یہ دیکھیں کہ ارطغرل سوگت شہر میں دفن ہوئے اور ان کا بیٹا عثمان دور برصہ شہر میں دفن ہے۔ " مجھے عقیدتمندانہ گفتگو سن کر ہچکی لگ گئی۔ پھر بولیں" ہمیں ایسی خواہش نہیں رکھنی چاہیے۔ بس جہاں موت آئے وہ کامل ایمان کے ساتھ آئے اور وہیں دفن کر دیا جائے"۔ پھر بولی " اب برصہ کس دن جانا ہوگا؟"۔

مجھے کھانسی کا دورہ پڑا۔ سردی کافی تھی۔ گلہ خشک ہوگیا۔ اگلے دن میں اسے برصہ لے گیا۔ عثمان کی قبر پر وہی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ وہاں سے باہر نکلا ہی تھا کہ پھر بیگم نے سوال داغا " یہ سلیمان شاہ کی قبر کہاں ہے؟"۔ مجھے سچ پوچھئے تو معلوم نہیں کہ سلیمان شاہ کون ہے اب۔ مجھے یہ لگا کہ بیگم نے ترکی میں ایک اور دربار ڈھونڈنا ہے شاید۔ میں نے جواب دیا " مجھے نہیں معلوم سلیمان شاہ کہاں ہے"۔ اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بیگم نے منہ بسورتے قدرے غصے سے کہا " ہاں ہاں۔ آپ مجھے بتانا ہی نہیں چاہتے۔ تا کہ مجھے وہاں نہ لے جانا پڑے۔ آپ مجھے ترکی کیوں لے آئے؟ بتائیں مجھے کیوں لائے ساتھ؟ اگر آپ نے نہیں لے جانا تھا تو مجھے نہ لاتے۔ خود آپ چرچوں، مندروں اور مسجدوں میں دنیا بھر میں اکیلے گھومنے چلے جاتے ہیں اور میں کچھ پوچھوں تو ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں"۔

بس دوستو۔ یہ جو اچانک وار میری گردن پر ہوا یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مجھے قسم سے نہیں معلوم تھا کہ ارطغرل صاحب کے ابا حضور کدھر دفن ہیں۔ میں نے بصد ادب عرض کی " قسم اللہ کی بیگم مجھے سچ میں نہیں معلوم۔ ورنہ یہاں لے آیا تو وہاں بھی لے ہی جاتا"۔ بیگم نے جواب دیا " اوکے۔ میں گوگل کر لیتی ہوں"۔

گوگل پر ان کو شاید ٹھیک سرچ کرنا نہیں آیا یا نجانے کیا ہوا۔ بہرحال وہ گوگل کرکے ناامید ہوگئیں اور پھر کچھ دیر بعد ان کا مزاج بھی نارمل ہوگیا۔ اب سفر خوشگوار طے ہو رہا تھا۔ بیگم سب بھول کر باتیں کرنے اور میرے مزاحیہ جوابات پر ہنسنے میں مشغول رہی۔ پھر آؤٹ آف دی بلیو انہوں نے ایک اور سوال داغا۔

" یہ آپ نے ارطغرل کے مزار پر ویلاگ بناتے ہوئے بھی اور جب موبائل سے لائیو جا رہے تھے تب بھی کئی بار ایک جملہ دُہرایا کہ " ہمیں ارطغرل کے گھوڑے لگا دیا اور خود ترک لوگ لبرل ہو گئے"۔ یہ گھوڑے لگانا کیا ہوتا ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی"۔

