Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bakamal Log, Lajawab Service

Bakamal Log, Lajawab Service

باکمال لوگ، لاجواب سروس

ذرا اپنے اردگرد نگاہ ڈالیے۔ آپ کو بھانت بھانت کے آمرانہ اور جمہوری نمونے دکھائی دیں گے۔ کچھ پسند آئیں گے، کچھ بالکل نہیں آئیں گے۔ مگر ان دونوں طرح کے نمونوں میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ یہ جیسے دکھائی دیتے ہیں اندر سے بھی ویسے ہی ہیں لہذا ان ماڈلز کا اپنے بارے میں نہ تو معذرت خواہانہ رویہ ہے اور نہ ہی منافقانہ۔

مثلاً چین میں کیمونسٹ پارٹی کی آمریت ہے سو ہے۔ جب تک چینی سوشلزم کے کسانی ماڈل کو ضروری سمجھا اپنائے رکھا۔ پھر ایک دن فیصلہ ہوا کہ " اگر بلی چوہے پکڑ سکتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بلی سفید ہے یا سیاہ"۔ چنانچہ سوشلزم میں سرمایہ داری کا تڑکا لگا دیا گیا۔ ماؤ کو تاریخ کے منبر پر بٹھا کر سلام کیا اور زمانہ آگے بڑھ گیا۔

چینی کیمونسٹ پارٹی کو ایک زمانے تک شخصی آمریت کے فوائد نظر آئے تو اسی پر اتفاق رہا۔ پھر پارٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ تاحیات شخصی حکمرانی ملک کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہے تو پارٹی نے ہر دس برس بعد اعلی قیادت کو گردشی انداز میں تبدیل کرنے کا راستہ اختیار کر لیا۔ اب پارٹی کو لگتا ہے کہ تسلسل کے لیے ایک شخص کی مسلسل قیادت ضروری ہے تو اس نے موجودہ صدر کو اکسیویں صدی کا ماؤزے تنگ بننے کا راستہ دے دیا۔ کل پارٹی سمجھے گی کہ یہ تجربہ درست نہیں تو کوئی اور راستہ ڈھونڈ لے گی۔

روس کو دیکھ لیں۔ بھلے پوٹن کا طرزِ حکمرانی کسی کو پسند آئے نہ آئے وہ بہرحال چوتھی بار صدر بن گئے۔ پوٹن نے کبھی نہیں چھپایا کہ وہ شخصی آمر ہیں، حزبِ اختلاف کو تب تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ سنجیدہ چیلنج نہ بن جائے ورنہ چیلنجرز کو جیل بھیجنے یا راستے سے ہٹا دینے کے بیسیوں طریقے بھی موجود ہیں۔ بھائی پوٹن اتنے پراعتماد اور صاف گو ہیں کہ آخری انتخابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ کتنے فیصد ووٹ پڑتے ہیں۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ اگلی مدت حاصل ہو جائے۔ کیونکہ اس وقت میں ہی بہترین انتخاب ہوں۔

ایران نے سوائے بادشاہت کے کبھی کچھ نہیں دیکھا۔ ڈھائی ہزار برس دنیاوی بادشاہت کی قید میں رہا، چالیس برس سے روحانی بادشاہت کے زیرِ انتظام ہے۔ اس ڈھانچے کے تحت سیاسی و عسکری نظام پہلے شخصی بادشاہت کے تابع تھا، اب روحانی آمریت کے تابع ہے۔ بنیادی حقوق طے شدہ دائرے کے اندر ہی استعمال ہو سکتے ہیں۔

دائرے سے باہر نکلنے والوں کے لیے کوئی رعایت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ آپ اس نظام پر بھلے طعن و تشنیع کے ترکش خالی کر دیں مگر ایران میں جو بھی نظام ہے وہ دھڑلے سے ہے اور اپنی رٹ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بھارت پر اگرچہ ہندو فاشزم کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پھر بھی وہاں ایک آئینی و قانونی ڈھانچہ سات دہائیوں سے ملک کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ یہ آئینی ڈھانچہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی جھیل گیا اور مودی کا فاشزم بھی جھیل رہا ہے۔

کچھ چیزیں شروع سے طے ہو گئیں اور اب تک طے ہیں۔ یعنی کوئی بالائے آئین قدم برداشت نہیں ہوگا۔ بنیادی حقوق پوری طرح سے عملاً نہ بھی مل پائیں پھر بھی کاغذ پر لکھے ان حقوق کو کوئی بھی اچھے خان نہیں چھیڑ سکتا۔ انتخابات مقررہ وقت پر خود مختار الیکشن کمیشن کے تحت ہوں گے اور انہیں کسی بھی بہانے سے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کی رضامندی کے بغیر آگے پیچھے نہیں کیا جا سکے گا۔

ستر برس کے دوران بھارتیوں کو اچھے سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہی آئین قومی ایکتا کی واحد ضمانت ہے۔ اس کے سوا کوئی ترازو نہیں جو مینڈکوں کو تول سکے۔ سری لنکا والوں کو بھی اپنے آئینی ڈھانچے کے بارے میں کوئی کنفیوژن نہیں۔ اسی آئین کے سہارے وہ بیس سال سے جاری خانہ جنگی اور صدر راجہ پکسے کی آمرانہ خواہشات سے نمٹ چکے ہیں اور اب بھی بلا رکاوٹ سفر میں ہیں۔

بنگلہ دیش نے بھی بہت سارے تجربے کرنے کے بعد سیکھ لیا کہ حسینہ واجد کی آمریت بھی پارلیمانی نظام کے تحت ہی چل سکتی ہے ورنہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ مزید انتشار اور خون خرابے کی جانب ہی لے کر جائے گا۔ حزبِ اختلاف کا حال بنگلہ دیش میں خاصا برا ہے۔ مگر کوئی جماعت مار کھانے کے باوجود بالائے آئین اقدامات کے لیے کسی اور ادارے کی جانب دیکھنے کو تیار نہیں۔ جو بھی اچھا یا برا ہو رہا ہے جمہوریت کے طے شدہ سائے میں ہو رہا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان اب تک کیوں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ یہاں جمہوریت چلے گی کہ فوجی آمریت یا جمہوری آمریت یا عدالتی آمریت یا پھر اسلامی جمہوریت یا کوئی بھی ایسا نظام جو استحکام کی ضمانت دے سکے۔ تہتر کا آئین ایک ایسی موٹر سائیکل کی طرح ہے جس کے گئیر اسلامی ہیں، ہینڈل مغربی، پٹرول کی ٹنکی عسکری، ٹائر نجی، گدی سیاسی اور لائٹیں کیپٹلسٹ ہے۔ کوئی شخص کوئی ادارہ، کوئی جماعت واضح طور پر نہ اچھی بات پوری طرح بتانے کو تیار ہے نہ ہی بری بات مکمل طور پر اگلنے پر آمادہ۔

ان حالات تک پہنچانے کا ذمے دار کون ہے؟ جب واضح جواب مانگا جائے تو گونگوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب اشارے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ پوچھا جائے کہ جو بھی نظام آپ لوگوں نے اس وقت اپنا رکھا ہے کیا آپ اس پر کامل یقین رکھتے ہیں تو پھر تاویلاتی و معذرت خواہانہ و الزامیہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ کیا آپ اس نظام سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں؟ جواب آتا ہے ہاں۔ اچھا تو اس کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟ جواب میں آتی ہے خاموشی، گول گول گھومتی آنکھیں اور بس۔

نہ آپ پوٹن بننا چاہتے ہیں، نہ آپ کو ایرانی ماڈل پسند ہے، نہ آپ کو چینی نظامِ حکومت اپنانے سے کوئی دلچسپی ہے، نہ آپ بھارتی ڈیموکریٹک فیڈرل ماڈل کو ہضم کر سکتے ہیں نہ آپ اپنا کوئی ایسا آمرانہ یا جمہوری ماڈل بنانے کے قابل ہیں جو اس ملک کے شہریوں کو بے یقینی کے بھنور سے نکال کے سلامتی کے جزیرے تک لے جا سکے۔ تو پھر آپ ہیں کون اور کیوں ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟

مجھے تو یہ ملک اور اس کے باشندے قومی ائیر لائن کے موٹو مافق ہی لگتے ہیں " باکمال لوگ لاجواب سروس"۔

Check Also

Sher e Mysore Sultan Tipu Shaheed (2)

By Zulfiqar Ahmed Cheema