Babbu Khan, Bhola Sunyara Aur Humayun Gujjar
ببو خان، بھولا سنیارا اور ہمایوں گجر

اس وقت میری عمر ہوگی انیس بیس سال۔ سیالکوٹ شہر کے بیچوں بیچ حکیم خادم علی روڈ مصروف ترین سڑک ہے۔ اک جانب ماڈل ٹاؤن ہے دوسری طرف نور پورہ، بجلی محلہ، سبزی منڈی جیسی گنجان آبادیاں ہیں۔ میرا گھر نور پورہ میں واقع تھا۔ ایک روز اہل محلہ میں خبر پھیلی کہ پولیس کا جلوس آ رہا ہے۔ میری عمر کے محلے دار دوست سب بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ ہمیں رتی برابر اندازہ نہیں تھا کہ کونسا جلوس، کیسا جلوس اور پولیس کیا کرے گی۔ ہمیں لگ رہا تھا پولیس خادم علی روڈ پر پریڈ کرے گی۔
سڑک پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ ہجوم اُمڈ آیا تھا۔ سب کو پولیس کے جلوس کا انتظار تھا۔ مجھے یاد ہے میں دوستوں کے ساتھ وہیں گپوں میں مصروف تھا کہ پولیس کی گاڑیاں آنے لگیں۔ دو گاڑیوں کے بیچ ایک گدھا گاڑی تھی جو کوڑا کرکٹ یعنی کچرے سے بھری تھی اور اس کچرے کے اوپر ایک لاش تھی جس کے کھلے ہوئے منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ منظر انتہا درجے کا دلخراش تھا۔ یہ کون تھا میں نہیں جانتا تھا۔ اس وقت اتنا معلوم ہوا کہ پولیس نے اس کو مارا تھا اور یہ کوئی خطرناک مجرم تھا۔ اس کی سیالکوٹ شہر میں پریڈ کرائی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس کا انجام دیکھ لیں۔ لاش خون آلودہ تھی۔ خون جم چکا تھا۔ وہ منظر دیکھ کر مجھے متلی آ رہی تھی۔ مجھ سے تو دیکھا نہیں جا رہا تھا لیکن لوگ پنجاب پولیس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ لوگ خوش تھے۔ پنجاب پولیس کے حق میں نعرے نہ اس سے پہلے کبھی لوگوں سے سنے تھے نہ اس کے بعد آج تک سنے۔
بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ ببو خان نامی گینگسٹر تھا۔ مجھے تب معلوم نہیں تھا ببو خان کیا کرتا تھا۔ وہ تو بہت بعد میں پتا چلا۔ لیکن یہاں ذکر ببو خان کے ساتھی اور مشہور زمانہ گینگسٹر بھولا سنیارا کا کروں گا۔ سیالکوٹ سے ببو خان، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے گینگسٹرز نے جنم لیا جن کی دہشت سے پورا پاکستان لرزتا رہا۔
بھولا سنیارا سیالکوٹ میں واقع گلی سالو گجر میں دکان کرتا تھا۔ اس کا والد سنیارا تھا۔ یہ ایک عام سا نوجوان تھا جو اپنے باپ کے ساتھ سونے کے زیورات کا کام دیکھتا تھا۔ ہاں، اس کا ایک دوست ببو خان تھا جو چھوٹا موٹا چور تھا۔ ببو خان کراچی چلا گیا تھا۔ وہاں وہ لوگوں کے گھروں سے سونا یا زیورات چوری کرتا۔ طریقہ واردات اس کا یہ تھا کہ ونڈو اے سی (اس زمانے میں ونڈو اے سی ہوا کرتے تھے) کو دھکا دے کر پھینکتا اور اس سوراخ سے گھر میں داخل ہو جاتا۔ کراچی اس کے لیے بہترین تھا کیونکہ اے سی کراچی جیسے بڑے شہر میں ہی لگتے تھے اور امیر لوگ ہی افورڈ کیا کرتے تھے۔ چوری شدہ زیورات وہ کراچی سے لا کر بھولا سنیارا کو چوری کے بھاؤ بیچ جاتا۔ اس طرح بھولا سنیارا کی آمدن بھی کافی ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے اس کا باپ بھولا کے ان کارناموں سے لاعلم تھا۔ ببو خان ابتداء میں چوری چکاری ہی کرتا اور بھولا سنیارا بھی وہی کچھ کرتا جو لالچ میں سنیارے کرتے ہیں۔
سنہ 1978 میں سیالکوٹ میں اس وقت کے ممبر قومی اسمبلی میاں مسعود احمد نے پانچ تولے سونا بھولا سنیارا کے والد کے پاس نقش نگاری یا ڈیزائن کی تبدیلی کے لیے بھجوایا۔ بدقسمتی سے اسی رات دکان میں چوری ہوگئی۔ چور سارا سونا لے گئے۔ میاں مسعود احمد کو یہ شک تھا کہ دکان میں چوری انہوں نے خود کرائی ہے۔ بات پہلے توں تڑاں تک پہنچی۔ اس کے بعد اگلے دن میاں مسعود نے بھولا سنیارا کے والد پر چوری کا پرچہ کٹا دیا۔ اس وقت بھولا سنیارا کی عمر انیس برس تھی۔ پولیس کیس ہوا تو اس کے باپ کو حوالات کی سیر کرنا پڑی۔ بعد ازاں اسے تین سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ایک دفعہ بھولے کی ماں کھانا لے کر جیل گئی تو ایک پولیس اہلکار نے اسے پیچھے ہٹانے کے لیے دھکا دے دیا۔ اس کی ماں کا جھٹکے سے پاؤں پھسل گیا۔ گرتے ہوئے اس کا سر دیوار سے ٹکرایا اور وہ موقع پر انتقال کر گئی۔
بھولا سنیارا یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔ وہ معافی تلافی کرنے اور اپنے باپ کو جیل سے باہر نکلوانے کی خاطر اپنے ساتھ ایک دوست شیخ قیصر کو لے کر ایم این اے میاں مسعود کے قریبی سمجھے جانے والے پپو بٹ کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اسے میاں مسعود سے ملوا دے۔ پپو بٹ خود کن کٹا تھا اس نے سمجھا یہ حملہ کرنے آیا ہے۔ بٹ نے فائر مار کر شیخ قیصر کو ہلاک کر دیا اور بھولا سنیارا زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ابھی وہ ہسپتال میں تھا کہ خبر ملی اس کا باپ بھی جیل میں ہارٹ اٹیک سے چل بسا ہے۔ جب وہ تندرست ہوا تو اس نے بدلہ لینے کا اعلان کرتے میاں مسعود کو قتل کرنے کا اعلان کر دیا۔ کاروبار ختم ہو چکا تھا۔ اس نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ دو ماہ کے اندر اس نے 35 ڈکیتیاں کیں جن میں اس نے تین لوگ مار ڈالے۔
بھولا سنیارا کے ڈر سے میاں مسعود پندرہ سے زائد گارڈز اپنے ساتھ رکھنے لگا۔ ایک روز وہ اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس سے واپس سیالکوٹ آ رہا تھا بھولے نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہا لیکن چار گارڈز مارے گئے اور پانچ شدید زخمی ہو گئے۔ اس حملے کے بعد بھولا فرار ہو کر گوجرانوالہ چلا گیا جہاں اس نے ہمایوں گجر کے پاس پناہ لے لی۔ ہمایوں گجر بھولا سنیارا کے پھپھو کا بیٹا تھا۔ اس کا شمار بھی پنجاب کے ٹاپ ٹین گینگسٹرز میں ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت تک ہمایوں گجر جرم کی دنیا میں داخل نہیں ہوا تھا۔ پولیس نے اس کی تلاش میں بہت چھاپے مارے لیکن وہ کامیاب نہ ہو پائی۔
ایک سال بعد نارووال میں ایک شادی پر ایم این اے میاں مسعود موجود تھا۔ بھولے نے ہمایوں گجر کے ہمراہ حملہ کر دیا۔ میاں مسعود اپنے چار بیٹوں سمیت قتل ہوگیا۔ اس کے بعد سیالکوٹ تا لاہور سینٹرل پنجاب میں بھولا سنیارا دہشت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ ہمایوں گجر کا نام بھی جرم کی دنیا میں بولنے لگا تھا۔ ایک بار بھولا سنیارا سیالکوٹ میں اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ کے لیے آیا۔ اس کی مخبری ہوگئی۔ پولیس نے گرفتار کر لیا۔ پکڑے جانے کے چوبیس گھنٹوں بعد ہی اس نے حوالات میں پولیس اہلکار سے گن چھین کر پانچ پولیس اہلکار قتل کر دئیے اور فرار ہوگیا۔ فرار ہو کر اس نے ہمایوں گجر کے ساتھ مل کر ہمایوں گجر کے دشمنوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ یہ دونوں گینگ بنا چکے تھے۔
پنجاب پولیس نے بھولے کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے رکھ دی تھی۔ اسی دوران ببو خان بھی چوری چکاری چھوڑ کر اسلحہ لیے ڈکیتیاں کرنے لگا۔ ببو خان، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا تینوں دوست تھے۔ یہ اب اجرتی قاتل بھی بن چکے تھے۔ پنجاب بھر میں سپاری لے کر بندے مارنے کا سلسلہ عروج پر پہنچ چلا تھا۔ عالم یہ ہو چکا تھا کہ سیالکوٹ شہر میں راتوں رات سڑکوں پر بھولا سنیارا اور ببو خان کی جانب سے بینرز لگا دیے جاتے جن میں لکھا ہوتا "خبردار کوئی سیالکوٹ میں منشیات کا لین دین ہمارے سوا کسی اور سے نہ کرے"۔ اگلے روز پولیس اور بلدیہ وہ بینرز اتار رہی ہوتی اور پھر کوئی بینرز لگا جاتا۔ یہ بینرز والا سلسلہ چلتا رہا۔
ایک بار بھولا قصور میں کسی جگہ موجود تھا۔ مخبری ہوگئی۔ پولیس نے گھیر لیا۔ اس کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ تین گھنٹے تک بھولا فائرنگ کرتا رہا۔ اس نے دو ڈی ایس پی افسروں سمیت پانچ پولیس اہلکار قتل کر ڈالے۔ بلآخر اس کی گولیاں ختم ہوگئیں۔ اس نے سرنڈر کر دیا۔ آئی جی پنجاب نے اس کو پار لگانے کا فیصلہ کیا۔
پار لگانے کے لیے بھولا سنیارا کو ایک جنگل میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کو بھاگنے کا کہا گیا۔ یہ بھاگا۔ اس کو پانچ گولیاں لگیں لیکن معجزاتی طور پر یہ بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے دو سال بعد تک بھولا سنیارا کی کوئی خبر نہ آئی۔ وہ غائب ہوگیا۔ پولیس کو گمان گزرنے لگا کہ شاید بھاگنے کے بعد یہ گولیوں کے زخم سے کہیں مر گیا ہوگا۔ لیکن دراصل وہ بھاگ کر لنڈی کوتل جا چکا تھا جہاں جمرود میں اس نے اپنا ڈیرہ بنا لیا تھا۔ جمرود علاقہ غیر تھا۔ وہاں پولیس کی عملداری نہیں تھی۔
لنڈی کوتل اس نے جو قلعہ نما ڈیرہ بنایا وہاں پاکستان بھر کے مفرور پناہ لیتے تھے۔ اس کے تعلقات ٹیپو ٹرکاں والے سے بنے۔ پھر گوگی بٹ نے اسے اپنی جانب کر لیا۔ جمرود میں بیٹھ کر اس نے منشیات کا کاروبار شروع کیا۔ اسلحہ کا کاروبار شروع کیا۔ لاہور گینگ وار میں اس کے گینگ کے لوگ شامل رہے۔ یہ سپاری لیتا تھا۔ اس کو ڈان آف ڈانز کہا جاتا تھا یعنی بدمعاشوں کا بدمعاش اور حقیقت بھی یہی تھی۔ کہا جاتا ہے اس نے پاکستان بھر میں بالخصوص پنجاب میں سات سو افراد کا قتل کروایا۔ جمرود سیف ٹھکانہ رہا۔ لیکن آخر کار حکومت پاکستان کا ضبط جواب دے گیا۔
پاکستان آرمی کو اس کے خلاف آپریشن کا حکم دیا گیا۔ ملٹری نے بھولا سنیارا کے ڈیرے کا گھیراؤ کیا۔ اس کے گینگ نے راکٹ لانچرز فائر کیے۔ چار گھنٹے تک جمرود میں اس کا ڈیرہ جنگ کا منظر بنا رہا۔ دنیا جہاں کا اسلحہ اس نے چلا دیا تھا اور پھر یہ ملٹری آپریشن میں اپنے گینگ سمیت مارا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بھولا سنیارا کو نوے گولیاں لگی تھیں۔
ببو خان کو گوجرانوالہ میں خواجہ لوسی نامی ایک پہلوان نے فائر مار کر زخمی کر دیا تھا۔ ببو خان اس کو مارنے گیا تھا۔ گوجرانوالہ کا خواجہ لوسی بھی ٹیڑھا بندہ تھا۔ وہ ہر وقت بلٹ پروف جیکٹ پہنے رکھتا تھا۔ ببو خان نے فائر کیا۔ فائر بلٹ پروف جیکٹ نے روک لیا۔ لوسی نے جوابی فائر مارا جس سے ببو زخمی ہو کر بھاگا۔ کچھ دیر بعد پولیس نے ببو کو تلاش کر لیا اور موقع پر ہی پار لگا دیا۔ ببو خان کی لاش سیالکوٹ میں کچرے سے لدی گدھا ریڑھی پر ڈال کر شہر میں گھمائی گئی۔ ہمایوں گجر کا خاتمہ انسپکٹر نوید سعید نے کر دیا جس کے بارے میں لاہور گینگ وار کے اہم کرداروں حنیفہ و بابا کے ذکر میں لکھ چکا ہوں۔
گینگز آف وسے پور فلم کا اوپننگ ڈائیلاگ ہے"انسان جو ہیں وہ بس دو نسل کے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتے ہیں حرامی، دوسرے بیوقوف۔ یہ سارا کھیل ان دونوں کا ہی ہے۔ کب کوئی حرامی بیوقوفی پر اُتر آتا ہے اور کب کوئی بیوقوف حرامزدگی کا تالاب بن جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔ کوئی انت میں کیا ثابت ہوا وہ الگ بات ہے کم سے کم جیتے جی تو سب اپنے آپ کو پھنے خان ہی سمجھتے تھے"۔

