1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Bachpan Mein Eid Ke Din

Bachpan Mein Eid Ke Din

بچپن میں عید کے دن

بچپن میں عید کے دن گھر میں عزیز رشتے دار آتے تو مجھے پوچھتے کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ میں جواب دیتا" فوج میں جاؤں گا، جہاز اڑاؤں گا"۔ میرے ذہن میں ائیر فورس اور فوج ایک ہی شے تھی۔

عید کے دن کا آغاز بیگم کی گھن گرج سے ہوا۔ انہوں نے مجھے خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اپنی کلائیوں کے بھرپور زور سے ہلاتے فرمایا " اٹھیں اٹھیں اٹھیں"۔ ابھی آنکھ لگے دو گھنٹے ہی بیتے تھے۔ گہری نیند سے ہڑبڑا کے اٹھا اور دل دہل کے رہ گیا کہ الہی خیر۔۔ چند سیکنڈز میں ہوش ٹھکانے لگے تو کانوں میں آواز آئی " عید کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ آپ بیہوش سوئے ہوئے ہیں۔ آپ کو الارم بھی نہیں جگا سکتا۔ ساری رات فینز سے بات کرتے گزار دی ناں۔ وقت پر سوئے ہوتے تو جاگ جاتے۔ کبھی فرح کا مسیج تو کبھی نادیہ کا۔۔ "۔۔ میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ بیگم کون فرح کون نادیہ؟ مگر پہلے ہی نیند سے اٹھتے دل دہلا ہوا تھا، سوچا اب پوچھا تو عید یہیں گل ہو جائے گی۔

برابر والی مسجد سے مولانا سپیکر پر تکبیر پڑھ رہے تھے۔ گھر واپس آنے تک بیگم کچن میں کچھ تل رہی تھی(شام کو پتہ چلا کہ وہ لُچ تھا)۔ میں اپنا منہ اور مسور کی دال لئے کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بیتی ہوگی کہ میری لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی۔ اچانک ایک چھپاکا سا ہوا۔ ڈر کے مارے آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں بیگم نے ایک باؤل تھام رکھا ہے اور کہہ رہی ہے " یہ شیر خرمہ چیک کرکے بتائیں میٹھا ٹھیک ہے؟"۔۔ میں نے لاحول پڑھا اور کہا " بیگم اس شیر خرمہ کو چکھانے کی ایسی کیا آفت آن پڑی تھی کہ مجھے پھر ڈرا کے اٹھا دیا؟"۔ اس نے آنکھیں نکالیں" یہ کھائیں۔۔ عید کے دن کھانا ہوتا ہے"۔۔ اب شدھ بریلوی اور دیندار بیگم کو کون سمجھائے کہ بیگم قسم سے شیر خرمہ عید کے دن فرض نہیں ہوا تھا۔۔

چمچے کی نوک پر مجھے شیر خرمہ کھلایا گیا۔ میں نے تین چار چمچ انڈیلے اور کہا کہ ہاں سب ٹھیک ہے۔ کہنا یہ چاہتا تھا کہ بس ہوگیا ناں؟ اب سکون کر لوں؟ بیگم نے فوری جواب دیا " نہیں آپ ٹھیک سے نہیں کھا رہے۔ اس کا مطلب شیر خرمہ اچھا نہیں بنا؟ ہے ناں؟"۔ میں نے انتہائی سنجیدہ چہرہ بناتے کہا " نہیں نہیں ایکدم بہترین بنا ہے۔ زبردست ہے۔ بس ابھی آنکھ لگ گئی تھی تو ایکدم کھانے کا من نہیں ہو رہا"۔۔ وہ مطمئن نہ ہوئی۔ " ہمممم من نہیں ہو رہا۔۔ میٹھا تو آپ کی پسند ہے اور من نہیں ہو رہا۔۔ یہ کہانیاں کسی اور کو سنایا کریں۔ چپ کرکے ختم کریں اسے"۔۔