اب یہ سوال سن کر مجھے ہنسی آ گئی۔ اس کی تشریح کیا کرتا؟ میں نے ہنستے ہنستے کہا " بیگم وہ بس ویسے ہی۔ یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں۔ بس یونہی فینز سے مزاق کر رہا تھا"۔ بس عزیزو، بیگم کا پارہ پھر چڑھ گیا اور پھر وہی گردان شروع ہوگئی کہ آپ مجھے کچھ بتانا ہی نہیں چاہتے تو لائے کیوں تھے؟ بڑی مشکل سے اسے اس تشریح پر یقین دلا کر راضی کیا " بیگم میرا مطلب تھا کہ ہمیں گھوڑے کی زین پر سوار کروا دیا ترکوں نے۔ بچہ بچہ پاکستان میں تلوار تھامے ہوائی گھوڑے پر چڑھا ہوا ارطغرل بنا ہوا ہے جبکہ خود یہ تم دیکھ لو کہ ترک کیسے آزاد خیال لبرل مسلمان ہیں"۔

وہ کچھ دیر بعد پھر مطمئن ہوگئی۔ سفر پھر خوشگوار کٹنے لگا۔ اس شام میں ترکی کے شہر "ایسکی شہر" پہنچا۔ اپنے اپارٹمنٹ میں چیک ان کروا کر ابھی سکون سے صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ بیگم کی آواز آئی " اچھا۔ یہ یونس ایمرے کا مزار کہاں ہے؟"

یہ سوال سنتے ہی مجھے غشی طاری ہونے لگی۔ یونس ایمرے ترک شاعر تھا۔ صوفی تھا۔ اس نے فلسفہ صوفی ہی شاعری میں پیش کیا۔ مگر اس کی قبر سوا سو کلومیٹر پیچھے راہ میں چھوڑ آئے تھے اور اب واپس اس جانب کا سفر نہیں تھا بلکہ ایسکی شہر سے آگے کیپیڈوکیا کی جانب سفر تھا اس لئے میں سوا سو کلومیٹر واپس نہیں جانا چاہتا۔ ایک لحظہ سوچ بچار کے بعد بیگم کو جواب دیا

" یار وہ صوفی شاعر تھا۔ اور وہ بحری سفر کے دوران سمندر میں ڈوب گیا"۔ اللہ کا شکر بیگم نے یقین کر لیا اور گوگل سے مدد طلب نہیں کی۔

ذکر کر رہا تھا کہ گذشتہ شب جیسے ہی گھر میں داخل ہوا جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ انکشاف ہوا کہ بیگم بچے یوٹیوب پر قطر، عراق و بحرین کی مشترکہ پیشکش ڈرامہ سیریز "عمر" دیکھ رہے ہیں۔ یہ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن الخطاب (ر) کی سوانح حیات پر بنائی گئی ہے۔ جس سین پر وہ جذباتی ہو رہے تھے وہ قریش مکہ کی جانب سے عمار یاسر (ر) اور ان کے والدین پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سین تھا۔

بیگم نے مجھے دیکھتے ہی سوال داغا" عمار یاسر(ر) کے والدین کو بے دردی سے ابوجہل نے شہید کر دیا تھا۔ ان کی والدہ سمیعہ خاتون اسلام کی پہلی عورت شہید ہیں۔ یہ عمار یاسر (ر) کی وفات کیسے ہوئی تھی؟"۔ یہ سوال سنتے ہی میں نے ڈھیلے گھمائے اور سوچا کہ اس کا جواب دیا تو کہیں پھر گھن گرج کے ساتھ بارش نہ برس جائے۔ جواب ذرا تاریخی اعتبار سے اوکھا ہے۔ خیر، نتیجہ یہ نکلا کہ بیگم نے جواب نہ پا کر گوگل کیا اور گوگل کا جواب سُن کر پھر روہانسی ہوگئی۔

عمر سیریز میں نے دیکھ رکھی ہے۔ قطر کی اچھی پروڈکشن ہے۔ کٹر طبقہ فکر کا خیال ہے کہ اس سیریز میں حضرت عمر، حضرت ابوبکر و حضرت علی سمیت مقدس ہستیوں کو انسانی شکل میں نہیں دکھانا چاہئیے تھا۔ شاید وہ اپنی جگہ ٹھیک ہوں مگر بطور معتدل ناظر اور تاریخ کو فلم کی صورت دیکھوں تو مجھے اس میں کوئی اعتراض نظر نہیں آتا۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar