Bane Hain Dost Naseh
بنے ہیں دوست ناصح

جیسے کراماً کاتبین آزو بازو اعمال نوٹ کرنے بیٹھے ہوتے ہیں ویسے ہی کچھ مداح بھی کراماً کاتبین ہوتے ہیں۔ یعنی چپ، غائب، پوشیدہ۔ مگر جیسے ہی آپ کوئی املا کی غلطی کر جائیں توں ہی ان کا سرکٹ آن ہو جاتا ہے اور کمنٹ یوں آتا ہے "میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں مگر یہ دیکھیں آپ غلطی کر رہے"۔ سارا سال چپ تے غلطی ہوتے ہی پھُرتیاں۔
وہیں کچھ لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی تنخواہ پوچھنے سے لیکر آپ کی ذاتی زندگی سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ کچھ آپ کو تبلیغ کرنے آتے ہیں اور کچھ عقائد درست کرنا چاہتے ہیں۔ ان منکر نکیر انسانوں کو تو میں یومِ حشر پر ٹال دیتا ہوں۔ اوتھے ای ملاقات ہو سی۔
ان سب کے بعد وہ لوگ ہیں جن کا بیرومیٹر خراب ہے۔ یا ان کے دماغ کو ان کا نرو سسٹم رانگ سگنلز بھیج رہا ہے۔ یا ان کے چِپ سیٹ میں شارٹ سرکٹ ہے یا بائنری کوڈنگ غلط ہے جو 1 کو آف اور 0 کو آن سمجھ رہی ہے یا یہ سمے کے دھارے میں بہتی ٹراؤٹ مچھلیاں ہیں جو مخالف سمت کو بہتی جا رہی ہیں۔ وہ سنجیدہ پوسٹ پر لافٹر ری ایکٹ کرتے ہیں اور مزاحیہ طربیہ پر رونے لگتے ہیں۔
پیچھے چند ایسے مداح بچتے ہیں جو ہر دھن پر مست رہتے ہیں۔ ان کا کام خلوص دل سے لائک دینا۔ گاہے گاہے کمنٹ کرنا اور پھر آگے بڑھ جانا ہے۔ ایسے سچے مداح ہیں کہ میری اداس تحریر پر مجھ سے زیادہ اداس فِیل کرنے لگتے ہیں اور مزاح پر اتنا ہنستے ہیں اتنا ہنستے ہیں کہ مجھے رونا آ جاتا ہے اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آیا کیا یہ واقعی اتنی مزاحیہ تحریر تھی یا ان کی ڈیوٹی ہنسنے کی لگی ہوئی ہے۔
جہاں تک بات رہی آج کے زمانے میں دوستوں کی، تیزی سے بدلتے زمانے میں دوستی کے معنیٰ بدل چلے ہیں۔ انسان دوسرے انسان کے ساتھ ہمیشہ مفاد کے رشتے سے جڑا ہے مگر دوستی ایسا ناطہ تھا جس میں دل جڑتا تھا۔ وہ بھی اب گئے زمانوں کا قصہ لگتا ہے۔ اب پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامنے والے کی نیٹ ورتھ کیا ہے، اس کے تعلقات کی جڑیں کہاں تک پھیلیں ہیں اور اس سے جڑنا کتنا مفاد میں اور کتنا نقصان میں ہو سکتا ہے۔ کیا یہ بوقت ضرورت میرا کام کر سکتا ہے (چاہے کام اگلے کے اختیار سے باہر ہی ہو)۔
دوستی کے لغوی معنیٰ دکھ درد کا ساتھی، اونچ نیچ کا ہمدرد ہونے کے ساتھ دوست کی ذاتی یا پرائیویٹ سپیس کا خیال رکھنا ہے۔ چچا غالب کہتا ہے ناں
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
اور بدقسمتی سے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کئی دوست بالکل سعودی عرب جیسے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جن سے تعلقات خراب ہیں تو آپ بھی ان سے سارے تعلقات ختم کر دیں اور جب ان کے تعلقات اچھے ہوں تو آپ بھاڑ میں جائیں۔
کچھ دوست ایران جیسے بنتے ہیں۔ آپ کے دشمن سے تعلقات بناتے ہیں اور پھر اس سے ٹھوکر کھا کر آپ کی جانب آ جاتے ہیں۔
کچھ دوست امریکا کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ وہ جو کام کہہ دیں وہ ہر صورت ہونا چاہئیے، چاہے اگلا وہ کام سرانجام دینے سے قاصر ہو یا اس کے اختیار سے باہر ہو۔
کچھ دوست نواز شریف صاحب کی مانند ہوتے ہیں۔ جب مصیبت میں ہوں تو پاؤں پڑ جاتے ہیں۔ جب آسودہ ہوں تو گلے پڑ جاتے ہیں۔
کچھ دوست عمران خان صاحب کی طرح ہوتے ہیں۔ ہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ ناراضگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور محفل میں بیٹھے کسی کی نہیں سنتے بس اپنا ہی ذکر کرتے رہتے ہیں۔
کچھ دوست مولانا فضل الرحمٰن کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ ہر محفل میں اور ہر مزاج کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔
کچھ دوست زرداری صاحب کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ دوستوں سے بھی اپنی کمیشن لینا نہیں بھولتے۔
کچھ دوست صرف مالی تبادلے کے مطمع نظر دوست ہوتے ہیں۔ یعنی ان کو آپ سے صرف مال چاہئیے وہ بھی غیر معینہ مدت کے واسطے یا ان کی معین کردہ مدت کے واسطے جو کبھی نہیں آتی۔
آپ کسی دوست کے کام سے معذرت کرکے دیکھ لیں۔ اسی لمحے وہ ناراض ہو جائے گا (چاہے ناراضگی کا اظہار کرے یا نہ کرے)۔ دل میں بدگمانیاں پالنے لگے گا اور کچھ تو یہاں تک سوچنے لگتے ہیں کہ خود تو آسودہ حالی سے جی رہا ہے میرا کام کیوں نہیں کر سکتا تھا۔ یعنی وہ یہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کا کام کر دیا جائے چاہے تم اپنا کچن کمپرومائز کرو یا اپنا لائف سٹائل۔
مجھے نہیں معلوم ایسی دوستیاں کتنا عرصہ اور کہاں تک چل سکتیں ہیں البتہ یہ معلوم ہے کہ انجام بالخیر نہیں ہو سکتا۔ ایسے تعلقات کو کوئی بھی اچھا سا خوشنما نام دے لیجئیے مگر اسے دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میں اس دور میں اگر دوستیاں کرنے، تعلقات پالنے اور ملنے ملانے سے ریزرو رہتا ہوں تو اس کی وجوہات ہیں اور جو شاید قدرے جائز ہیں۔ سات سمندر دیکھے ہیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے، دیکھا ہے بہت کچھ اور بھگتا ہے بہت کچھ۔
گئے برسوں کی بات ہے۔ میں نے جرمن شیفرڈ نسل کا ایک کتا پالا تھا۔ تین ماہ کا بچہ ملا تھا۔ اس کا ساتھ چھ ماہ رہا۔ وہ بیمار پڑا، ہر ممکن علاج کروایا مگر جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی موت پر میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس کو گھر سے دور ایک خالی پلاٹ میں دفن کرتے میرے آنسو تھمتے نہیں تھے۔ چار دن اداسی ڈیرہ لگائے رہی۔ اس کا گھر جو میں نے خود بنایا تھا وہ جب خالی نظر آتا میری آنکھیں نم ہو جاتیں۔ چار دن بعد میں نے اس کا سارا ساز و سامان بمعہ گھر اکھاڑ دیا۔ اس کی ساری نشانیاں مٹا دیں۔ اس دن قسم کھائی کہ آئندہ کوئی جانور نہیں پالنا اور پھر میں نے آج تک کوئی جانور نہیں پالا۔
میرے اس پالتو کتے کا نام میں نے "Ruby" رکھا تھا۔ وہ یوں کہ جس دن وہ گھر میں آیا اس کے گلے میں اس کو بیچنے والے نے ایک لاکٹ پہلے سے ہی ڈال رکھا تھا جس میں روبی جم سٹون چمک رہا تھا۔ اس نے وہ اتارنا مناسب نہیں سمجھا اور یونہی میرے حوالے کر دیا۔ جب اسے دفنا رہا تھا تو اس کے گلے میں لٹکتا لال سرخ پتھر سورج کی کرنوں سے چمک رہا تھا۔ آج بیٹھے بیٹھے وہی چمک آنکھوں میں پڑنے لگی۔
بقول یوسفی" انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ "۔ آپ کا جانور سے باہمی مفاد، پند و نصوح کی بجائے دوستی کا تعلق بنتا ہے اور وہی خالص دوستی ہوتی ہے۔ اس موضوع پر میری زندگی کے کچھ نچوڑ ہیں۔
۔ میں اس بات کا حامی ہوں جو حضرت علی (ع) کا قول ہے " جو ذرا سی بات پر دوست نہ رہے وہ کبھی دوست تھا ہی نہیں"۔
۔ جو آپ پر حاوی ہونا چاہے، آپ کو اپنے زیر اثر رکھنے پر تُلا ہو، آپ پر یکطرفہ حق جماتا ہو وہ دوست ہے ہی نہیں۔
۔ جو صرف کام پڑنے پر رابطہ کرتا ہو اس سے ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے معذرت کر لیں۔
۔ جو حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے آپ کو آپ کے مفاد میں پند و نصوح کرے اسے ضرور سنو، پرکھو اور ہو سکے تو عمل کرو۔ لیکن اگر وہ ہر دم آپ کو بچہ اور خود کو بڑا سمجھتے ہوئے پند و نصوح ہی کرتا رہے تو پھر اسے اگنور کرو۔ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں اور تعلق بچانا چاہتے ہیں تو بس چپ رہیں۔ عقلمند ہوا تو خود سمجھ جائے گا وگرنہ ایک دن خود ہی تھک کر خاموش ہو جائے گا۔
۔ جو دوست آپ کو اے ٹی ایم سمجھتے ہوئے صرف پیسوں کے لین دین کو معمول بنانے لگے اس سے ریزرو رہو۔
۔ جو آپ کو کوئی ایسا کام کہہ دے جو آپ کے بس میں نہ ہو اور انکار پر الٹا ناراض ہو جائے تو اسے جانے دو۔ اس کی پرواہ کرنا بے سود ہوگا۔ جو آپ کو نہیں سمجھ سکتا وہ آپ کا ہے ہی نہیں۔
اپنی ساری عمر میں میں نے جانا تو یہ جانا کہ دوست وہ ہے جو آپ کی ناکامیوں میں دُکھی، آپ کی اچیومنٹس میں خوش، آپ کے بلنڈرز میں ہنس مُکھ ناصح، آپ کی کنفیوژن میں کلئیر مائنڈ کا مالک، اندھیرے میں روشنی، نااُمیدی میں اُمید دلانے والا، ذاتی مفاد کو دوستی پر قربان کرنے والا، آپ کے راز کو اپنا راز سمجھ کر پردہ پوشی کرنے والا اور آپ کی ہر حالت میں آپ کا حسبِ حال ہو۔ اگر کوئی ایسا مل جائے تو خود کو واقعی خوش نصیب جانیں۔
بہرحال جو بھی ہے بھائیو اور لیڈیز۔ یہ چار دنوں کا میلہ ہے۔ زندگی کی تلخیوں سے عارضی فرار ہے۔ کوئی سدا کا چڑچڑا ہے تو کوئی مزاجاً ہنس مُکھ۔ کوئی قنوطی ہے تو کوئی شرارتی۔ یہاں لکھا ہوا چوبیس گھنٹے سے زیادہ اثر و عمر نہیں رکھتا۔ اگلے روز تک سب فوت ہو جاتا ہے، پھر نیا دن نئی بات۔ افکار، دانش اور تحاریر کی قبریں بنتیں جاتیں ہیں۔ کسی معاملے کی عمر چوبیس گھنٹوں سے زائد نہیں۔ کچھ پائیدار نہیں کچھ مستحکم نہیں۔ یہاں لکھاری اور قاری میں ڈوپامین کا تعلق ہے۔ ہم نے اپنی تحریروں یا فن سے اپنے قارئین کو کتنی ڈوپامین فراہم کی اور انہوں نے اس تحریری، بصری یا صوتی نمونے کو سراہ کر ہمیں کتنی ڈوپامین دی۔
ڈوپامین ایک ایسا کیمیائی عنصر ہے جو انسانی جسم میں قدرتی طور پر پایا ہے اور اس کیمیکل کے اخراج کے ساتھ انسان خوشی محسوس کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کو دانستہ طور پر بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ انسان اس میں بہت مشغول ہو جاتا ہے جس کے باعث "ڈوپامین لوپ" ہو جاتا ہے اور وہ اپنا سوشل میڈیا بار بار چیک کرتا ہے کہ کون سا نیا مواد پوسٹ ہوا ہے۔ اس لوپ کے باعث ہم کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتے اور زیادہ دیر تک کسی ایک چیز پر فوکس بھی نہیں کر سکتے۔
یہ تعلقات بھی انٹرنیٹ کے کلاؤڈ میں ہیں۔ ڈیجیٹل ایرا میں خوش آمدید۔ بس ایک بات آخر میں کہنا چاہوں گا ہو سکے تو اس کو نہ بھولئیے گا۔
ہم لوگ جب کسی کو زیاده نہیں جانتے تو اس کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کر لیتے ہیں یا کچھ لوگ خوامخواہ بدگمانیاں پیدا کروا دیتے ہیں۔ میرا تجربه ہے اور مشوره بھی ہے که جب کسی کے بارے بدگمانی پیدا ہو تو اس انسان کو جاننے کا تکلف ضرور کیا کریں۔ باقی سب تو خیر ہے۔ آنیاں جانیاں ہیں۔ چل چلاؤ ہے۔ نہ سوشل میڈیا کے تعلقات کو اس قدر سنجیدہ لیں کہ ان کے ختم ہو جانے پر دل دُکھے اور نہ ہی اس قدر ہلکا لیں کہ اگلے کی عزت پر حملہ آور ہو جائیں۔ باقی کیا دوستیاں اور کیا مرشدی و سیدی۔ محسن بھوپالی کا شعر ہے
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