مزیدار شیرخرمہ ختم کر چکا تو بیگم پلٹ گئی۔ کچھ گھڑی کو پھر سکون نصیب ہوا۔ موبائل اٹھایا اور عید مبارک کے پیغامات کے جواب دینے لگا۔ اچانک بیگم آئی " یہ مسکرا مسکرا کے کسے عید مبارک کہہ رہے ہیں؟ شکل دیکھیں اپنی آپ کا تو بس نہیں چل رہا کہ مبارک کے ساتھ معانقہ بھی کر لیں۔۔ مجھے عیدی دی آپ نے؟ نہیں ناں۔ اور ساری دنیا کو عید مبارک لگائی ہوئی ہے۔ میں نوٹ کر رہی تھی کہ آپ خود بلا کر عیدی دیں گے۔ "۔۔ یہ سن کر میرے ہاتھ سے موبائل چھوٹا اور بیڈ پر گرا۔ میں نے ہنستے ہوئے بٹوہ تھاما " یہ لو بیگم۔۔ عیدی تو مجھ پر ڈیو تھی۔ دینا ہی تھی"۔۔

اس نے ہونہہ کرکے پانچ ہزار کے دو کڑکتے نوٹ تھامے اور جاتے جاتے بولی " اب بیشک میری جانب سے بھی نادیہ و فرح کو عید مبارک کہہ دیں"۔۔ میں نے اب زچ ہو کر کہا " آخر کون نادیہ کون فرح؟"۔ اس نے پلٹ کر وار کیا " اچھا؟ لائیں اپنا موبائل دیں۔ ابھی نکال دیتی ہوں کہ کون"۔ اس سے قبل کہ مزید حملہ ہوتا میں نے چپ سادھنے کو ہی اپنی فتح سمجھا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد چائے آئی۔ بیگم چائے کا کپ تھماتے بولی " تھوڑی پتی زیادہ ڈل گئی ہے۔ ہلکی سی کڑوی ہوگئی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ پی نہ جا سکے"۔ میں نے گھونٹ بھرا۔ چائے تو پتی کی کثرت کے سبب کسیلی تھی۔ میں نے مگ رکھ دیا۔ بیگم نے یہ دیکھ کر کہا " آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا مگر نہیں۔ آپ نے ماننی ہی نہیں۔ غلطی میری ہی ہے۔ اب آپ نے نہیں پینی ناں؟ عید کے دن بھی دل نہ رکھیئے گا کہ چلو ایک غلطی ہوگئی تو جانے دوں عید کے دن تو دل نہ توڑوں"

میں نے بیگم کو مکمل تسلی کروائی کہ نہیں نہیں پی تو رہا ہوں۔ کیسی بات کرتی ہو۔ ابھی ساری پئیوں گا۔ چنانچہ نجانے کس جرم کی پاداش میں چائے انڈیلنا پڑی۔

شام کو کہنے لگی " آپ نے کبھی مجھے عید پر کراچی نہیں بھیجا۔ آپ کو بس اپنی پڑی ہوتی ہے کہ یہ عید پر گھر میں رہ کر میری خدمت ہی کرے بس۔ "۔۔ میں نے اسے یاد دلوانا چاہا کہ آپ کو بھیجا تھا۔ سن کر بولی "تین سال ہو گئے اسے"۔۔ اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا بیگم نے یوم رخصتی سے لے کر آج تک کی ان تمام محرومیوں کی کیسٹ سنانی لگے جن کا سبب صرف و صرف میں بنا۔ جیسے ہی میں ٹوکتا یا کچھ یاد دلواتا بیگم جوابی وار کرتے ہوئے موضوع اور جانب لے جاتی اور اس جانب بھی قصور میرا ہی نکلتا۔

پائلٹ تو نہ بن سکا جہاز بن چکا ہوں۔ اپنی تو یہ حسرت ہی رہی کہ کاش ساسُو ماں زندہ ہوتیں تو ان کو کال کرکے کہتا

"Hello Control Tower! May Day، May Day، May Day، "

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig