Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Azm e Istehkam

Azm e Istehkam

عزم استحکام

عزم استحکام نامی آپریشن کے خدو خال واضح نہیں۔ آیا یہ مسلح فوجی آپریشن ہوگا یا ٹارگٹڈ ان مذہبی متشدد گروہوں یا جماعتوں کے خلاف جو یہاں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے میں ملوث ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ فوجی چھتری تلے جو بھی آپریشن ہوگا جس نوعیت کا بھی ہوگا اس کے نتائج بھیانک نکلیں گے۔ یہ مسائل سُلجھائے گا نہیں بلکہ مسائل بڑھائے گا۔ پھر کیا کہئیے اس صورتحال پر جہاں ادارے کے چیف خود جگہ جگہ گفتگو میں مذہبی حوالے دیتے ہوں اور اسی کی بنیاد پر معیشت تا معاشرت تک کے حل تجویز کرتے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ ایسے کسی آپریشن کو ایک صوبے یا علاقے تک محدود کیوں رکھا جائے گا۔ خیبر پختونخواہ ہی کیوں سارے ملک میں یکساں کیوں نہیں؟ پنجاب اور ساؤتھ پنجاب تو انتہاپسندی کی پنیریاں ہیں۔ اس جانب کیوں نہیں؟ لشکر تا سپاہ نامی متعدد تنظیمیں کہاں بنیں اور کہاں اپنا وجود رکھتیں ہیں؟ ساؤتھ پنجاب میں۔ ٹی ایل پی کو کس نے پروان چڑھایا اور کہاں؟ سپاہ محمد کیسے بنی اور کیسے مسلح ہوئی؟ القائدہ کے لوگ کہاں سے برآمد ہوئے؟ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز سے کونسا گروپ پکڑا گیا تھا؟ لشکر طیبہ کہاں بنی کہاں مرکز ہے؟ خالد عمر شیخ کراچی میں کیا کر رہا تھا؟ کوئٹہ سے کونسی "شوریٰ" آپریٹ کرتی ہے؟ ہزارہ کمیونٹی کے قاتل کہاں سے آتے ہیں؟ نوشکی تا تافتان کون آپریٹ کرتا ہے؟ گھوٹکی سندھ میں میاں مٹھو کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ خیبرپختونخواہ میں ٹی ٹی پی کو سپورٹ ہوگی لیکن یہ آئے کہاں سے؟ اس علاقے کے لوگ مذہبی انتہاپسندی کا ایندھن ضرور بنتے ہیں مگر اس کی جڑیں کہاں ہیں وہ تو دیکھو۔

جڑیں کاٹیں گے تو امن ہوگا۔ یہ جڑیں سارے ملک میں پھیلی ہیں۔ کچھ انتہاپسند جماعتوں کو نام و بھیس بدل کر کلین چٹ دے دی گئی ہے ان کو الیکٹورل نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے مگر ان کی متشدد سوچ کو کون نیوٹرل کرے گا؟ اور کیسے؟ یہ سب گروہ ریاست نے ہی پریشر گروپس کے طور پر استعمال کئے ہیں۔ کبھی ہمسائیوں کے خلاف تو کبھی حکومتوں کے خلاف۔ یہ گروہ تو سہولت کار ہیں یا ماضی میں رہے ہیں۔ اگر واقعی امن قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ریاستی "اثاثوں" کو نیوٹرلآئز کرنے کا واضح روڈ میپ دیجئیے یا کم از کم کارروائی کرکے واضح اشارے دیجئیے تاکہ عوام "عزم استحکام" کو سپورٹ کریں۔ ہو سکے تو پہلی فرصت میں سکولز و مدارس کا مذہبی نصاب سیدھا کر لیں۔ اس سے فوری نتائج تو نہیں مل سکتے مگر اگلی نسل کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی اور وہ نسل مذہبی انتہاپسندی سے پاک ہوگی۔

کچھ سالوں پہلے تک عسکریت کو ریاستی سطح پر پروان چڑھایا جاتا رہا۔ جنونی جنگجو اور جہادی تنظیموں کو فروغ دیا گیا۔ گاؤں گاؤں، گلی گلی جوانوں کی لاشیں آتیں رہیں۔ بارڈر پار خوب کا** مارے جاتے رہے۔ جہادی مدرسوں اور کیمپوں تک ہر پاکستانی کو رسائی مسیر تھی۔ کوئی مارکیٹ ایسی نہ تھی جہاں ان کے لئے چندہ نہ اکٹھا کیا جاتا ہو۔ کسی نے نہ سوچا کہ پاکستانی اس طرح مذہبی جنونی بنتے جا رہے ہیں اور پاکستان عالمی مہذب دائرے سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

Check Also

Hum Kis Liye Likhte Hain?

By Nasir Abbas Nayyar