Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aik Sham Uzungol Ke Naam

Aik Sham Uzungol Ke Naam

ایک شام اُزونگول کے نام

مغرب کی آذان پہاڑی بستی میں گونجنے لگی۔ بادل چوٹیوں سے اُتر کر مسجد کے میناروں کا طواف کرنے لگے تھے۔ مؤذن کی آواز میں سوز اس قدر تھا کہ خدا یاد آ گیا۔ میرے ہاتھ میں سفر کی لکیروں میں کہیں اس جھیل اُزنگول کی بھی لکیر تھی۔ جھیلوں کنارے بیٹھے مجھے نجانے کیوں سوچیں گھیر لیتی ہیں۔ موسم سرد ہو رہا تھا۔ آذان گونجتی رہی اور اس کے ہمراہ میرے خیالوں کی سواری بھاگتی رہی۔ میں کون ہوں، کیوں ہوں، کہاں سے آیا اور کس لیے مجھے بھیجا گیا۔ یہ سلسلہ کُن فیکون کی کڑیاں کہاں ملتیں ہیں۔

ایک کن کی گونج سے یہ جھیل پیدا ہوئی۔ صحرا صحرا، دریا دریا و جود میں آئے۔ دشت و بیاباں، جنگل اور کوہستان بر و بحر۔۔ عالمِ آفاق پیدا کیا گیا۔ یوں میں بھی پیدا ہوا۔ ابھی تو آدم کی زندگی انگڑائی ہی لے رہی تھی کہ کشمکشِ اقرار و انکار میں مبتلا کر دی گئی۔ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ کون جانے کس چیز کا بار امانت میرے سپرد کیا گیا۔ پہلا واسطہ فرشتوں سے پڑا پھر شیطان سے، بعد ازاں جبریل امین کسی کا فرمان سنا گئے۔

شجر ممنوعہ کا واقعہ تو گزر گیا۔ اس کے بعد قید لامعلوم شروع ہوئی، جیے جانے کی تہمت بھی بالائے غم برداشت کرنی پڑی۔ موت نے بڑا کرم کیا لیکن اس سے قبل بہت ہی عجیب، بہت حیرت ناک واقعات رونما ہوئے۔ میری روح نئے آدم اور ہر آدم میں بولتی اور ڈھلتی رہی۔

میں نے بہت سے اسم سیکھے ہیں اور اسمِ اعظم بھی سیکھا۔ میں انہیں سیکھ سیکھ کر بھولتا اور بھول بھول کر سیکھتا رہا۔ میری آرزوئیں کہانیاں بُنتی ہیں اور میری حسرتیں سفر کا سامان پیدا کرتی رہتی ہیں۔ عمر خیام نے ایک کہانی کہی تھی "کوزہ نامہ"۔ مٹی کی مخلوق کی کہانی۔ آپ بیتی! ۔ یہ مینا و جام کو کون بنا کر توڑتا ہے؟ انہیں مے سے کون بھرتا اور خالی کرتا ہے؟ مگر کہانیوں اور خود بیتیوں کے مینا و جام تو میں خود بناتا ہوں۔ خود کوزہ اور خود ہی کوزہ گر۔

پیدا ہوا تو میرے اندر احساسات کے بعد جذبات کی آنچ اُٹھی۔ پھر تخیلات پیدا ہوئے، بعد ازاں ادراک جاگا۔ میں نے یہ نام رکھ چھوڑے ہیں۔ یہ نت نئی اٹھنے والی اندرونی موجوں کے یونہی سے نام ہیں۔ بالکل ادھورے۔ غرض یہ کہ میرے اندر کی دنیا باہر کی نسبت زیادہ تیزی سے بدلتی رہی ہے۔ میں اپنے روپ، رنگ اور اپنے اندرونی ڈھنگ کو پہچاننا چاہتا ہوں مگر پہچان نہیں پاتا۔ کسی کو قرار نہیں، میں بھی بے قرار ہو جاتا ہوں۔

گھبرا کر میں ماضی کے دامن میں پناہ لینے کی سعی ناکام کرتا ہوں۔ ماضی غیرمتزلزل ہے، مستقل ہے، اٹل ہے، لیکن خود میری نگاہ بدلتی رہتی ہے، جیسے دوربین میں نت نئے شیشے لگائے جائیں۔ نظر کا مرکز محور اور فوکس بدلتا ہے، زاویہ نگاہ بدلتا ہے، جانا پہچانا ماضی بھی دھندلاکر رہ جاتا ہے۔ مجھے پناہ نہیں ملتی۔ بوکھلا کر حال کا جائزہ لینے لگتا ہوں۔ اسے سمجھنا چاہتا ہوں لیکن حال سے زیادہ غیر یقینی اور کوئی شے نہیں۔ پھر میں حال کی بھٹی میں جلنے لگتا ہوں، پگھلنے لگتا ہوں، بکھرنے لگتا ہوں اور پریشان ہو کر مستقبل کی جانب پرواز کرنے لگتا ہوں۔ ایک انجان دنیا کی طرف۔ مستقبل کے تصور سے دو گھڑی کے لئے پناہ مل جاتی ہے یا شاید صرف ایک آن کے لئے۔ تمنائیں مستقبل کے نئے ہیولے بناتی رہتی ہیں۔

فرشتے اور شیطان مجھے اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ اس محاذِ خیر و شر کا نشانہ تو میں ہوں۔ میں جانتا ہوں مجھے خراد کر، تراش کر، کاٹ چھانٹ کر، کوٹ پیس کر، گوندھ گوندھ کر، تپاکر، پگھلا کر، کون اپنے لئے کھلونے بناتا رہتا ہے۔ ایک زندہ وجود کو تخلیق کی بھٹی میں ڈالنا ستم ہے کہ کرم؟

اسی تخلیق کی بھٹی نے ہومر کے قلم کو الیاڈ اور آڈیسی لکھنے پر مجبور کیا۔ ابن عربی کے بھیس میں فتوحات مکیہ کو انجام تک پہنچایا۔ میں دانتے کی رگوں میں دوڑا اور اس کی آنکھوں سے ٹپکا۔ میں نے اوتھیلو بن کر اپنی محبت کا گلا گھونٹا۔ میکبتھ کے روپ میں اپنی وفاؤں کو قتل کیا۔ میں نے لیٹر کے ہاتھوں اپنی شفقت کو زہر دیا اور ہیملٹ کے قالب میں آکر ان سب کا خمیازہ بھگتا۔

میں نے کافکا کی چشم باطن سے زندگی کا مشاہدہ کیا۔ میں نے رومی اور سعدی کی آنکھوں سے بھی یہی کچھ دیکھا تھا۔ میری انسانیت کے ایک جزنے دوسرے جز کو نہ پہچانا۔ دوسرے جز میں انسانیت تھی ہی نہیں، شیطنت تھی۔ اکیسویں صدی کے انسان، مہذب و متمدن ہونے کے باوجود قطعی بے درد، بے حس، کٹھور، ظالم نکلے۔ آہ میں کہ میری روح کا ایک جز چمگادڑ بن جاتا ہے اور دوسرا فرشتہ!

اسرار ازل کے ایک واقف نے مجھ سے کہا کہ یہ تغیر، یہ انقلابات، یہ سوچیں سب غدود کی وجہ سے ہیں۔ شہ رگ کے قریب بیٹھ کر وہ میرے خون میں غدود سے "ہارمونز" نچوڑتا رہتا ہے۔ یہی ہارمونز کبھی زہر بن جاتے ہیں، کبھی تریاق۔ ہارمونز نے مارکس، فرائڈ اور آئنسٹائن کو پیدا کیا۔ اسرار ازل کے ایک واقف نے مجھ سے توریت میں کہا "میں تجھے برکت دوں گا اور تجھ پر لعنت بھی کروں گا۔ میں تجھے فرعون سے نجات دوں گا اور ارضِ مقدس میں بساؤں گا۔ پھر تو ذلیل بندر کی طرح ساری دنیا میں مارا مارا پھرے گا اور آخری زمانہ میں تو حساب کے لئے ارضِ پاک میں لایا جائے گا مگر اس وقت تو ملعون ہوگا تو اپنے بھائیوں پر، اسمٰعیل کی نسل پر ظلم ڈھائے گا"۔

ڈھائی ہزار برس قبل میں سدھارتھ گوتم بن کر جنگلوں میں پھرا تھا۔ دو ہزار برس قبل میں صلیب پر مصلوب ہوا تھا۔ چودہ سو برس قبل مجھے تمام دُکھوں سے نجات کا مژدہ سنایا گیا۔ لیکن آج بھی پاکستان سے لے کر شمالی افریقہ تک، لاہور سے روم تک، روس سے ترکی تک، پرانی دنیا سے لے کر نئی دنیا تک، میں اپنی صلیب آپ اٹھائے پھرتا ہوں۔

دھیان ٹوٹنے تک جھیل کے پانی ٹھہر چکے تھے۔ سیاح واپس لوٹ چکے تھے۔ بستی میں اندھیرا اُتر رہا تھا اور پھر رات پھیل گئی۔۔

(ترکی میں بحیرہ اسود کے کنارے بسے ایک ساحلی پہاڑی قصبے اُزونگول سے سفری تاثرات)

Check Also

Haye Qayamat, Chaye Laao Zara, Bohat Be Hayai Hai

By Cyma Malik