Aik Thappar Aur Insani Nafsiyat
ایک تھپڑ اور انسانی نفسیات

ایک ویڈیو نظر سے گزری اور اس کو دیکھ کر دل بوجھل ہوگیا۔ ایک باپ اپنے ٹین ایجرز تین بیٹوں کو پبلک میں گندی گالیاں نکالتے مار رہا ہے۔ وجہ یہ کہ تینوں گھر سے بہانہ بنا کر دوستوں کے ساتھ ریسٹورنٹ آئے ہوئے تھے۔ ہمارے والدین کا یہ رویہ بچوں کی عزت نفس پر حملہ ہوتا ہے۔ وہ اس چیز کا احساس نہیں کر رہے ہوتے کہ اس طرح وہ اپنی اولاد کو خود سے دور کر رہے ہیں۔ اولاد کو گھر لا کر گالی گلوچ اور تشدد کے بنا سمجھائیں۔ دوستوں میں، پبلک میں اس کی توہین نہ کریں۔ ایسے واقعات بچوں کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ان کی نفسیات کو بگاڑ دیتے ہیں۔
میرے والد بہت سخت مزاج تھے۔ مغرب کی آذان کے بعد مجھے گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک بار کرکٹ کھیلتے دیر ہوگئی۔ ہم لڑکوں نے پیسے جمع کرکے گراؤنڈ میں فلڈ لائٹس لگوائیں تھیں۔ رمضان آ رہا تھا۔ ارادہ تھا کہ افطار کے بعد کھیلا کریں گے۔ مجھے ابو سے ابھی اجازت لینا تھی۔ لائٹس کو لگے پہلا دن تھا۔ کرکٹ کھیلتے تھوڑی دیر ہوگئی۔ مغرب کے بعد ابو تلاش کرتے گراؤنڈ میں آئے اور مجھے بھری گراؤنڈ میں ایک چماٹ لگا دی۔ منہ سے کچھ نہیں بولے بس ان کا غصہ ہی کافی ہوتا تھا۔ گالی یا بدزبانی نہیں کرتے تھے۔
اس ایک تھپڑ نے میرے اندر کئی ماہ شدید طوفان برپا کئیے رکھا۔ شرم کے مارے میں نے خود ہی باہر جانا چھوڑ دیا۔ ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا۔ کالج سے گھر آتے اپنے محلے میں داخل ہونے پر میں گلیوں کا بغور جائزہ لیتا کہ کوئی دوست سامنے سے تو نہیں آ رہا۔ میں اس کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ وہ مجھ پر کتنا ہنس رہے ہوں گے۔ جب کوئی دوست نظر آ جاتا میں فوراً رخ موڑ کر واپس چل پڑتا یا آزو بازو کسی گلی میں مڑ جاتا۔
اس ایک تھپڑ نے میری نفسیات پر اتنا شدید اثر کیا کہ میں ایک ڈیڑھ ماہ گھر سے نہ نکلا۔ کرکٹ چھوڑ دی۔ روز سوچتا کہ گھر سے بھاگ جاؤں۔ بھاگوں گا تو ابا کو سبق ملے گا کہ یوں نہیں کرتے۔ ظاہر ہے نوجوانی تھی۔ نوجوانی میں غصہ اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ ہارمونز میں توازن نہیں ہوتا۔
اور پھر ایک دن میں نے امی کے پرس سے پانچ پانچ سو کے دس نوٹ چرا لئیے۔ ان کے پرس میں کُل اتنے ہی تھے۔ پانچ ہزار لے کر میں گھر سے بھاگ گیا۔ ارادہ تھا کہ اسلام آباد جاؤں گا۔ فیصل مسجد گھوموں گا اور ایک رات ہوٹل میں رہ کر آ جاؤں گا تاکہ گھر والوں کو میری قدر کا احساس ہو۔ میں نکل گیا۔ یہ قصہ کئی بار میڈیا انٹرویوز میں سنا چکا ہوں۔ میں ان خوش قسمت آرٹسٹس میں ہوں جس کے انٹرویو پاکستانی میڈیا سمیت فارن میڈیا نے لیے ہوئے ہیں وہ سب اسی وال کی ویڈیوز میں پوسٹ ہیں۔ قصہ مختصر، اسلام آباد کی بجائے میں گلگت چلا گیا اور یوں شمال سے میرا پہلا تعارف ہوا۔ گلگت کا نام سنا ہوا تھا اور اس کی چند تصاویر گھر کے وال کیلنڈر پر لگی دیکھی تھیں۔ اس زمانے میں وال کیلنڈر ہی ہر گھر میں لگا کرتے تھے۔
واپس جیسے آیا۔ گلگت جیسے پہنچا۔ وہ لمبا مضمون ہے جیسا کہ کہا انٹرویوز میں کئی بار سوال کی صورت پوچھا جا چکا اور میں کئی بار سنا چکا۔ آج بھی مجھے اپنی زندگی کا وہ قصہ نہیں بھولتا اور آج میں جب سوچوں تو ذہن عجب تانے بانے بنتا ہے۔ وہ تھپڑ نہ ہوتا تو کیا میں شمال سے متعارف ہوتا۔ وہ تھپڑ میرے لیے عذاب تھا یا رحمت تھا۔ اماں کے پرس سے پیسے چرانا لڑکپن کی نادانی تھی لیکن ابا پر غصہ سچا تھا۔ مجھے بہت سے سوالوں کا جواب آج بھی نہیں ملتا۔ ابا کو میں بہت یاد کرتا ہوں اور جب ان کی یاد آئے آنکھ بھی نم ہو جاتی ہے۔

