Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aye Ki Shai Wa?

Aye Ki Shai Wa?

اے کی شے وا؟

مجھے یاد ہے جب سیالکوٹ کینٹ میں میکڈونلڈز کی پہلی برانچ کھُلی تھی۔ میں نوجوان تھا۔ اوپننگ والے دن دو دوست مجھے ہنڈا 125 پر بٹھا کر لے گئے۔ اس زمانے میں انٹرنیشنل فوڈ چین کا سیالکوٹ جیسے چھوٹے شہر میں آنا یوں تھا مانو جیسے کسی گاؤں میں لکی ایرانی سرکس آ گئی ہو۔ یعنی اہلیانِ سیالکوٹ واسطے حیرت ناک۔

میکڈونلڈز کے قریب پہنچے تو سڑک ٹریفک کے سبب جام تھی۔ ایسا رش، اس قدر ہجوم، ایسی افراتفری مانو جیسے مفت بٹ رہا ہو۔ لوگ فیملیز کے ہمراہ صرف یہ دیکھنے پہنچے ہوئے تھے کہ اے کی شے وا۔ سیالکوٹ میں میکڈونلڈز سے قبل کوئی عالمی فوڈ چین نہیں تھی اور ہمارا برگر گھنٹہ گھر چوک میں واقع انڈہ شامی برگر سے ترقی نہیں کر سکا تھا۔

ہم تین دوستوں نے جب ہجوم دیکھا تو میں نے آگے جانے سے انکار کرتے کہا کہ میں تو نہیں جا رہا۔ تم دونوں جاؤ جا کر لے لو اگر ملتا ہے۔ وہ دونوں شدید ایکسائٹڈ تھے۔ مجھے سچ میں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں بائیک سے اُتر کر سائیڈ پر چلا گیا اور ایک بینک کی سیڑھیوں پر جا بیٹھا۔ انتظار کرتے گھنٹہ بیت گیا مگر دوستوں کی دور دور تک کوئی خبر نہ تھی۔ موبائل کا استعمال کم ہوا کرتا تھا۔ نوکیا کے 3310 سیٹ میں جاز کی سم تھی مگر بیلنس آؤٹ رہتا تھا۔

آخر میں انتظار سے اُکتا کر ان کی تلاش میں میکڈونلڈز کی جانب چل پڑا۔ آگے شدید ہجوم۔ بندے پر بندہ چڑھا ہوا۔ ایسی دھکم پیل کہ الامان۔ ملٹری پولیس بھی موقع پر موجود تھی مگر وہ بے بس ہو کر کھڑے تھے۔ بیشمار لوگ ایسے تھے جو بس سچ میں برگر کو قریب سے دیکھنے پہنچے تھے۔ ان منچلوں نے خریدنا نہیں تھا بس دیکھنا تھا کہ اے کی شے وا۔

ہجوم کی دھکم پیل دیکھ کر میں مزید آگے نہیں بڑھا۔ ابھی وہیں کھڑا ہجوم کو نظروں سے ٹٹول کر دوستوں کو تلاش کر رہا تھا کہ وہ دونوں رش سے برآمد ہوتے نظر آئے۔ ایک برگر ان کے ہاتھ میں تھا۔ قریب آئے تو برگر کا ڈبہ بھی پچکا ہوا نظر آیا۔ جیسے ہی پاس پہنچے اس سے قبل کہ میں کچھ بولتا۔ ایک بولا " او یار، ایک ہی برگر مل سکا ہے۔ اس کو تینوں تقسیم کر لیتے ہیں۔ " اور پھر ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور اونچا اونچا ہنسنے لگے۔ اس قدر ہنسے کہ میں ان کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔ جب کچھ ہنسی تھمی تو ایک بولا " مہدی، برگر تو کسی طرح ایک لے لیا مگر اس کے ساتھ بہت برا ہوا ہے (دوسرے دوست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے)"۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟

وہ ہنستے ہوئے وہ جو پنجابی میں بولا من و عن ویسا لکھنا تو مناسب نہیں مگر شگفتہ اردو میں اس کا لب لباب تھا کہ " یار پتہ نہیں کہاں کہاں سے مجھے نامناسب مقام پر ٹچ کیا گیا۔ میں ایک سے لڑ پڑا تو وہ پیچھے ہٹ گیا مگر پھر ایک خبیث شکل والا بڑا لڑکا آ گیا اور اس نے مجھے دیوار سے لگانا چاہا"۔ یہ سن کر میں ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا اور ہم تینوں کو پھر ہنسی کا لمبا دورہ پڑ گیا۔ جب کچھ تھمے تو میں نے کہا " چلو۔ تم دونوں کا یہ شوق تو پورا ہوا ناں کہ اے کی شے وا؟"۔

دو تین روز میکڈونلڈز پر ایسے ہی بھرپور رش رہا۔ ہفتہ دس دن بعد جب ہم دوبارہ اس جگہ گئے تو ایکدم سکون تھا۔ امن شانتی تھی۔ پراپر مینج تھا۔ باقاعدہ سسٹم کے تحت سب آرڈرز ہو رہے تھے اور صورتحال نارمل ہو چکی تھی۔

یہ قصہ مجھے اچانک یوں یاد آیا ہے کہ دو دن پہلے اپنا ایک پرائیویٹ گروپ بنایا اور مجھے یہ یقین تھا کہ اس میں تین چار سو لوگ ہوں تو کافی ہے۔ اس میں سو ڈیڑھ سو تک بھی بات پہنچ جائے تو ٹھیک ہے۔ کم از کم لوگ تو سلجھے ہوں گے۔ مگر صاحبو، اس گروپ کے لیے اتنے پیغامات آئے۔ اس قدر میسجز ملے کہ اڑتالیس گھنٹوں میں تعداد تین ہزار ہوگئی ہے۔ اب مجھے شک سا پڑنے لگا ہے کہ یوں تو نہیں کہ لوگ مارے تجسس کے میکڈونلڈز سمجھ کر آ رہے کہ " اے کی شے وا"؟ رش بہت ہوگیا مگر مولا کا شکر کہ کسی نے مینوں"نامناسب ٹچ" نئیں کیتا۔ مگر ابھی میں نے ان کی میچورٹی کا امتحان بھی تو نہیں لیا۔ بھائیو، یہ بس گروپ ہے اور ویسا ہی جیسے باقی سب ہوتے ہیں۔ اے کوئی خاص شے نئیں۔ دیکھنے آنا ہے تو نہ آئیے گا۔ دوجے تیجے دن رش گھٹ ہو جانا۔ ہفتے بعد سب نارمل۔ کیونکہ وہاں کوئی ہنسی مزاق نہیں ہوتا نہ ہوگا۔ وہ صرف سنجیدہ موضوعات یا سنجیدہ تحاریر کے واسطے بنایا ہے۔ وہ یہاں نہیں لکھوں گا۔ دماغ پر زور ڈالنا منع ہے۔ یہاں بس ہسو، کھیڈو، اپنے حصے کی آکسیجن چھِکو تے اگاں چلو۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan